حیدرآباد جو کل تھا بورگل نرسنگ راؤ

ایف ایم سلیم
حیدرآباد کے پہلے منتخب چیف منسٹر بی رام کرشناراؤ کے بھتیجے بی نرسنگ راؤ اردو کو اپنی دوسری مادری زبان مانتے ہیں ۔ انجمن ترقی اردو کے لمبے عرصے تک رکن رہے ہیں ۔ مخدوم محی الدین اور راج بہادر گوڑکے ساتھ مختلف تحریکوں میں حصہ لے چکے ہیں ۔ حیدرآباد میں پہلے ایک اسٹوڈنٹ لیڈر اور بعد میں کمیونسٹ پارٹی کے قائد کے طور پر انہوں نے کام کیا ۔ ابتدائی زندگی میں ٹیچر بھی رہے ۔ حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت کے طور پر لوگ انہیں پہنچانتے ہیں ۔ راج بہادر گوڑ نے اپنے مکان کا نام مخدوم کی اردو نظم سے متاثر ہو کر ’چنبیلی کا منڈوا‘ رکھا تو نرسنگ راؤ صاحب نے مخدوم کے ڈرامے ’پھول بن‘ کا نام اپنے مکان کی تختی پر لکھوایا ۔ ’حیدرآباد جوکل تھا‘ کے لئے ایف ایم سلیم کے ساتھ ہوئی گفتگو کے اقتباسات پیش ہیں ۔

گاؤں میں گزرا بچپن
میرا بچپن محبوب نگر کے شاد نگر کے پاس واقع بورگل گاؤں میں گزرا۔ 9 سال کی عمر تک میں وہاں رہا ۔ وہ بادشاہت کا دور تھا ۔ جاگیردارانہ راج میں زمین صرف خاص زمینداروں اور جاگیرداروں میں بٹی ہوئی تھی ۔ جاگیرداروں کے تحت محنت دار ہوا کرتے تھے ، جو گاؤں میں قولداروں سے ٹیکس وصول کر جاگیرداروں کو دیا کرتے تھے ۔ ہمارے جاگیردار فتح یار جنگ تھے ۔ میرے والد 10 گاؤں کے محنت دار تھے ۔ ایک اور نظام دیش مکھ اور دیش پانڈوں کا تھا ۔جاگیرداروں اور دیش مکھوں میں کچھ فرق تھا ۔ جاگیردار شہروں میں بنگلے بنا کر رہتے تھے ۔ بنگلوں میں عیش و عشرت کا ماحول رہتا ۔ مجرے ہوتے ۔ دوسری جانب دیش مکھوں کو زمین سے لگاؤ تھا ۔ گاؤں میں سڑک نہیں تھی ۔ مدارس نہیں تھے ۔ ضلع مستقر پر ہائی اسکول ہوا کرتا تھا اور تعلقہ ہیڈ کوارٹر پر وسطانیہ مدرسہ ، گاؤں میں اسکول بہت کم تھے ۔ والد صاحب نے انہیں دنوں اپنے گھر میں ہی ایک مدرسہ شروع کیا ۔ اس کے لئے ایک استاد بھی مقرر کیا ۔ ان کا نام ستیہ نارائن پرشاد تھا ۔ یہ اردو ، فارسی اور تلگو پڑھاتے تھے ۔ دراصل 19 ویں صدی کے اواخر میں جب حیدرآباد۔ بنگلور ریلوے لائن کی تعمیر ہورہی تھی ، انہیں دنوں وہ وہاں آکر رہنے لگے تھے ۔ انہیں بوندی لونڈو کہا جاتا ۔ کیوں کہ وہ بندیل کھنڈ سے آئے تھے ۔ والد صاحب نے شہر سے ایک اور استاد ہنومنت راؤ کو پڑھانے کے لئے گاؤں بلایا تھا ۔ وہ ریاضی اور انگریزی پڑھایا کرتے تھے ۔ دادا پڑدادا کو تو تین زبانیں آتی تھیں ۔ اردو ، فارسی اور تلگو ، کچھ لوگوں نے سنسکرت بھی سیکھ لی تھی ۔ بی رام کرشنا صاحب نے تو عمر خیام کی رباعیوں کا تلگو میں ترجمہ سیدھے فارسی سے کیا تھا ۔

