حیدرآباد جو کل تھا جسٹس وامن راؤ

محبوب خان اصغر
سرزمین دکن میں طرحدار اور بے نیازانہ زندگی گزارنے والوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی ۔ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں نے دکن کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں کی موثر تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا جز بن کر حیدرآبادی کہلانے کو باعث فخر سمجھا ، ان ہی میں جسٹس وامن راؤ بھی ہیں ۔ سنجیدہ ، ذہین اور محبت سے لبریز وامن راؤ کا تعلق عادل آباد سے ہے مگر عین عالم جوانی میں حصول علم کیلئے حیدرآباد آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ دراصل ہندوستان میں تلنگانہ اور تلنگانہ میں حیدرآباد اس قدر پرکشش ہے کہ یہاں کی آب و ہوا سب کو راس آجاتی ہے ۔ یہاں کے موسموں میں جو اعتدال ہے یہی اعتدال یہاں کے لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ یکجہتی اور ہم آہنگی اس شہر کی شناخت ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بسا اوقات آوارہ مزاج لوگ اس شہر کی فضا کو مسموم کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر امن پسند شہریوں نے آپس میں مل کر ان کوششوں کو بے سود ثابت کرکے امن و امان کو فروغ دیا ہے ۔ جسٹس وامن راؤ نے حیدرآباد کی تمام گم گشتہ رعنائیوں کو اپنی آنکھوں میں قید اور ذہن میں محفوظ کررکھا ہے ۔ ہماری استدعا پر انہوں نے حیدرآباد سے متعلق کچھ یادیں اور کچھ باتیں بتانے کیلئے اپنی رضامندی ظاہر کی ۔ ان سے کی گئی گفتگو کا لب لباب قارئین ’’سیاست‘‘ کی خدمت میں پیش ہے ۔

’’میں 9 مئی 1939 کو ضلع عادل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’بوتھ‘‘ میں پیدا ہوا ۔ ریاست تلنگانہ کا دوسرا بڑا ضلع عادل آباد ہی ہے ۔ ہینڈی کرافٹ کیلئے بھی یہ ضلع شہرت رکھتا ہے اور چونکہ مہاراشٹرا قریب میں ہے اسی لئے مرہٹی زبان بولنے والے بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن بنیادی طور پر اردو اور تلگو شانہ بہ شانہ اس ضلع میں رواں ہیں۔ نیز اس ضلع میں امیر ترین لوگ پائے جاتے ہیں ۔ ہندو 69 فیصد ، مسلم 24 فیصد ، کرسچین 6 فیصد کے علاوہ دوسری اقوام کے لوگ بھی یہاں بستے ہیں ۔ اس ضلع میں تاریخی منادر ہیں ، گنانا سرسوتی مندر مشہور ہے ، کئی مساجد ہیں ، یہاں بڑی مارکٹ میں تاریخی جامع مسجد ایک صدی سے بھی زائد عرصہ سے قائم ہے ۔ مدینہ مسجد نیتاجی چوک میں واقع ہے جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے ، اس کے میناروں کو ماہ رمضان میں برقی قمقموں سے سجا کر اس کی دلآویزی کو بڑھایا جاتا ہے ۔ یہاں چرچ بھی ہیں ۔ سیاح بھی آتے ہیں ۔ عادل آباد واٹر فالس ، لکڑی سے بنے ہوئے کھلونوں اور پینٹنگس کیلئے بھی شہرت رکھتا ہے ۔

