سید امتیاز الدین
حیدرآباد جوکل تھا کے سلسلے میں آج جس شخصیت سے ہم ملاقات کررہے ہیں ان کی عمر بہت زیادہ نہیں ہے ، لیکن ان کا مشاہدہ بہت اچھا ہے اور حافظہ نہایت قوی ہے ۔ اُن کی عمر 74 سال ہے جوویسے تو اچھی خاصی عمر ہے لیکن قدیم حیدرآباد کی باتیں تفصیل سے بتانے کے لئے بالعموم ایسے بزرگوں سے ملاقات کی جاتی ہے جن کی عمریں اسّی سے تجاوز کرچکی ہیں ۔ اودھیش رانی صاحبہ کا تعلق ایسے مہذب اور ثقہ خاندان سے ہے جس نے حیدرآباد کے قدیم اور گنگاجمنی تہذیب کے ماحول میں آنکھیں کھولیں ۔ آپ کی تعلیم اردو میں ہوئی ۔ آپ کے نام کی وجہ تسمیہ بھی دلچسپ ہے ۔ آپ سری رام نومی کے دن پیدا ہوئی تھیں ۔ اودھیش کے معنی ہیں اودھ کا راجہ ۔ چونکہ لڑکی پیدا ہوئی تھی اس لئے آپ کے تایا زاد بھائی راج بہادر گوڑ کے مشورے سے آپ کا نام اودھیش رانی رکھا گیا۔ اودھیش رانی نے جامعہ عثمانیہ سے اردو میں ایم اے کیا ۔ پھر حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے مشہور ادیب اور نقاد ڈاکٹر گیان چند جین کی زیر نگرانی آپ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ پی ایچ ڈی میں آپ کا موضوع تھا ’’دکھنی ادب اور زبان کا دوسری ہندوستانی زبانوں سے رشتہ‘‘ ۔ آپ نے ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی سے روسی زبان میں ایم اے کیا ۔ جہاں تک ملازمت کاتعلق ہے آپ نے ہمہ قسم کی خدمات انجام دیں ۔ خاتون ہونے کے باوجود آپ نے پولیس کی نوکری بھی کی جس سے آپ کی دلیری اور جرأت مندی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ آپ گورنمنٹ کالج عادل آباد میں اردو کی لکچرر رہیں ۔ سالار جنگ میوزیم میں گائیڈ لکچرر کے فرائض انجام دیئے ۔ نیشنل کونسل فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) میں اردو نصاب کی تدوین کی لکچرر کے عہدہ پر فائز رہیں ۔ آج کل اردو کالم نگاری اور مطالعہ آپ کا مشغلہ ہے ۔
اودھیش رانی کے والد رائے محبوب نارائن حیدرآبادی تہذیب کے علمبردار تھے ۔ محبوب رائے صاحب آپ کے تایا تھے ۔ آپ کے دادا یو پی میں پوسرا کے مقام سے آئے تھے ۔ آپ کا خاندان حضرت محبوب سبحانیؒ کا معتقد تھا ۔ ان کے گھر میں گیارہویں کی نیاز بڑی عقیدت اور احترام سے ہوتی تھی ۔ محرم بھی بڑی عقیدت سے منایا جاتا تھا ۔ سات ، آٹھ ، نو محرم اور یوم عاشورہ کو گوشت نہیں پکتا تھا ۔ آپ کا ننھیال والا جاہی اور ددھیال آصف جاہی کہلاتا تھا ۔ اودھیش رانی کے دادا کے بچے کم عمری میں وفات پاجاتے تھے ۔ وہ اپنے زمانے کے کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دعا کی درخواست کی ۔ ان بزرگ نے ان سے کہا کہ اپنے بچوں کے ناموں کے ساتھ محبوب کا اضافہ کرو ۔ اس لئے دادا نے ایک بیٹے کا نام محبوب رائے اور دوسرے کا محبوب نارائن رکھا ۔ اودھیش رانی کے نانا نواب آف آرکاٹ کی ملازمت میں تھے ۔ اس لئے یہ لوگ والاجاہی کہلائے اور دادا کے آبا واجداد آصف جاہ کے ساتھ حیدرآباد آئے تھے اس لئے آصف جاہی کہلاتے تھے ۔ راج بہادر گوڑ اودھیش رانی کے تایا زاد بھائی تھے ۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ حیدرآباد میں عام طور پر گوڑ وہ لوگ کہلاتے ہیں جن کا کاروبار شراب کی فروخت سے ہوتا ہے ۔ اودھیش رانی نے بتایا کہ یہ دراصل گوڑ نہیں بلکہ گور ہے ۔ گور ایک مقام ہے جو بنگال اور بہار کی سرحد کے قریب واقع تھا ۔ چونکہ وہاں سیلاب بہت آتے تھے اس لئے یہ خاندان یو پی آکر بس گیا لیکن گور کا جز نام کے ساتھ برقرار رہا ۔ اودھیش رانی کے شوہر وی کے باوا (آئی اے ایس) حیدرآبادی تو نہیں ہیں ، لیکن حیدرآبادی تہذیب کے دلدادہ ہیں ۔ انھوں نے نظام دکن پر بڑی عمدہ کتاب لکھی ہے اور آثار قدیمہ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اودھیش رانی نے بتایا کہ کایستھ برادری صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ چترگپت (موریا خاندان) کے بارہ بیٹے تھے ۔ ان بارہ بیٹوں کی اولادوں سے کایستھوں کی مختلف شاخیں نکلیں جیسے ماتھر ، سکسینہ ، آستھانہ ، سریواستوا ، کرن ، وششٹ ، بھردواج ، نِگم ، جیسوال وغیرہ ۔
قدیم حیدرآباد میں کایستھ برادری اردو ، فارسی وغیرہ سے خوب واقف تھی۔ ان کی تعلیم و تربیت اردو ماحول میں ہوتی تھی ۔ اودھیش کی نانی کے بھائی ست گرو پرشاد نامی گرامی وکیل تھے ۔ 1950ء کی دہائی میں عدالت میں اردو میں بحث پر پابندی لگ گئی تھی تو ست گرو پرشاد نے احتجاجاً عملی وکالت سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ البتہ وہ جونیئر وکلاء کو قانونی مشورے دیتے تھے اور باریک نکتے سمجھاتے تھے اور ان کے تجربے اور قانونی مہارت اتنی اعلی پائے کی تھی کہ ان سے مشورہ اور رہ نمائی حاصل کرنے والے انھیں منہ مانگی فیس دیتے تھے ۔ حیدرآباد کے قدیم ڈاکٹروں میں رگھونند راج سکسینہ کا شمار نہایت ماہر ڈاکٹروں میں ہوتا تھا ۔ رات کے وقت جب کوئی ڈاکٹر نہیں ملتا تھا رگھونند راج سکسینہ کی موٹر حیدرآباد کی گلی کوچوں میں پریشان حال مریضوں کی مسیحائی میں سرگرداں رہتی تھی ۔ ڈاکٹر سکسینہ اچھے شاعر بھی تھے اور الہام تخلص کرتے تھے ۔ مریضوں میں ان کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب ڈاکٹر سکسینہ کا انتقال ہوا تو ان سے محبت رکھنے والے مریضوں نے ڈاکٹر سکسینہ کے افراد خاندان سے درخواست کی کہ ان کی ارتھی کا جلوس مکہ مسجد کے سامنے سے لے جایا جائے ۔ حالانکہ پرانے پل کا شمشان گھاٹ ڈاکٹر صاحب کے گھر سے زیادہ قریب تھا اور مکہ مسجد کی طرف سے جانے پر پھیرا پڑتا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب کی ارتھی مکہ مسجد کے سامنے سے لے جائی گئی ۔ اسی طرح ان کے خاندان کے ایک اور بزرگ مہندر راج سکسینہ امیر خسرو کے کلام کے بڑے مداح تھے اور نہایت عمدگی سے خسرو کا کلام پڑھتے تھے۔
اودھیش رانی نے بتایا کہ قدیم زمانے میں کایستھوں میں مشترکہ خاندان کا رواج تھا ۔ گھروں میں ڈرائنگ روم کا رواج نہیں تھا ۔ چاندنی کا فرش ہوتا تھا ۔ گاؤ تکیے لگے ہوتے تھے ۔ تانبے یا چاندی کے پاندان ہوتے تھے ۔ ان پان دانوں میں چھالیہ چونا ، کتھا ، لونگ اور پان کے لوازمات کے ساتھ پیسے اور مغزیات بھی ہوتے تھے ۔ گھر آئے مہمانوں کو خالہ ، پھوپھی ، ماموں ، چاچا وغیرہ کہا جاتا تھا ، انکل آنٹی پکارنے کا بالکل رواج نہیں تھا ۔ جب اذان کی آواز آتی تو گھر کی خواتین سر پر پلو اوڑھ لیتی تھیں ۔ میت جاتی تو احتراماً راستہ چلنے والے چار قدم ساتھ ہولیتے تھے۔ راستے سے جانے والی سواری ہٹالی جاتی تھی ۔ مسجد کے سامنے سے جاتے ہوئے باجہ نہیں بجاتے تھے ۔باجہ روک دینے کے سرکاری احکام نہیں تھے ۔ لوگ از خود ایسا کرتے تھے ۔ دعوتوں میں کھانے کے آداب ہوتے تھے ۔ بچوں کو پہلے کھلادیا جاتا تھا اور ان کے ساتھ کوئی بزرگ دسترخوان پر بیٹھ جاتے تھے تاکہ کوئی بدتمیزی نہ ہو ۔ بچوں کو سکھایا جاتا تھا کہ جب تک بزرگ نہ شروع کریں وہ بھی نہ شروع کریں ۔ بچوں سے کہا جاتا تھا کہ اتنا ہی کھانا لیں جتنا کھاسکتے ہوں ۔ ضرورت سے زیادہ کھانا نہ لیں اور دسترخوان سے سب ایک ساتھ اٹھیں ۔