دلتوں کو دعوت
1936 کا ایک واقعہ ہے ۔ والد صاحب آندھرا مہا سبھا کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے ۔ وہ سماج میں اونچ نیچ کے خلاف تھے ، لیکن معاشرے میں پہلے سے کچھ روایتیں موجود تھیں ۔ دلتوں اور ہریجنوں کو برہمنوں اور بڑی ذات والوں کے گھروں میں آنے کی مناہی تھی ۔ انہی دنوں والد صاحب نے سبھی ذات والوں کے لئے ایک دعوت کا اہتمام کیا ۔ کچھ دلت بھی گھر آئے ۔ دادا نے اس کی بہت مخالفت کی ۔ انہوں نے کہا کہا ’’دھیڑ کو گھر میں لارہے ہو‘‘ ۔
اس موضوع پر باپ بیٹے میں جم کر بحث ہوئی اور تین ہفتے تک بات چیت بند رہی ۔ دراصل ذات پات کا یہ نظام تلنگانہ میں تو کم تھا ، لیکن آندھرا میں تو حالات بہت بھیانک تھے ۔ کئی ہریجنوں کو ایک ساتھ زندہ جلانے کے واقعات بھی رونما ہوئے ۔ آج بھی کئی گاؤں میں حالات سدھارے نہیں جاسکے ہیں ۔

حیرت اس بات پر ہے کہ بڑی ذات والے ’ریڈی دورا‘ نے تو ان پر ظلم کیا ہی لیکن مسلمانوں نے بھی انہیں ’دھیڑ‘ ہی کہا ۔ بلکہ حیدرآباد میں تلگو زبان کو بھی ’تیلگی بے ڈھنگی‘ کہا جاتا ۔
میں 9 سال کی عمر میں پہلی بار حیدرآباد آیا اور یہاں وویک وردھنی اسکول میں داخلہ لیا ۔ وویک وردھنی انگریزی میڈیم کا اسکول ہوا کرتا تھا ۔ گاؤں میں تو انگریزی میڈیم اسکول نہیں تھے ۔ شہر میں بھی کم تھے ۔ زیادہ تر اردو میڈیم کے اسکول تھے ۔ چادر گھاٹ اسکول انگریزی میڈیم تھا ۔ یہ بہت اچھا اسکول ہوا کرتا تھا ۔ وہاں کے اساتذہ بہت ذہین ہوا کرتے ۔
انٹرمیڈیٹ کے لئے میں نے نظام کالج میں داخلہ لیا ۔ یہ 1945 کی بات ہے ۔ اس وقت نظام کالج مدراس بورڈ سے ملحق تھا ۔ جب ہم بی اے میں داخل ہوئے تو یہ عثمانیہ یونیورسٹی کے تحت آگیا تھا ۔ دراصل نظام کالج کا قیام سروجنی نائیڈو کے والد اگھورناتھ چٹوپادھیائے نے ایک اسکول کے طور پر عمل میں لایا تھا ۔ جو بعد میں کالج میں تبدیل ہوگیا ۔ اور ایک زمانے تک مدراس بورڈ اور یونیورسٹی سے ملحق رہا ۔

آنسو گیاس اور پیاز
میرے والد آندھرا مہاسبھا میں تھے ۔ اس کے پہلے صدر سرورم پرتاپ ریڈی اور دوسرے میرے والد تھے ۔ میں 5 سال کا ہی تھا کہ والد صاحب مجھے شادنگر میں منعقد آندھرا مہاسبھا کی دوسری کانفرنس میں لے گئے تھے ۔ دراصل حیدرآباد میں ان دنوں تیزی سے ہورہی تبدیلیوں میں آندھرا مہاسبھا کا رول غیر معمولی رہا ۔ حیدرآباد میں کانگریس بھی اسی سے پیدا ہوئی ۔ میرے چاچا بی رام کرشنا راؤ بھی اس میں تھے ۔ آندھرا مہاسبھا میں کمیونسٹ بھی تھے ۔ 1942 میں جب ہندوستان چھوڑو تحریک شروع ہوئی تھی تو میرے اسکول میں بھی بڑی تعداد میں طلباء کا ایک جلوس آیا ۔ ہم اسی کے ساتھ ہولئے اور عابڈس گرامر اسکول کے پاس پہنچے ۔ یہاں پولیس نے ہمیں روکا ۔ آنسو گیاس چلائی گئی ۔ میری زندگی کا وہ پہلا تجربہ تھا اور بعد کے لئے ٹریننگ اسکول بھی ۔ میں نے بعد میں کئی جلوسوں کی رہنمائی کی ۔ جب بھی جلوس میں نکلتے جیب میں پیاز رکھ کے نکلتے تاکہ آنسو گیاس کے تیز اثر سے بچ سکیں ۔

