حیدرآباد جو کل تھا بشر نواز

عابد صدیقی
ریاستوں کی تنظیم جدید سے قبل اورنگ آباد ، ریاست حیدرآباد میں شامل تھا ۔ علم و ادب کی اس سرزمین سے بے شمار ادباء ، شعراء اور دانشوروں نے اپنی اعلی صلاحیتوں کے ذریعہ ملک گیر شہرت حاصل کی ۔ حیدرآباد کے علمی و ادبی ماحول نے ان کی شخصیت کی تشکیل اور نشو و نما میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ اورنگ آباد میں مقیم حیدرآبادی تہذیب و ثقافت کی پروردہ ان شخصیتوں کے تعارف اور ان کے تاثرات کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کیا جارہا ہے (ادارہ)

جناب بشر نوازکا شمار ترقی پسند تحریک کے صف اول کے شعراء میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنے 60 سالہ شعری سفر میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے رجحانات کو براہ راست اپنی شاعری میں برتا ہے ۔ ان کے دو شعری مجموعے ’’رائیگاں‘‘ اور ’’اجنبی سمندر‘‘ منظرعام پر آچکے ہیں ، جن کی برصغیر ہند و پاک کے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی ۔ ان کے تنقیدی مضامین پرمشتمل کتاب ’’نیا ادب نئے مسائل‘‘ بھی شائع ہوچکی ہے ۔ دیوناگری رسم الخط میں بھی ان کا کلام شائع ہوچکا ہے ۔
بشر نواز 1935 ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے ۔ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ گریجویشن کے لئے حیدرآباد گئے تاہم انکی اعلی تعلیم مکمل نہ ہوسکی ۔ حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں اپنی شخصیت اور اعلی شعری صلاحیتوں کے ذریعہ انہوںنے اپنی ایک خاص پہچان بنائی ۔ حیدرآباد اور اورنگ آباد ان کے لئے گھر آنگن کی طرح تھے ، ریلوے ٹکٹ 6 روپئے میں تھا ،دونوں ہی شہروں میں اُن کے بہت سارے خاندان سکونت پذیر تھے ۔ اس لئے آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا ۔ حیدرآباد سے ان کا بڑا گہرا لگاؤ رہا ہے ، کیونکہ اس شہر میں ان کے بے شمار دوست رہتے تھے وہ اکثر عثمانیہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ڈاکٹر وحید اختر کے ساتھ قیام کرتے تھے ۔ ان دنوں حیدرآباد ملک میں شعر و ادب کا بڑا مرکز تھا ۔ دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کی شہرت کے باوجود حیدرآباد علم و ادب کا عظیم گہوارہ مانا جاتا تھا ۔ حیدرآباد میں وحید اختر ، شاذ تمکنت ، سلیمان اریب ، عزیز قیسی ، سردار سلیم جیسے شعراء کے ساتھ ان کے شب و روز گذرتے ۔ حیرت بدایونی ، ڈاکٹر زینت ساجدہ ، اقبال متین ، حسینی شاہد اور کئی ادبی شخصیتوں سے ان کے دوستانہ روابط رہے ۔

حضور نظام کی سرپرستی زبان و ادب کے فروغ میں معاون ثابت ہوئی ۔ ریاست حیدرآباد کے کل 16 اضلاع تھے ، جن میں تلنگانہ کے 8 ، مرہٹواڑہ کے 5 اور کرناٹک کے 3 علاقے شامل تھے ۔ حکومت کی سرپرستی سے قطع نظر خود اردو زبان میں وہ کشش اور جاذبیت ہے کہ اردوداں عوام کے علاوہ غیر اردوداں طبقات بھی اردو بولتے اور اردو زبان میں لکھتے تھے ۔یہ باہمی میل جول کی زبان تھی اور ایک مشترکہ تہذیب کی آبیاری میں اس کا غیر معمولی رول تھا ۔ حیدرآباد کی ملی جلی تہذیب کو اردو نے تقویت بخشی اور یہ تہذیب پورے ملک کی نمائندہ اورمثالی تہذیب بن گئی ۔ تینوں علاقوں کے عوام نے مل کر حیدرآبادی تہذیب کو جلابخشی ۔ اعلی انسانی اقدار ، شرافت ، وضعداری ، محبت و مروت ، رواداری ، ایثار اور بے لوث دوستی کے جذبے سے سرشار اس تہذیب نے معاشرہ کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ اس تہذیب نے آدمی کو انسان اور انسان کو اچھا انسان بنایا ۔