حکمران عادل شاہی کے کسی بادشاہ کے نام سے موسوم عادل آباد کا قصبہ ’’بوتھ‘‘ میری جائے پیدائش ہے اور یہیں سے میری ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا ۔ مدرسہ تحتانیہ تا چہارم ’’بوتھ‘‘ میں پڑھنے کے بعد پنجم تا دسویں جماعت عادل آباد ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہا اور میرا ذریعہ تعلیم مرہٹی تھا۔ 1953 تا 1955 ء سیف آباد کالج سے بارہویں جماعت کامیاب کیا تو میرا ذریعہ تعلیم انگریزی تھا ۔ جامعہ عثمانیہ سے زراعت میں گریجویشن کرنے کے بعد اس جامعہ میں ڈپارٹمنٹ آف اگریکلچر میں بحیثیت انسٹرکٹر کام کرتا رہا ۔ میرے خاندان کے کئی افراد پیشہ وکالت سے وابستہ تھے ۔ تایا آنجہانی وینکٹ راؤ اور تایازاد بھائی ونائک راؤ نے بھی قانون پاس کیا تھا ۔ میرے والد رام کشن راؤ کا شمار بھی مشہور وکلاء میں ہوتا تھا ۔ غرضیکہ ددھیال کے اکثر لوگ وکیل تھے ۔ سو میں نے بھی ایل ایل بی کرلیا اور ملازمت سے استعفیٰ دے کر پیشہ قانون کو اختیار کیا ۔ چونکہ ونائک راؤ اس میدان میں سینئر تھے ، 1962 میں انہوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور اپنے تجربات کی روشنی میں قانون اور اس کی روح کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کیا ۔
ریاست حیدرآباد میں 1778 میں یعنی انیسویں صدی کے اواخر میں قانون کے امتحانات کا آغاز ہوا ۔ اس سے پیشتر یہاں قانون کے پیشے کو اپنانے کیلئے قانون کی تعلیم کا حصول ضروری نہیں تھا ۔ عربی ، اردو اور فارسی میں مہارت کے ساتھ عقلمندی ہو تو اس مشق کو جاری رکھا جاسکتا تھا ۔ نواب میر عثمان علی خان آصف سابع نے ہمیں اعلی عدالتی نظام دیا ۔ اس سے قبل محکمہ مال کے عہدیدار عدالتی کام کرتے تھے ۔ اول تعلقدار کا کورٹ ، دوم تعلقدار کا کورٹ بھی ہواکرتا تھا ۔ محکمہ مال کے افسران کا شمار عدالتی کاموں کے ماہرین میں ہوا کرتا تھا ۔ کروڑگیری کے لوگ خود ساختہ عدالتیں چلاتے تھے ۔ پولیس پٹیل حتی کہ گاؤں کی سطح کے عہدیدار کو بھی عدالتی اختیارات حاصل تھے ۔ جرمانے کے علاوہ چار روز کی سزائے قید سنانے کا اختیار بھی انہیں حاصل تھا ۔ ان حالات میں انصاف رسانی میں درپیش مسائل کا اعلی حضرت کو شدید احساس ہوا ۔ انہوں نے عدالتی نظام اور اختیار کو مذکورہ شعبوں سے علاحدہ کیا اور ہر تعلقہ میں منصف ، ہر صوبے میں ایک سیشن جج کا اعلان کرکے عدالتی نظام میں شفافیت کو یقینی بنایا اور عام آدمی تک انصاف رسانی کیلئے مناسب اقدامات کئے ۔ نواب میر عثمان علی خان نے ریاست کے تمام سرکاری اداروں اور محکموں کو غیر سرکاری عمارتوں سے نکالنے کی بھرپور مساعی کی اور اپنے عہد میں عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا جن میں قابل ذکر عدالت العالیہ یعنی ہائیکورٹ ہے ۔ اس کا نقشہ شنکر لال نے تیار کیا تھا اور ریاست حیدرآباد کے نامی گرامی آرکیٹکٹ میر علی فاضل نے اپنی نگرانی میں اس کی تعمیر کا کام کروایا۔ 1915 تا 1919 عدالت العالیہ تعمیری مراحل سے گذری اور 1920 میں اعلی حضرت نے عدالت العالیہ کی نئی عمارت کی رسم افتتاح انجام دی ۔ اس زمانے میں چیف جسٹس کو میر مجلس عدالت العالیہ (ہائیکورٹ) اور جج صاحبان کو رکن عدالت العالیہ (ہائیکورٹ) کہا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں لاء کالج بھی وجود میں آئے ۔ عدالت العالیہ کے قیام کے بعد سالار جنگ اول کے دور میں میر مجلس یعنی چیف جسٹس کی ماہانہ تنخواہ دو ہزار روپئے تھی اور رکن عدالت العالیہ یعنی جج ماہانہ پندرہ سو روپئے پر مامور تھے ۔ نظام دکن نے عدالت اور اس کے ڈھانچے کی اہمیت کوواضح کیا اور منصف کو اعلی مقام دلایا اس طرح یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر محمد قلی قطب شاہ دکن کا بانی ہے تو نواب میر عثمان علی خان آصف سابع اس کے معمار ہیں ۔