نظام کے شہر کے عین وسط میں ایک جزیرہ
نظام کو انگریزوں نے ایک خاص مقام دیا تھا ۔ جہاں ساری ریاستوں کے راجا ہزہائی نس کہلاتے تھے نظام کو ہزاکزالیٹڈ ہائی نس کا درجہ حاصل تھا ۔ کرنسی ، پوسٹل نظام اور ریلوے ان کے اپنے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نظام پوری طرح سے آزاد تھے ۔ دہلی میں وائسرائے ہوتا تھا اور مختلف ریاستوں میں گورنر ۔ دیسی ریاستوں میں ریزیڈنٹ ہوا کرتا تھا ۔ نظام کو اختیارات تو تھے لیکن انگریزوں کا کنٹرول بھی تھا ۔ نظام کی اکزیکیٹو کونسل میں ہوم منسٹر اور ریونیو منسٹر انگریز ہوا کرتے ۔ آخری کیبنٹ لائق علی خاں کی تھی جس میں یہ سلسلہ ٹوٹا تھا ۔
انگریزوں کے اسی کنٹرول کی وجہ سے نظام کی حکمرانی والے شہر حیدرآباد کے عین وسط میں ایک جزیرہ بن گیا تھا ، وہ تھا سلطان بازار اور عیسی میاں بازار ۔ یہ انگریز ریزیڈنسی (اب ویمنس کالج کوٹھی) کا علاقہ ہوا کرتا تھا ۔ نظام کے خلاف جتنی تحریکیں چلیں ان میں سے زیادہ تر کا مرکز سلطان بازار ہی تھا ۔ آندھرا مہاسبھا ، کنٹر مہاسبھا ، کامریڈ اسوسی ایشن ، آریہ سماج اور دوسری تنظیموں کے دفاتر یہاں تھے ۔ اگر شہر میں نظام کی حکومت سے کوئی اجازت نہیں ملتی تو وہ اجازت ریذیڈنسی سے مل جاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کے لئے تلگو اسکول کی شروعات کے لئے نظام سے اجازت طلب کی گئی اور جب یہ درخواست ٹھکرائے جانے کے بعد بھی اسکول قائم ہوا اور اس کی اجازت ریذیڈنسی سے مل گئی اور اسکول کو مدراس سکنڈری بورڈ سے ملحق کیا گیا ۔ حالانکہ نظام اس کو بھی بند کرسکتے تھے لیکن انہوں نے دور اندیشی سے کام لیا ۔

مجلس اور آندھرا مہاسبھا
حیدرآباد میں کئی تحریکیں چلیں اور کچھ دن بعد بند ہوگئیں ۔ کئی جماعتوں کی سرگرمیاں بیان بازی سے آگے نہیں بڑھ پائیں ۔ نظام کے خلاف کسی کا مسلسل جد وجہد کرنا مشکل تھا لیکن مجلس اور آندھرا مہاسبھا دو اہم جماعتیں ایسی تھیں کہ ان کی تحریکوں نے بعد کے حیدرآباد پر بڑا گہرا اثر چھوڑا بلکہ بعد کی تاریخ انہیں پر منحصر ہے ۔ مجلس مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے مقصد سے بنائی گئی تھی ۔ آندھرا مہاسبھا نے بھی اسی طرح کی اصلاح پسند باتیں کیں ۔ آندھرا مہاسبھا کی دو کانفرنسوں کے بعد حکومت نے اس پر پابندی لگادی لیکن اس نے آہستہ آہستہ اپنے پروگراموں میں تبدیلی لانی شروع کی ۔ تلگو ذریعہ تعلیم پر توجہ دی گئی ۔ لائبریری تحریک چلائی گئی ۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ زبان آگے بڑھے گی تو لوگوں میں جذبہ بھی پیدا ہوگا ۔ چنانچہ جب سلطان بازار میں کرشنا دیورایا لائبریری کے قائم کرنے کی اجازت نہیں ملی تو اس کو پہلے کہیں اور شروع کیا گیا اور بعد میں سلطان بازار میں ہی قائم کیا گیا ۔
1930 میں آندھرا مہاسبھا قائم ہوئی تھی اور بعد میں جب کانگریس بنی تو اسے اس تنظیم سے ہی لوگ ملے ۔ اس میں دو نسلیں کام کررہی تھیں ۔ ایک بزرگوں کی تھی اور نوجوان دوسرے ڈھنگ سے کام کررہے تھے۔ 1937ء میں مہاسبھا کے صدر ایم نرسنگ راؤ نے نظام آباد کی کانفرنس میں قرارداد منظور کی کہ ذمہ دارانہ حکومت قائم کی جائے ۔ بعد میں یہی ان کا سیاسی نعرہ بن گیا ۔ اس نعرے کے ساتھ ہی کانگریس حیدرآباد میں مضبوط ہوتی گئی ۔

