عابد صدیقی
اورنگ آباد ارض دکن کا ایک تاریخی شہر اور ایک زمانہ میں دکن کا دارالخلافہ رہا ہے ۔ اس شہر نگاراں میں تاج محل ثانی کا خوبصورت نظارہ بڑا دلکش ہے جو بی بی کا مقبرہ بھی کہلاتا ہے ۔ اجنتا اور ایلورہ کے غار قدیم ہندوستانی تہذیب کے سربستہ راز اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں ۔ حضرت شاہ محمود کی تعمیر کردہ پن چکی ، دولت آباد کا قلعہ اور شہنشاہ ہندوستان اورنگ زیب عالمگیر کا خلدآباد میں واقع سیدھا سادہ مزار اس شہر کی تاریخی وتہذیبی عظمت کا مظہر ہے ۔ دوسری طرف کئی صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے آستانے ذہن و دل کو فرحت اور گوناگوں سکون بخشتے ہیں ۔ اس شہر کے ایک مایہ ناز شاعر ولی اورنگ آبادی کے شعری نغموں نے سارے ملک کی ادبی فضا کو گرمادیا تھا ۔ امیر خسرو کے ہمعصر شاعر نام دیو کے نغمے سرچشمہ وجدان بنے رہے ۔ سراج اورنگ آبادی اور سکندر علی وجد کی شاعری ، مولوی عبدالحق کے ادبی اور علمی کارناموں نے دکن کی تہذیب پر دیرپا نقوش مرتسم کئے ۔ دکن میں تہذیب و تمدن کے مرکز ہونے کا اعزاز سب سے پہلے اورنگ آباد کو حاصل رہا ۔ اردو کے کئی ادیب اور شعراء نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور کاوشوں سے اردو دنیا میں ایک مستند اور معتبر مقام حاصل کیا ۔ ان غیر معمولی شخصیتوں میں اسلم مرزا بھی ہیں جو ایک نامور ادیب ، شاعر ، مورخ ، مصنف ، مترجم ، قانون داں اور محقق کی حیثیت سے ملک گیر شہرت رکھتے ہیں ۔ ان کا اصل نام مرزا اسلم بیگ ہے ۔ وہ 10 اکتوبر 1944 کو پونے میں پیدا ہوئے ۔
ان کے والد فوج میں تھے اس لئے انھیں مہاراشٹرا کے کئی شہروں میں رہنے کا اتفاق ہوا ۔ ابتدائی تعلیم احمد نگر میں ہوئی پھر بمبئی کے انجمن اسلام ہائی اسکول سے اردو ذریعہ تعلیم کے ساتھ میٹرک کامیاب کیا ۔ سینٹ زیورس کالج بمبئی سے گریجویشن کی تکمیل کی ۔ پرسونل مینجمنٹ اور قانون میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ اسکول کے زمانے سے ہی اسلم مرزا کو اردو ادب اور شاعری سے گہری دلچسپی رہی ۔ ان کے والد کو بھی اردو شاعری کا بڑا ذوق تھا ۔ دیگر افراد خاندان بھی کسی نہ کسی حیثیت سے ادب سے وابستہ رہے ۔ ان کے استاد خلیل مظفر نے انکی بڑی حوصلہ افزائی کی ۔ ان سے مضامین لکھوائے ، شعر فہمی اور مشق سخن کی تربیت کی ۔ اسلم مرزا کے مضامین ان دنوں انقلاب ، ہندوستان جیسے اخبارات اور بعض ادبی رسائل میں شائع ہونے لگے جس سے ان کے ادبی ذوق کو خوب جلا ملی ۔ وہ انجمن اسلام ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہوئے اور کئی نامور ادیبوں اور شاعروں کے آگے زانوے ادب تہہ کیا ۔ ان کی تصانیف میں آئینہ معنی نما ، لکنت ، عطر گل مہتاب ، سلاطین دکن کے عہد میں شادیاں ، گلدستہ خوش باس ، ہم جزیروں میں رہتے ہیں اور شعری مجموعے ’’گیلے پتوں کی مسکان‘‘ کافی مقبول ہوئے ۔