بشر نواز نے کہا کہ انہوں نے 1953 سے اپنی شاعری کا آغاز کیا اور 1954 ء ہی سے انہیں بڑے بڑے مشاعروں میں کلام سنانے کے لئے مدعو کیا جانے لگا۔ مشاعروں میں شرکت کی وجہ سے انھیں اس دور کے کئی نامور شعراء سے شرف نیاز کا موقع ملا ، جن میں جوش ملیح آبادی ، جاں نثار اختر ، اختر الایمان وغیرہ شامل ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ مخدوم محی الدین کا ان پر احسان ہے کہ انہوں نے پہلی بار حیدرآباد کے مشاعرے میں انھیں متعارف کرایا ۔ اس کے بعد سے وہ حیدرآباد کے ہر مشاعرے میں مدعو کئے جانے لگے ۔ ان کے کلام کو باذوق سامعین نے ہمیشہ پسند کیا اور اپنی داد و ستائش سے ان کے حوصلے بڑھائے ۔ انہوں نے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ سلیمان اریب کے رسالہ ’’صبا‘‘ کی امداد کے لئے حیدرآباد میں بڑے پیمانے پر ہند و پاک مشاعرہ ہوا تھا ، جس میں جوش ، ساحر ، جگن ناتھ آزاد اور کئی نامور شعراء نے شرکت کی تھی ۔ مشاعرہ کی کارروائی جناب اختر حسن ایڈیٹر ’’پیام‘‘ نے چلائی تھی ۔ اس مشاعرہ میں چند پاکستانی کرکٹ کھلاڑی بھی شریک تھے جو ٹسٹ میچ کھیلنے کے سلسلہ میں حیدرآباد آئے ہوئے تھے ۔ اریب نے جب کلام سنانا شروع کیا تو سامعین میں سے چند افراد نے ہوٹنگ شروع کردی اور اریب کلام نہیں سنا سکے جس پر اختر حسن نے بشر نواز کے نام کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اپنی نظم سنائی جس پر مشاعرہ کی فضا بحال ہوگئی اور پھر فوری بعد جوش ملیح آبادی نے بھی نہایت موڈ میں اپنی نظم سنا کر مشاعرہ کو لوٹ لیا۔ بشر نواز نے کہا کہ حیدرآباد میں ہمیشہ ہی مشاعرے انتہائی کامیاب رہے خواہ وہ ادبی ٹرسٹ کا مشاعرہ ہو یا شنکر جی یادگار مشاعرہ ۔ یہ مشاعرے خالص ادبی ہوا کرتے ، سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، جاں نثار اختر ، شکیل بدایونی ، اختر الایمان ، قتیل شفائی اور نہ جانے کتنے ہی شعراء نے ان مشاعروں کو اپنے خوبصورت اشعار سے کامیاب بنایا ۔ بشر نواز نے کہا کہ اس دور کے شعراء کے لئے حیدرآباد کا مشاعرہ ایک چیلنج اور اعزاز کی حیثیت رکھتا تھا ۔ کیونکہ انھیں احساس تھا کہ حیدرآباد کے سامعین نہایت باذوق اور شعر فہم ہوتے ہیں ۔ دوسری بات یہ بھی تھی کہ ان دنوں ملک کے کسی بھی علاقہ میں اس طرح کے مشاعرے نہیں ہوا کرتے تھے جہاں ان کے عمدہ کلام پر سامعین کی جانب سے اس قدر فراخدلانہ داد ملتی ہو ، اس لئے حیدرآباد کے مشاعرے پڑھنا شاعر کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا ۔انہو ںنے کہا کہ مشاعرہ میں ہوٹنگ بھی ہوتی تھی ، لیکن تہذیب کے دائرے میں ہوا کرتی ، چنانچہ انہوں نے حیدرآباد کے ’’ریڈی ہاسٹل‘‘ میں منعقدہ تاریخی مشاعرہ کاذکر کیا ۔ جس میں مسلمانوں کے علاوہ بے شمار ہندو ، سکھ اصحاب و خواتین بھی شریک تھے ، جو نہایت نظم و ضبط کے ساتھ کلام سن رہے تھے اور اچھے شعراء کو داد بھی دے رہے تھے ۔ اس دور میں سامعین شاعر کے کلام پر داد دیا کرتے تھے نہ کہ گانے پر ۔ آج کل کے مشاعرہ کو نوٹنکی کہا جاسکتا ہے ۔ یہ صورت حال حیدرآباد میں ہی نہیں ، بلکہ پورے ہندوستان میں ہے ۔ جو شاعر اچھا گاتا ہے وہ مشاعرہ لوٹ لیتا ہے یا جو شاعرہ کلام کے ساتھ ادائیں دکھاتی ہے وہ سامعین سے داد بھی وصول کرتی ہے ۔ نچلی سطح کے کلام کو آج پسند کیا جانے لگا ہے ، باذوق سامعین کی عدم موجودگی کا شدت سے احساس ہونے لگا ہے ۔

بشر نواز نے ماضی میں حیدرآباد کے ادبی ماحول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ معظم جاہی مارکٹ پر واقع ماہنامہ ’’صبا‘‘ کا کمرہ نمبر 17 تاریخی اہمیت رکھتا تھا ، جہاں حیدرآباد کے تقریباً سبھی ترقی پسند شاعر اور ادیب جمع ہوتے تھے ۔ ان میں شاذ تمکنت ، وحید اختر ، مغنی تبسم ، سلیمان اریب ، سردار سلیم ، اقبال متین اور دوسرے شامل ہیں۔ ایک دوسرے کی تخلیقات سنی جاتیں اور خوب گرماگرم ادبی مباحث ہوتے ۔ اسی دور میں کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے انتہا پسندی کا نعرہ دیا ۔ بنگال اور خود تلنگانہ میں کمیونسٹ تحریک کا زور بڑھا جس کے اثرات ترقی پسند ادب پر بھی رونما ہونے لگے ۔ کچھ پرجوش کارکنوں نے قلم چھوڑ کر بندوق اٹھالینے کا نعرہ دیا ، حالانکہ اس وقت تک ترقی پسند تحریک ایک طاقتور اور منظم تحریک بن چکی تھی ، جس نے دنیائے ادب کو نہایت عظیم اور مایہ ناز ادیب و شاعر دیئے لیکن پارٹی کی پالیسی میں تبدیلی نے کئی ادیبوں اور شاعروں کو بدظن کردیا جن میں وہ خود بھی شامل ہیں ۔ اس لئے وہ اور ان کے ساتھیوں نے پروپگنڈہ شاعری سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ دل سے نکل کر دل کو چھولینے والی شاعری میں انہوں نے سراج اورنگ آبادی ،میر تقی میر ، فراق گورکھپوری اور فیض کواپنا پسندیدہ شاعر قرار دیا ہے ۔ شعراء کا وہ گروہ جن کی شاعری میں کسی طرز حیات کی ترجمانی اور اقدار و نظریات کی پاسبانی ملتی ہے ، ان شعراء میں انھیں اقبال و غالب نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔ حیدرآباد کے شعراء میں مخدوم اور شاذ ان کے پسندیدہ شاعر ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ عثمانیہ میں اردو ذریعہ تعلیم کا کامیاب تجربہ کرکے دنیا کو نئی روشنی دکھائی گئی تھی ۔ اسی جامعہ کے فارغ التحصیل ہزاروں نوجوانوں نے اپنی صلاحیت ، قابلیت اور مہارت سے زندگی کے متعدد شعبوں کو ترقی وکامیابی سے روشناس کیا ۔ سیاسیات ، معاشیات ، فلسفہ ، انجینئرنگ ، میڈیسن اور دیگر علوم میں اس جامعہ سے ڈگریاں حاصل کیں اور اعلی عہدوں پر فائز ہوئے ، جن میں غیر مسلم نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی ۔ حضور نظام نے عثمانیہ یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ دارالترجمہ قائم کرکے ایک اور عظیم علمی کارنامہ انجام دیا تھا ۔ دارالترجمہ سے وحید الدین سلیم کے علاوہ کئی نامور ماہر لسانیات اور ماہرین علوم وابستہ رہے ، جنہوں نے ہزاروں اصطلاحات وضع کیں ۔ دارالترجمہ کو فرقہ پرست قوتوں نے بھاری نقصان پہنچایا اور اس کی سیکڑوں کتابیں پاکستان منتقل کردی گئیں ۔ حیدرآباد کے ادبی رسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان دنوں حیدرآباد سے کئی ادبی رسائل شائع ہوتے تھے جن میں ’’سب رس‘‘ اور ’’صبا‘‘ کی ادبی خدمات غیرمعمولی تھیں ۔ اردو اداروں میں ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے قائم کردہ ادارہ ادبیات اردو کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ ادارہ نے دکنی ادب پر بھی نمایاں کام کیا ہے ۔ جناب حبیب الرحمن ، راج بہادر گوڑ ، عابد علی خان ، زینت ساجدہ ، حسینی شاہد ، سرینواس لاہوٹی اور ان کے کئی رفقاء نے انجمن ترقی اردو کو ایک فعال تنظیم بنانے میں اپنا خون جگر دیا ہے ۔انجمن ترقی پسند مصنفین اور دیگر کئی اداروں نے بھی ادب کے فروغ میں نمایاں رول ادا کیا ۔

بشر نواز نے بتایا کہ اورنگ آباد کی کئی نامور شخصیتوں کا حیدرآباد سے قریبی اور گہری تعلق رہا ہے ۔ انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں کو ترقی کی نئی جہتوں سے روشناس کیا اور شہرت و مقبولیت حاصل کی ۔ اورنگ آباد میں تعلیمی انقلاب کے نقیب اور محرک ڈاکٹر رفیق زکریا کی غیر معمولی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں ۔ انھوں نے اورنگ آباد میں مولانا آزاد کالج اور بے شمار تعلیمی ادارے قائم کئے ۔ اس کے علاوہ مرہٹواڑہ کے دیگر علاقوں میں بھی تعلیمی لہر پیدا کی ۔ مسلمانوں میں جو تعلیمی شعور پیدا ہوا اسکا سہرا ان کے سر جاتا ہے ۔ انجمن ترقی اردو کے بانی اور بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اورنگ آباد میں انجمن کا ہیڈ کوارٹرز قائم کیا ۔ اردو کے فروغ کے لئے انھوںنے گوشے گوشے میں انجمن ترقی اردو کو ایک فعال اور کارکرد تنظیم بنایا ۔ حیدرآباد اور دیگر کئی علاقوں میں اس تنظیم کے ذریعہ اردو کی سرگرمیاں تیز تر ہوئیں ۔ حیدرآباد میں بھی انجمن ترقی اردو کی رہنمائی میں اردو کے تعلیمی تدریسی اور دیگر مسائل کو حل کرنے میں مدد ملی ۔ بشر نواز نے اردو کے نامور شاعر اور اورنگ آباد کی مایہ ناز شخصیت سکندر علی وجد کا بھی ذکر کیا جن کا حیدرآباد سے گہرا لگاؤ تھا ۔ وہ سیول سرونٹس کے اعلی عہدیدار کے علاوہ مشہور شاعر تھے حیدرآباد میں وہ اکثر قیام کرتے جہاں ان کے لئے شعری محفلوں کا اہتمام ہوتا ۔ حیدرآباد میں وجدؔ کے کئی دوست احباب تھے جن میں مخدوم محی الدین ، حیرت بدایونی ، عابد علی خان اور محبوب حسین جگر قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور ، پروفیسر عبدالقادر سروری ، پروفیسر انور معظم ، پروفیسر رفیعہ سلطانہ ،پروفیسر عاقل علی خان ، ڈاکٹر صفی الدین صدیقی ، یوسف ناظم ، شیخ چاند ، قاضی سلیم ، اختر الزماں ناصر ، شفیق فاطمہ شعریٰ اور جاوید ناصر کا تعلق بھی مرہٹواڑہ سے رہا ۔ ان میں بیشتر عثمانین ہیں عثمانیہ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ان نامور ہستیوں نے دنیائے علم و ادب میں بلند مقام حاصل کیا اور مختلف شعبوں کو ترقی کی نئی سمتوں سے ہمکنار کیا۔