اودھیش رانی نے بتایا کہ ان کی دادی چھوت چھات کا خیال رکھتی تھیں ۔ پڑوس میں ایک خاتون ولی النساء رہا کرتی تھیں ۔ والد ان کو بہن کہتے تھے ۔ ولی پھوپھی دادی کے برتنوں کو چھوتی نہیں تھیں ۔ دادی انھیں بہت چاہتی تھیں۔ ان سے سیرت النبیؐ شوق اور احترام سے سنتی تھیں ۔ ولی پھوپھی ہنومان جی کے قصے بھی اسی انہماک سے سنتی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث جس میں بتایا گیا کہ ایک عورت آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی لیکن دو تین دنوں تک جب حضورؐ کو کانٹے نہیں دکھائی دئے تو آپ اس کی خیر خیریت دریافت کرنے کے لئے اس کے گھر چلے گئے۔ دادی کو نہایت دل نشین لگتی تھی۔ وہ اس حدیث کو سن کرکہتی تھیں ’دیکھو اخلاق اس کو کہتے ہیں‘ ۔ کایستھوں کے رقعے اردو میں چھپتے تھے ۔
تعلیم زیادہ تر سرکاری مدارس میں ہوتی تھی ۔ کارپوریٹ اسکول نہیں تھے ۔ مشنری اسکول تھے لیکن عام شہریوں کے بچے وہاں نہیں جاتے تھے ۔ ویویک وردھنی ویدک دھرم پرکاشکا اچھا مدرسہ تھا ۔ دھرم ونت اسکول یاقوت پورہ میں تھا جہاں زیادہ تر کایستھ بچے پڑھتے تھے ۔ راجہ دھرم کرن نے رفاہِ عام اسکول قائم کیا تھا ۔ اردو اور تلگو میڈیم کے ذریعے تعلیم ہوتی تھی ۔ انگریزی کا معیار اچھا ہوتا تھا ۔ انگریزی میں 35 فیصد نشانات حاصل کرنا کامیابی کے لئے لازمی تھا ۔ استاد کی بہت عزت ہوتی تھی ۔ غالب کے ایک شعر میں ’کاو کاو سخت جانی‘ کو اودھیش رانی نے کوّے کوّے سخت جانی پڑھ دیا تھا ۔ استاد اتنا خفا ہوئے کہ گھر کو شکایتی چٹھی بھیجی۔ اسی طرح تاریخ کے مضمون میں اودھیش نے لکھ دیا کہ مہاتما بدھ نے خنزیر کا گوشت کھالیا تھا جس سے ان کی موت واقع ہوگئی ۔ یہ بات خلاف واقعہ تھی ۔ بدھ بھکشو لوگوں کے گھروں سے کھانا جمع کرتے تھے ۔ کسی نے خنزیر کا ناقص گوشت دے دیا تھا جو مہاتما بدھ کے کھانے میں آگیا تھا ۔ اس بات پر اودھیش رانی کو بنچ پر کھڑا ہونا پڑا ۔ کایستھوں میں تعلیم نسواں کی بڑی اہمیت ہوتی تھی ۔ اودھیش رانی کی نانی بہت اچھی اردو لکھتی تھیں ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کھتری تھے ۔ ان کی خدمات کو شاہان دکن نے بہت عزت سے دیکھا ۔ وہ شاعر بھی تھے اور مصور بھی ۔ ان کی پینٹنگس معظم حسین صاحب کے پاس تھیں ۔ راجہ بنسی راجہ محبوب علی پاشاہ سے بہت قریب تھے ۔ اتنے قریب کہ کبھی بادشاہ وقت کی کسی غلطی کی طرف نشاندہی بھی کرتے تھے ۔ راجہ نرسنگ راج عالی بہت قابل آدمی تھے ۔ وہ ناظم ٹپہ تھے ۔ ان کا کتب خانہ بہت عمدہ تھا ۔ کئی نادر لغات ان کے پاس تھیں ۔ رائے محبوب نارائن نے نرسنگ راج عالی کے انتقال کے بعد ان کی کتابیں حاصل کرلیں اور شاہ علی بنڈہ میں بھارت گن وردھک سنستھا میں شامل کیں ۔ حیدرآباد کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ملک کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا ۔جامعہ عثمانیہ نے کئی نامور ہستیاں ملک کو دیں جنھوں نے عالمگیر شہرت حاصل کی ۔ آج پرانی قدریں ختم ہوگئی ہیں ۔ ہمارا معاشی نظام بدل چکا ہے ۔ مشترکہ خاندان کا تصور ختم ہوچکا ہے ۔ گھروں سے صحن اور آنگن ختم ہوگئے ۔ سایہ دار درخت گھروں میں دیکھنے کونہیں ملتے ۔ فلیٹ کی زندگی کا چلن ہے ۔ آلودگی بڑھ گئی ہے ۔ محنت اور بھائی چارہ آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے ۔ پہلے ایک متوسط گھرانے کی آمدنی کم ہوتی تھی ، لیکن قناعت اور برکت کااحساس ہوتا تھا ۔ آج پیسہ بہت ہے ، لیکن لالچ اور پیسہ کمانے کی ہوس اتنی بڑھ گئی ہے کہ دلی سکون اور سچی مسرت تلاش کرنا دشوار ہے ۔