اعلی حضرت اپنی ذاتی زندگی میں اعتدال پسند تھے ۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ سکندرآباد کے نامی گرامی درزی کو اپنے محل میں طلب کیا ، اس کی بانچھیں کھل گئیں کہ اسے ایک بڑا آرڈر ملے گا ۔ اعلی حضرت نے اپنے ملازم کے ذریعہ اپنی مستعملہ شیروانیاں منگوائیں اور انہیں درست کرنے کیلئے کہا ۔ ان کا لباس ان کی سادگی کا مظہر ہوا کرتا تھا ۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش یا دوسری ریاستوں میں بھی راجہ مہاراجاؤں نے زندگی کی ہے ۔ ان کے محلات آرائش و زیبائش کا اعلی نمونہ ہوا کرتے تھے ۔ ان کے زرتار لباس پر نظریں ٹہرجایا کرتی تھیں ۔ لیکن اعلی حضرت یا ان کے آباء و اجداد کی رہائش معمولی اور لباس سیدھا سادھا تھا جس سے انکی سادگی اور دکن کی تہذیب کا اظہار ہوتا تھا ۔ انہوں نے عوامی خدمات کو ترجیح دی ۔ دواخانہ عثمانیہ ، نظامیہ شفاخانہ یونانی ،کتب خانہ آصفیہ ،معظم جاہی مارکٹ ، سٹی کالج ، آرٹس کالج ، جامعہ عثمانیہ ، معظم جاہی مارکٹ اور ہائیکورٹ ان کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیں ۔ دواخانہ عثمانیہ سے ہر اعلی و ادنی کو فیض مل رہا ہے ۔ متذکرہ دواخانہ کیلئے انہوں نے ماہرین طب کو معقول مشاہروں پرمقرر کیا ۔ عثمانیہ دواخانہ کے سیول سرجن سریدھرا چاری موظف میرے دوست ہیں ۔ قلب کے مریض ہیں ۔ ان کا ایقان عثمانیہ دواخانہ پر آج بھی ہے ۔ قدیم حیدرآباد میں تو مریض کو اس کے متعلقین دواخانہ عثمانیہ ہی سے رجوع کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔ نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس اعلی حضرت کی دوراندیشی کا ثبوت ہے ۔ حصول علم میں مانع رکاوٹوں کو دور کرنے میں اعلی حضرت نے نمایاں رول ادا کیا ۔
ہمارے طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ کا حال ذرا مختلف تھا ۔ آج ہونہار طلباء پر خصوصی توجہ دے کر انہیں میرٹ میں لانے اور اپنا ریکارڈ بنا کر خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف ماضی میں ہمارے اساتذہ کمزور طلباء پر بھی توجہ دیا کرتے تھے بلکہ وہی مرکز نگاہ ہوتے تھے جس سے بچوں میں احساس طمانیت پیدا ہوتا اور وہ جلد ہی ہونہار طلباء کی صف میں شامل ہوجاتے تھے ۔ جامعہ میں تو اساتذہ کی نظر نہ صرف تعلیم پر بلکہ اپنے شاگرد کے نجی مسائل پربھی ہوا کرتی تھی ۔ زراعت کی تعلیم کے زمانے میں ایک طالبعلم کے پاس امتحان کی فیس ادا کرنے کیلئے روپئے نہیں تھے اور آخری تاریخ تھی اس نے سپرنٹنڈنٹ سے دو دن کی مہلت مانگی ۔ متعلقہ آفیسر نے مہلت دینے سے انکا رکرتے ہوئے کہاکہ یہ اس کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ اگریکلچر کالج کے پرنسپل پروفیسر حسین علی رضوی کا وہاں سے گزر ہوا ۔ انہوں نے ساری باتیں سن لی تھیں۔ انہوں نے فوراً طالب علم کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور اس کے ہاتھ میں رقم تھماتے ہوئے کہا کہ فوراً فیس ادا کردے ۔ یہ ہے قدیم حیدرآباد اور اس کا منور پہلو ۔