اورنگ آباد میں ان سے میری ملاقات مشہور سماجی کارکن خالد سیف الدین کی معرفت ہوئی ۔ اس طویل ملاقات کے دوران اسلم مرزا نے ادارہ سیاست کے معیار ، اعتبار اور سیاست کی علمی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ سیاست نے اپنے کالموں کے ذریعہ نہ صرف سیاستدانوں بلکہ بے شمار ادیبوں اور شعراء کو متعارف کروایا ۔
اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے اسلم مرزا نے کہا کہ حیدرآباد کے تاریخی پس منظر سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ آصف جاہ اول نواب قمر الدین نظام الملک مغلیہ سلطنت میں صوبیدار تھے ۔ مغل سردار فتح خاں کو شکست دینے کے بعد وہ اورنگ آباد کے نوکھنڈا آئے اور آصفجاہی خانوادہ کی بنیاد رکھی ۔ ان دنوں اورنگ آباد دکن کا پایہ تخت تھا ۔ آصفجاہ اول نے مرہٹوں کی یورشوں کا خاتمہ کیا ان کے دربار میں علما ، دانشور اور ممتاز شعراء تھے ۔ وہ خود ایک بڑے عالم ادیب اور شاعر تھے اور اسلامی تمدن کے بڑے حامی تھے ۔ انھوں نے سرزمین ہند پر پہلی مسلم مملکت قائم کی تھی جو انکا عظیم کارنامہ ہے ۔ دراصل حیدرآبادی تہذیب کی بنیادیں اورنگ آباد میں رکھی گئیں بعد میں آصف جاہ سوم نے دکن کا پایہ تخت اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل کیا ۔ دکن کی تنظیم جدید میں ریاست حیدرآباد کا سب سے بڑا ضلع اورنگ آباد قرار پایا ۔ انھوں نے بتایا کہ اس سے قبل بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد دکن میں پانچ مملکتیں قائم تھی جن میں گولکنڈہ کی قطب شاہی ، بیجاپور کی عادل شاہی ، احمدنگر کی نظام شاہی ، برار کی عماد شاہی اور بیدر کی برید شاہی شامل ہیں ۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہی آصفجاہی مملکت قائم ہوئی تھی ۔ آصف جاہی حکمرانوں نے ریاست حیدرآباد کو ایک مضبوط اور مستحکم حکمرانی عطا کی خاص طور پر نظام ششم میر محبوب علی خان کے عہد سے ریاست کو نمایاں مقام حاصل ہوا۔ تلنگانہ ، مہاراشٹرا اور کرناٹک علاقوں کے 16 اضلاع پر مشتمل اس ریاست میں بے شمار مدارس قائم کئے گئے ۔ آصف جاہ میر عثمان علی خان نے اپنی متعدد اصلاحات کے ذریعہ حیدرآباد کو مثالی ریاست بنادیا تھا۔ انھوں نے کئی محکمے قائم کئے تھے جن میں ریلوے ، ڈاک ، تعلیمات ، صحت و طبابت ، آبپاشی ، تعمیرات ، جنگلات بلدیہ اور پولیس شامل ہیں ۔ محکمہ ریلویز جو ایک خانگی کمپنی کے تحت تھا اسے خرید کر نظام اسٹیٹ ریلویز میں تبدیل کیا گیا ۔ عدالتوں کے نظام کو وسعت دی گئی ۔ عدالتوں میں اردو کا استعمال تھا ۔ مدارس کا ذریعہ تعلیم بھی اردو میں تھا ۔ دکن میں پہلے فارسی اور اردو اہم زبانیں تھیں لیکن اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی۔ اردو سارے نظم و نسق کی زبان رہی ۔