دوسری طرف مجلس کی قیادت اب بہادر یار جنگ کے ہاتھ میں آگئی تھی ۔ وہ یوں بھی مجلس کے بانیوں میں سے تھے ۔بہادر یار جنگ نے نیا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میں مسلمانوں کا حصہ ہونا چاہئے ۔ حالانکہ ایم نرسنگ راؤ اور بہادر یار جنگ اچھے دوست تھے ۔ دونوں میں سیاسی موضوع پر بات چیت بھی ہوتی تھی ۔ ابوالحسن سید علی صاحب سے بھی مہا سبھا کے لوگوں نے اس نظریہ کو بدلنے پر گفتگو کی ، کیوں کہ یہ نظریہ بہت خطرناک تھا ۔ اس وقت ریاست میں 1.75 کروڑ لوگوں کی آبادی تھی جس میں مسلمان 25 لاکھ تھے ۔ سوال کیا گیا کہ اگر حکومت میں مسلمانوں کا حصہ ہوگا تو پھر باقی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے حصے کا کیا ہوگا ؟ کافی عرصے تک یہ مسئلہ زیر بحث رہا ۔ 1943 میں شیخ عبداللہ کشمیر سے آئے اور کولن پاک گئے ۔ ان کے ساتھ بی رام کرشنا ، روی نارائنا ریڈی بھی تھے ۔ انہوں نے دیکھا کہ عام مسلمانوں کے ذہن میں بات گھر کرگئی تھی کہ حکومت ان کی ہے ۔ انہیں یہ موقع ہی نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے ساتھ رہنے والے دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی سوچیں ۔

آریہ سماج اور فسادات
انہیں دنوں آریہ سماج کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی تھیں ۔ ادھر بہادر یار جنگ نے مجلس کے ذریعہ تبلیغ پر زور دیا تو آریہ سماج نے شدھی تحریک شروع کی اور ان کے چلتے سنگین تضاد کے حالات پیدا ہوئے اور کئی جگہوں پر فسادات ہوئے ۔ آریہ سماجی زیادہ تر پنجاب سے آئے تھے اور ہندو سماج سے برائیوں کو نکالنے کی تحریک انہوں نے شروع کی ، کئی کمیونسٹ اور کانگریسی نوجوان بھی اس میں شریک ہوئے ۔ حالات سنگین ہوتے گئے ۔ جس گاؤں میں مجلس کی تبلیغ ہوئی آریہ سماج بھی اسی گاؤں میں پہنچ جاتے اور مسلمانوں کو واپس ہندو بنانے کے لئے شدھی تحریک چلاتے ۔ کئی مقامات پر ٹکراؤ کی حالت پیدا ہوئی ۔ کانگریس کا ستیہ گرہ شروع ہوچکا تھا ۔ آریہ سماجی بھی ستیہ گرہ کررہے تھے ۔ لیکن مجلس اور آریہ سماج میں ٹکراؤ کی حالت کو دیکھتے ہوئے کانگریس نے اس سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہی مناسب سمجھا ۔ کانگریسی پریشان ہوگئے تھے ۔ وہ اس چکر سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتے تھے ۔ گلبرگہ ، اودگیر اور یادگیر میں فسادات ہوئے ، کئی لوگ مارے گئے ۔ 1938 ء میں شہر میں دھول پیٹ کا فساد بھی ہوا ۔ کانگریس پر پابندی تھی ۔ انہیں دنوں گاندھی جی نے بی راما کرشنا اور رامانند تیرتھ کو بلایا اور کہا کہ کانگریسی ، آریہ سماج سے دور رہیں ۔