بارہویں جماعت کی بابت کہوں تو ڈاکٹر احسن کی یاد آتی ہے ۔ وہ انگریزی کے استاد تھے ۔ درس دینے کا ان کا مخصوص انداز تھا ۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ جو طلباء مادری زبان کو چھوڑ کر انگریزی ذریعہ تعلیم کو اپناتے ہیں وہ کس قدر خوفزدہ ہوتے ہیں مگر ڈاکٹر احسن نے ہمارے دلوں سے اس خوف کو نکالا ۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ بارہویں کے بعد اگریکلچر کالج میں داخلہ لیا تو میں اعتماد کے ساتھ انگریزی کا انتخاب کرسکا ۔ اگر آج مجھے انگریزی پر مہارت حاصل ہے تو وہ میرے استاد ہی کی مرہون منت ہے ۔
عادل آباد کے اردو ماحول کا اثر اور اساتذہ کی دلچسپی ہی کی وجہ سے مجھے اردو سے اچھی واقفیت ہے ۔ باوجود اس کے کہ میری ابتدائی تعلیم مرہٹی زبان میں ہوئی ہے ۔ میرے استاد عالم خوندمیری کا رول میری تربیت میں اہم رہا ۔ وہ مجھ سے روزنامہ ’’پیام‘‘ کی سرخیاں پڑھواتے تھے ۔ مرحوم اختر حسن اس کے مدیر تھے جو کمیونسٹ لیڈر بھی تھے۔ بعد میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ مشہور ہوگیا تب سے آج تک دوسرے اخبارات کے ساتھ ’’سیاست‘‘ بھی پڑھتا ہوں۔

قدیم حیدرآباد میں ایک دوسرے کی خبر گیری کا خوش آیند جذبہ پایا جاتا تھا ۔ یوں ہوا کہ میرا تبادلہ اچانک ہی محبوب نگر کردیا گیا اور اچانک ہی میں روانہ ہوگیا ۔ میرا یہ قیاس تھا کہ حیدرآباد تا محبوب نگر زیادہ فاصلہ تو ہے نہیں ، روز آمد ورفت میں دشواری نہیں ہوگی مگر ڈسٹرکٹ اگریکلچر آفیسر کے سکریٹری نے اس پر پابندی لگادی ۔ اور مستقل محبوب نگر میں قیام کرنے کو کہا ۔ رہائش اور طعام کا مسئلہ درپیش تھا ۔ میں سرگرداں پھرتا رہا ، اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا ۔ ڈسٹرکٹ اگریکلچر عہدیدار کے ماتحت یعقوب صاحب کو اس بات کی بھنک پڑی تو وہ خود ہی مجھ سے رجوع ہوئے اور کہا کہ آپ خواہ مخواہ ہی ہراساں ہورہے ہیں ، میرے ساتھ چلئے ۔ اور یہی ہوا ۔ انہوں نے میرے لئے درد کا درمان فراہم کردیا یعنی کھانا اور گھر دونوں مفت ۔ ہماری ریاست میں اب یہ جذبات عنقا ہوگئے ہیں۔
عدالت کے اندر بھی اور باہر بھی میرے کئی رفقاء رہے ۔ پروفیسر شیوراج اگریکلچر کے شعبہ میں ساتھ رہے آج تک ان سے یارانہ ہے اور آنا جانا بھی ۔ ایچ ایم حسینی بھی اسی زمانے کے ساتھی ہیں جو اسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے ۔ رمضان حسین موسوی اورشیام سندر نائیڈو بھی میرے دوست ہیں ۔ جسٹس سردار علی خان میرے سینئر تھے ۔ وہ ہائیکورٹ جج تھے اور میں ڈسٹرکٹ جج ۔ وہ اعلی کردار کے مالک تھے ، بعض اہم امور پر میں نے ان سے مشاورت بھی کی تھی اور انہوں نے فراخدلی کا ثبوت دیا تھا ۔