اسلم مرزا نے کہا کہ عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام آصف سابع کا سب سے بڑا اور تاریخ ساز کارنامہ ہے ، انھوں نے درسی زبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یونیورسٹی میں اردو ذریعہ تعلیم کو رائج کیا جس کی عالمگیر پیمانے پر ستائش کی گئی ۔ اس دور میں جامعہ عثمانیہ میں عالمی شہرت یافتہ اساتذہ مقرر کئے گئے ۔ جن میں مولانا مناظر احسن گیلانی ، مولانا عبدالقدیر صدیقی حسرت ، مولوی عبدالحق ، ڈاکٹر حمید اللہ ، خلیفہ عبدالحکیم ، کشن چندرینگر ، پروفیسر شیوموہن لال ، پروفیسر عزیز احمد اور دیگر کئی اصحاب علم شامل ہیں ۔ ایک مسلم سلطنت ہونے کے باوجود ملک بھر میں حیدرآباد ایک سیکولر ریاست تھی جہاں ہندو مسلم اتحاد ، بھائی چارگی ، فرقہ وارانہ ہم اینگلربے مثال رہی ۔ مرہٹی ، کنڑا اور تلگو علاقوں کے عوام جن کا الگ الگ کلچر رہا وہ سب اس تہذیب میں ضم ہوگئے جس سے حیدرآبادی تہذیب کو تقویت اور استحکام حاصل ہوا ۔ انھوں نے کہا کہ حیدرآبادی تہذیب پر مغل تہذیب اور مغلوں کے رسم و رواج کا گہرا اثر رہا ۔ دراصل مغلوں کی تہذیب ایرانی اور ترکی کی تہذیبوں کا امتزاج تھی اس طرح اس تہذیبی ارتباط اور تسلسل نے حیدرآباد کے تمدن کو نکھارا ، سنوارا اور اس طرح مشترکہ کلچر کی اساس قائم کی ۔ انھوں نے کہا کہ حیدرآبادی معاشرہ میں جو رسوم و رواج درآئے وہ دراصل مغلوں کے اثرات کا نتیجہ تھے مثال کے طور پر مہندی لگانا ، تیل چڑھانا ، سہرا باندھنا ، سانچق و ہلدی کی رسمیں ، سلامی دینا ، نیگ وصول کرنا اور اسی طرح کی بے شمار رسومات معاشرہ میں مستقل صورت بن گئیں ۔ اسلم مرزا ایک مورخ بھی ہیں انھوں نے کہا کہ مغلوں کے رسم ورواج دراصل راجپوتوں اور مغلوں کے باہمی تعلقات کا نتیجہ ہیں ۔
کسی بھی تہذیب کے ارتقاء اور فروغ میں زبان کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ حیدرآباد میں دکنی زبان کا چلن رہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اردو کو نمایاں مقام حاصل رہا اردو میں مرہٹی ، پنجابی ، ترکی فارسی اور عربی کے بے شمار الفاظ شامل ہوگئے جس سے اردو ایک طاقتور زبان بن گئی ۔ سرکاری محکموں ، عدالتوں اور کاروبار میں اردو کا استعمال تھا ۔ عدالتوں کی کارروائی خاص طور پر اردو میں ہوا کرتی اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ عوامی زبان رہی ۔ نظام حیدرآباد نے اردو کے ساتھ ساتھ لسانی اقلیتوں کے احساسات کا بھی احترام کیا ۔ چنانچہ تحتانوی سطح تک تعلیم اپنی اپنی مادری زبان میں ہوتی تھی اس کے بعد میٹرک تک ان زبانوں کا ایک لازمی مضمون رہتا ۔ اس اقدام سے تلگو ، مرہٹی اور کنڑی میں بھی تعلیم کے مواقع حاصل رہے اس کے علاوہ گاؤں کا نظم و نسق جو پٹیل اور پٹواری کے ہاتھ میں ہوتا تھا وہ اردو میں نہیں بلکہ مقامی زبانوں میں ہوتا سرکاری اور مقامی زبانوں میں انجام دیئے جاتے ۔ انصاف پروری اور رواداری کے ذریعہ سلطنت آصفیہ نے ایک مثال قائم کی ۔