قاضی سلیم کا ذکر کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ وہ ایک مایہ ناز شاعر تھے جن کا حیدرآباد سے بڑا دیرینہ رشتہ تھا ۔ وہ مہاراشٹرا اسمبلی کے رکن ، لوک سبھا کے ممبر اور ایک قانون داں بھی تھے ۔ حیدرآباد میں مخدوم ، مغنی تبسم ، شاذ تمکنت ، عوض سعید ، اقبال متین ، سلیمان اریب اور کئی ادیب و شعراء کے ساتھ انھوں نے شعر و ادب کی محفلوں میں حصہ لیا ۔ قاضی سلیم حیدرآبادی تہذیب کے نمائندہ شاعر جن کی شخصیت اور کردار پر حیدرآبادی تہذیب کی جھلک نمایاں تھی ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جن کا اورنگ آباد کے ساتھ ساتھ حیدرآباد سے بڑا مضبوط رشتہ تھا جنھوں نے اپنے کارناموں کے ذریعہ ہمارے سماج پر اپنے نمایاں نقوش چھوڑے ہیں ۔ بشر نواز نے کہا کہ ان دنوں حیدرآباد اور اورنگ آباد ایک ہی چکی کے دو پاٹ تھے ۔ 1956 ء میں ریاستوں کی تنظیم جدید کے بعد اورنگ آباد کو مہاراشٹرا میں ضم کیا گیا ۔ لیکن ادبی اور روحانی رشتے آج تک بھی باقی ہیں ۔ ہم حیدرآباد کے ہونے پرفخر کرتے رہے ہیں ۔ ہماری ریاست حیدرآباد تھی جو ہندوستان بھر میں ایک مستحکم اور خوشحال ریاست سمجھی جاتی جس کا حکمراں دنیا کا دوسرا بڑا دوست مند شخص مانا جاتا تھا ۔ حیدرآباد کی تہذیب ملک کی کئی تہذیبوں کے لئے سرچشمہ وجدان بنی رہی ۔

حیدرآباد کی اردو صحافت کا ذکر کرتے ہوئے بشر نواز نے کہا اس دور میں حیدرآباد سے نہایت اعلی درجہ کے اخبار شائع ہوا کرتے تھے جن میں سب سے قدیم رہبر دکن تھا اسکے علاوہ نظام گزٹ ، مشیر دکن ، میزان ، رعیت ،صحیفہ ، پیام اور سیاست منظر عام پر آئے ۔ اخبار سیاست تمام علمی اور ادبی حلقوں میں کافی مقبول روزنامہ تھا ۔ جناب عابد علی خان اور جناب محبوب حسین جگر نے سیاست کو ایک مکمل اخبار بنایا ۔ خبروں اور صحافتی مضامین کے ساتھ ساتھ سیاست نے ادبی تخلیقات کو بھی اپنے صفحات کی زینت بنایا ۔ ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کالم شاہد صدیقی اور مجتبیٰ حسین کا مرہون منت ہے ۔ اس کالم نے ادب میں طنز ومزاح کی صنف کو متعارف اور مقبول بنانے کا کام کیا ۔ سیاست میں ہندوستان اور پاکستان کے سرکردہ ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں ۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اردو تعلیم کے سلسلہ میں ریاست مہاراشٹرا سب سے آگے ہے جہاں 4500 اردو میڈیم کے سرکاری اسکولس ہیں ۔ قومی یکجہتی کے فروغ اور ہندوستانی تہذیب کی بقا کے لئے غیر اردوداں طبقہ کو بھی اردو سے روشناس کرانے کی آج زیادہ ضرورت ہے ۔ ماضی میں حیدرآبادی تہذیب نے اسی جذبہ کو سماجی ترقی کی بنیاد بنایا تھا ، جس میں نمایاں کامیابی بھی حاصل ہوئی ۔بشر نواز نے اس موقع پرحیدرآبادی تہذیب کے تناظر میں اپنے چند اشعار بھی سنائے۔
یہی چہرہ ، یہی آنکھیں یہی رنگت نکلے
جب کوئی خواب تراشوں تیری صورت نکلے
اسی امید پہ خوابوں سے سجالی نیندیں
کبھی ممکن ہے کوئی خواب حقیقت نکلے
اُس سے وابستہ اِک اک چیز کو چھو کر دیکھیں
دل بہل جانے کی شاید کوئی صورت نکلے
کبھی سوچا ہی نہیں اپنا پرایا میں نے
جس کو چاہا ہے اسے ٹوٹ کے چاہا میں نے