ہمارے ہاں صنعتی علاقوںکو شہر سے دور آباد کیا گیا تھا تاکہ صنعتوں کے مضر اثرات سے آبادیاں متاثر نہ ہوں مگر حیدرآباد کی توسیع میں سارے صنعتی علاقے آبادیوں میں گھر گئے جس کی وجہ سے انسان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں ۔ صنعت نگر ، جیڈی میٹلہ ، بالا نگر ، شاپُرنگر ، راجندر نگر ، رانی گنج اور فتح نگر سے متصل آبادیاں غیر محفوظ ہیں اور کسی ٹھوس لائحہ عمل کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ اعلی حضرت کے دور کے بڑے بڑے صنعتی کارخانے مسدود ہوگئے ہیں اور جو باقی ہیں ان میں ملازمین کی قابل لحاظ تعداد کو گھٹادیا گیا ہے ۔ بودھن شوگر فیکٹری کو بھی بند کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ ٹیلی ویژن ، ماڈرن تھیٹر ، ملٹی اسکرین تھیٹروں کی وجہ سے پرانے سنیما گھروں کی جگہ شاپنگ مال نظر آرہے ہیں ۔ بشیر باغ میں لبرٹی ، سلطان بازار میں ’’رائل‘‘ اور ’’دلشاد ٹاکیز‘‘ جام باغ میں اشوک ٹاکیز ، کاچی گوڑہ میں پربھات تھیٹر ، نئے پل کی اسٹیٹ ٹاکیز اب بند پڑے ہیں۔ ہم وہاں سنیما دیکھا کرتے تھے ۔

پولیس ایکشن سے پہلے عادل آباد میں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا تھا ، تمام مذاہب کے لوگ آپس میں شیر وشکر کی طرح رہا کرتے تھے لیکن پولیس ایکشن کے بعد یہاں کی فضا کوعمداً خراب کیا گیا ۔ عثمان آباد ، بیدر ، لاتور اور کرناٹک کے نقصانات کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ 17 ستمبر کو حیدرآباد کی آزادی کا دن قرار دینا بھی غلط ہے ۔ آزادی کا مطلب غیر ملکی حکمرانوں سے نجات پانا ہے ۔ اعلی حضرت غیر ملکی حکمران نہیں تھے ۔
حیدرآباد میں بہت سی عمارتیں ایسی ہیں جن سے گنگا جمنی تہذیب جھلکتی ہے۔ نوبت پہاڑ کی بلندی پرکشش ہے ۔ چار مینار اور گولکنڈہ کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ باغ عامہ ، حسین ساگر دکن کی میراث ہیں ۔ کنگ کوٹھی سے اعلی حضرت کو خاص سروکار تھا ۔ امراء ، شاہی مہمان اور اعلی عہدیدار اس کوٹھی میں توقف کرتے تھے جو اکیس ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ۔ بیگم بازار ہول سیل مارکٹ کیلئے آج بھی شہرت رکھتا ہے ۔ لاڑ بازار سنگھار کے سامان کیلئے فی زمانہ مشہور ہے اور ادھر کا رخ کرے بغیر شادی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ سلطان بازار اوسط طبقے کیلئے مختص تھا تو عابد شاپ متمول لوگوں کیلئے خاص تھا ۔ سلطان بازار سے متعلق یہ خبر گرم تھی کہ میٹرو ریل کے سلسلے میں جاری کھدائی میں اسے بھی منہدم کردیا جائے گا مگر ریاستی وزیراعلی نے اس کے تحفظ کا تیقن دیا ہے ۔ یہ وہ تاریخی بازار ہے جہاں حیدرآباد کے علاوہ اضلاع سے لوگ خریداری کیلئے آج بھی آتے ہیں۔ ہائی ٹیک سٹی آج کی پیداوار ہے ۔ بنجارہ ہلز کی آبادی گنجان ہوگئی ۔ اور پہاڑ اوجھل ہوگئے ہیں ۔ وہاں ایک تالاب ہوتا تھا ۔ ہولی کھیلنے کے بعد ہم نہانے کیلئے اس تالاب کو جایا کرتے تھے اب وہ گم ہوگیا ہے ۔ جام باغ ، موسی رام باغ ، کشن باغ ،عزیز باغ اور سیتارام باغ کی تاریخ سے نئی نسل واقف نہیں ہے ۔میرے کرم فرما حسن الدین احمد ان دنوں عزیز باغ ہی میں رہتے ہیں۔ ان سے کچھ سیکھنے اور ان کا آشیرواد لینے کیلئے میں عزیز باغ جاتا ہوں ۔