اسلم مرزا نے کہا کہ حیدرآبادی تہذیب اور کلچر ایک فطری کلچر کہا جاسکتا ہے ۔ دوستی ، محبت ، امن ، بھائی چارگی ، ایکدوسرے کی ضرورت ، ہمدردی ، مروت ، اخلاص ، فراخدلی ، ایثار وقربانی دراصل اعلی انسانی صفات ہیں جو کسی بھی مذہب کے ماننے والے انسان میں موجود رہتی ہیں اور یہ صفات حیدرآبادی تہذیب کی بنیاد ہیں ۔ اسلئے میں اسے ایک فطری تہذیب مانتا ہوں ۔ چنانچہ حیدرآباد میں ہندو اور مسلمانوں نے واقعی طور پر مل جل کر رہنے اور زندگی گزارنے کا عملی ثبوت دیا ۔ کئی ہندو شیروانی زیب تن کرتے ، سر پر ٹوپی لگاتے اور نہایت شستہ اردو میں گفتگو کرتے ۔ اسی طرح مسلمان بھی تہواروں اور ہندوؤں کی تقاریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔ آصف سابع نے ایک ایسا سماج بنادیا تھا جس میں سب ہی طبقات مساویانہ طور پر اپنی مرضی سے زندگی گزارتے تھے ۔ انھوں نے وزیراعظم جیسے عہدوں پر نریندر بہادر ، چندولال اورمہاراجہ کشن پرشاد کو فائزکیا ۔ ہندوؤں اور سکھوں کی عبادت گاہوں کے لئے حکومت کی جانب سے خطیر امدادی رقم دی جاتی ۔گرو گوبند سنگھ کا گردوارہ جسے گرودوارہ حضور صاحب کہا جاتا ہے ۔ اس گردوارے کو حضور نظام نے ہزاروں ایکر اراضی عطا کی ۔ میں اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتا لیکن مختصر یہ کہ ان دنوں ریاست حیدرآباد ہندوؤں اور مسلمانوں کی جنت تھی ۔
اسلم مرزا نے کہا کہ حیدرآباد میں اردو اور شاعری کی خوب پذیرائی ہوئی ۔ آصف سابع خود اعلی درجہ کے شاعر تھے ۔ ملک کے کئی علاقوں سے شعراء حیدرآباد میں قیام پذیر ہوتے ۔ صفی اورنگ آبادی حیدرآباد منتقل ہوگئے ۔ مولوی عبدالحق 27 برس تک انجمن ترقی اردو کے سربراہ رہے وہ چادر گھاٹ کالج کے پرنسپل رہے ان کی علمی خدمات ناقابل فراموش ہیں اسی طرح جگر ؔ، فانیؔ ، جلیل مانک پوری ، داغ دہلوی ، امیر مینائی ، نظام دکن کے دربار سے وابستہ رہے ۔ حیدرآباد میں اردو کے مایہ ناز شعراء پیدا ہوئے ۔ قاضی عبدالغفار ، نرسنگ راؤ اور کئی اردو صحافیوں نے اپنے اخبارات پیام اور رعیت کے ذریعہ اردو صحافت کی آبیاری کی ۔ رہبر دکن ، ملاپ ، نظام گزٹ ، پیسہ اخبار ، سیاست نے عوام کی خدمت کی ۔ حیدرآباد کو زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں فوقیت اور برتری حاصل رہی ۔ نظام حیدرآباد صلاحیتوں کو مجتمع کرنے اور فکر و فن کی حوصلہ افزائی کرنے کا ہنر رکھتے تھے اور جذبہ بھی ۔ اس لئے حیدرآباد سے بین الاقوامی معیار کے افراد پیدا ہوئے ۔