کمیونسٹ تحریک اور رضاکار
مجلس کی قیادت جیسے ہی قاسم رضوی کے ہاتھ میں آئی ، حالات اور خراب ہوگئے ۔ کئی معصوم مسلمانوں کو اس سے بڑا نقصان ہوا ۔ لائق علی بھی اس کے لئے ذمہ دار تھے ۔ وہ حیدرآباد کو آزاد رکھنا چاہتے تھے ۔ گوا خریدنا چاہتے تھے ۔ نظام ہندوستانی حکومت کے ساتھ بات چیت کرسکتے تھے لیکن انہیں اس کے لئے آگے بڑھنے سے روکا گیا ۔ رضاکاروں کی سرگرمیاں بڑھتی گئیں ۔ تلنگانہ کے علاقے میں جہاں کمیونسٹ پارٹی کے لوگ تھے وہاں سے دونوں کے درمیان ٹکراؤ کی بہت سی خبریں آئیں ۔ لائق علی دراصل حیدرآباد کو منی پاکستان بنانا چاہتے ۔ ہندوستان آزاد ہونے کے بعد انہوں نے تین بار پاکستان کا دورہ کیا ۔ اور قاسم رضوی تیزی سے نوجوانوں کو رضاکار تحریک میں شامل کررہے تھے ۔ جب پولیس ایکشن ہوا تو مسلمانوں کا بڑانقصان ہوا خصوصاً بڑی تعداد میں معصوم نوجوان اس وقت انڈین آرمی کے ٹینکوں کے سامنے مارے گئے ، جب نظام حکومت کی فوج نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ۔ حالانکہ فوج تین راستوں سے آئی تھی لیکن مراٹھواڑہ کے علاقے میں ہندوؤں نے رضاکاروں کا بدلہ عام مسلمانوں سے لیا ۔ اس وقت فوج نے کہیں مداخلت کی اور کہیں نظرانداز کیا ۔ میں سندر لال کمیٹی کے بیان سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹا اور کچھ جگہوں پر یہ ظلم دیکھ کر بھی انجان رہی ۔ 22 سے 40 ہزار لوگ مارے گئے ۔

نیشنلسٹ مسلمان
یہ صحیح ہے کہ نظام کی ریاست میں 80 فیصد مسلمان آزاد رہنے کا خواب دیکھ رہے تھے ، لیکن 20 فیصد مسلمان ایسے بھی تھے جو اس کے مخالف تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ راستہ غلط ہوگا ۔ نظام کے وزیراعظم سراکبر حیدری اور نواب چھتاری بھی ہندوستانی حکومت کے ساتھ بات چیت کے حق میں تھے ۔ لیکن نظام نے ان کی بات نہیں مانی ۔ کانگریس اور گاندھی جی سے متاثر ہوکر بہت پہلے سے حیدرآباد کے کئی مسلمان تحریکوں میں حصہ لینے لگے تھے ۔ بدر الحسن صاحب نے تو کریم نگر میں کھادی کا ایک یونٹ بھی قائم کیا ۔ مرزا اسمعیل بھی چاہتے تھے کہ ہندوستانی حکومت کے ساتھ جائیں ۔ ’’سیون (7) مرزاس‘‘ کے نام سے مشہور ایک ٹیم نے بھی کوشش کی ، جن میں کچھ سرکاری عہدیدار بھی تھے ۔ لیکن ان کے مکانات پر سنگ باری کی گئی ۔ ’امروز‘ اخبار کے ایڈیٹر شعیب اللہ خاں کا قتل ہوا ۔ ہندوستان کے اخباروں نے دوسرے دن دیکھا کہ حیدرآباد میں آزاد خیال مسلمان محفوظ نہیں ہیں ۔
کامریڈ اسوسی ایشن کی سرگرمیوں میں بھی مسلمان شامل تھے ۔ سید ابراہیم ، عالم خوندمیری جیسے لوگ کافی سرگرم تھے ۔ مخدوم نے ٹریڈ یونین کی بنیاد رکھی ۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے لئے انہوں نے خوب جد وجہد کی ۔ راج بہادر گوڑ اور عاقل علی خاں اسٹوڈنٹ تحریک میں تھے ۔ سارے یونین مضبوط ہوتے گئے ۔ حیدرآباد کے لئے یہ اچھی بات تھی کہ یہاں عام ہندو ۔ مسلمان کے درمیان تعلقات بہت زیادہ خراب نہیں ہوئے ۔
دوسری جانب حیدرآباد میں اردو نے بھی لوگوں کا میل جول بنائے رکھنے میں اہم رول ادا کیا ۔ حیدرآباد کے عام لوگوں کی زبان اردوہی رہی ہے ۔ تلگو دوسرے مقام پر ہے ۔ اس شہر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں آج بھی اردو بولی جاتی ہے اور بولی جاتی رہے گی ۔