ہمارے دور طالب علمی میں سیاستداں عوام کے حقیقی خادم ہوا کرتے تھے ۔ لوگوں کو اکٹھا کرکے مختلف موضوعات پر خطابات اور تقاریر کے ذریعہ شعور بیدار کرنے کی کوششیں کرتے تھے ۔ آج کی صورتحال مختلف ہے ۔ آنجہانی انباراؤ دیشپانڈے میرے بڑے بھائی تھے اردو ان کا اوڑھنا بچھونا تھی ۔ آج اگر مجھے اس زبان میں تھوڑی بہت شدبُد ہے تو بھائی کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے ۔ کسی بات یا واقعہ کو بیان کرنے کا ان کا اپنا دلچسپ انداز تھا جو دلوں کو بھاتا تھا ۔ وہ گاؤں جاتے تو گھر کے تمام افراد کو ان کی واپسی کا انتظار رہتا تھا ۔ تجربات ، واقعات کو بیان کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ ہماری تربیت میں بڑا ہی معاون رہا ۔ وہ اصول کے پکے تھے ، اور کل کے حیدرآباد کی تمام خوبیاں ان کی شخصیت میں رچی ہوئی تھیں۔ان کی طبیعت میں ضد تھی اور حق بات کہنے میں انہیں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا تھا ۔ پیشہ تدریس سے وابستہ تھے ۔ میرے بھائی کے سینکڑوں مضامین روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں شائع ہوتے تھے بلکہ سیاست نے بہت سارے غیر اردو داں حضرات کی اردو درست کی ہے ۔

ماضی میں عدالتی محکمہ میں شفافیت ہوتی تھی لیکن ان دنوں کچھ باتیں گشت کررہی ہیں کہ اضلاع کے عدالتی نظام میں خرابیاں آگئی ہیں ۔ کیس طول پکڑنے اور جلد فیصلوں کی یکسوئی نہ ہونے کی وجہ ججس کی کاہلی ہوسکتی ہے ۔ پورا وقت کیس کو نپٹانے میں نہ گذار کر اپنے ذاتی کاموں میں الجھنے سے اصل کام پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ کیس تعطل کا شکار ہونے کی دوسری وجہ ہمارے ہاں کورٹ کی تعداد کم ہے اور کیسوں کی تعداد بڑھ گئی ہے ۔ ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے میرا پیغام یہی ہے کہ اپنی تہذیب ، اپنا کلچر اور اپنی معاشرتی زندگی کو یاد رکھیں ۔ اسلاف کے نقوش کو یاد رکھیں تو حیدرآباد کل سے بہتر آج ہوگا ۔
حیدرآباد جو کل تھا ۔ ایک اعلان
جنوری 2014 ء کے آغاز میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ نے حیدرآباد کی بزرگ ہستیوں کی یادوں پر مشتمل ایک سلسلہ وار پروگرام ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے عنوان سے شروع کیا تھا جسے قارئین نے بے حد پسند بھی کیا ہے ۔ چنانچہ ایک سال دو مہینوں کے عرصہ میں اب تک حیدرآباد کی ساٹھ سے زیادہ بزرگ ہستیوں کی یادداشتوں کو محفوظ کرلیا گیا ہے جنھیں ہر ہفتہ نہایت پابندی کے ساتھ بلاناغہ روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں بھی پیش کیا جاتا رہا ہے مگر اب اس کالم کو تواتر اور پابندی کے ساتھ پیش کرنا دشوار ہوتا جارہا ہے کیونکہ بیشتر بزرگ ہستیوں کے انٹرویو ریکارڈ کئے جاچکے ہیں ۔ تاہم یہ کالم سہولت کے اعتبار سے وقفہ وقفہ سے پیش کیا جاتا رہے گا ۔ قارئین نے اس سلسلہ کو جس طرح پسند فرمایا اس کے لئے ادارہ قارئین کا ممنون ہے۔