حیدرآباد کے دارالترجمہ نے بھی گرانقدر کارنامہ انجام دیا ۔ مختلف علوم کو اردو زبان میں منتقل کرنے کا کام اتنا آسان نہ تھا لیکن دارالترجمہ سے وابستہ دانشوروں نے میڈیسن ، انجینئرنگ ، طبیعات ، معاشیات ، قانون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کا غیر معمولی کام انجام دیا ۔ اردو کو علوم کی زبان بنانے میں حیدرآباد کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ جوش ملیح آبادی ، وحید الدین سلیم ، ڈپٹی نذیر احمد اور کئی اہم شخصیتوں کی خدمات سے استفادہ کیا گیا ۔ دارالترجمہ کی اصطلاحات سے سینکڑوں اسکالرس نے استفادہ کیا ۔ خود پاکستان میں بھی اصطلاحات سازی کا جو کام ہوا وہ دارالترجمہ حیدرآباد کا رہین منت ہے ۔ اردو ادب اور شاعری کو حیدرآباد میں کافی پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔ اورنگ آباد کے کئی شعراء قاضی سلیم ، بشر نواز ، سکندر علی وجد ، شفیق فاطمہ شعریٰ ، اختر الزماں ناصر ، محمود شکیل ،شاہ حسین ہنری ، ڈاکٹر عصمت جاوید ، عارف خورشید جیسی نامور ادبی شخصیتوں نے اپنے فکر و فن کی روشنی سے اردو کی تابندگی میں اضافہ کیا۔ ولی ، سراج ، مولوی عبدالحق ، عالم دین مولانا مودودی کی اس سرزمین سے کئی نامور شعراء ، علماء دانشور ابھرے جن کے علمی اور ادبی کارنامے ہمارا لازوال سرمایہ اور قیمتی اثاثہ ہیں ۔ ریاست حیدرآباد کو ایک ادبی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی ۔
اسلم مرزا نے کہا کہ حیدرآباد نے جدید علوم کے ساتھ ساتھ مذہبی و اخلاقی اقدار کی ترویج و اشاعت میں بھی نمایاں حصہ لیا ۔ حیدرآباد کے علماء اولیاء اللہ اور بزرگان دین نے عقائد کی اصلاح کی اور لوگوں کو گمراہی کے راستے سے بچایا اور مذہبی انداز فکر کے پیدا کرنے میں مثبت رول ادا کیا ۔ اولیاء اللہ کی خانقاہوں میں ذکر و فکر کی مجالس اور سماع کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ قوالی کو کافی عروج ملا ۔ قوالی کے ذریعہ بھی شعر و شاعری کو مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں روحانی اقدار کو جاری و ساری کرنے میں مدد ملی ۔ دربار کے علاوہ خانقاہ نے اردو زبان کی مقبولیت اور اس کی وسعتوں میں اپنا کردار نبھایا ہے ۔ حیدرآباد اور اس کے تمام اضلاع میں مذہبی رجحانات کو بڑھاوا ملا ۔ مذہب کے ظاہری پہلو سے زیادہ اس کے روحانی پہلو کو اہمیت حاصل ہوئی ۔ عاشور خانوں میں بھی مجالس کا اہتمام ہوتا ۔ ذاکرین ، امام عالی مقام اور شہیدان کربلا کے واقعات بیان کرتے جو تالیف قلب کا باعث بنتے ۔ دلوں میں رقت اور اہل بیت اطہار سے محبت پیدا ہوتی نہ کوئی مسلکی اختلاف اور نہ اعتقادات کا جھگڑا ، یہ ماحول شاید ہی ہندوستان کی کسی ریاست میں تھا ۔ علمائے حیدرآباد نے دینی علوم کی اشاعت و ترویج کے لئے جامعہ ازہر مصر کے طرز پر جامعہ نظامیہ قائم کیا جس کے دیڑھ سو برس مکمل ہوگئے ہیں ۔ بہرحال حیدرآباد اور حیدرآبادی تہذیب نے زندگی کے ہر تار کو چھیڑا ہے اور ان میں معنویت حسن اور عقیدت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ آخر میں اسلم مرزا نے اپنے اس شعر پر گفتگو ختم کی ۔
پڑھیں تو بھیگنے لگتی ہیں آنکھیں
کتاب دل پہ کیا لکھا ہوا ہے