ایف ایم سلیم
کریم نگر ضلع کے گوناراؤ پیٹا منڈل میں ایک موضع ناگارم ہے ۔ اس موضع کے زمیندار چینامائنینی سری نواس راؤ کے تین لڑکوں نے ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی میں اہم مقام حاصل کیا ۔ ماہر معاشیات اور حیدرآباد یونیورسٹی کے چانسلر سی ایچ ہنمنت راؤ سے اس کالم کے قارئین متعارف ہوچکے ہیں ۔ ان کے چھوٹے بھائی سی ایچ ودیا ساگر راؤ ان دنوں مہاراشٹرا کے گورنر ہیں ۔ سری نواس راؤ کے سب سے بڑے لڑکے یعنی سی ایچ راجیشور راؤ سینئر کمیونسٹ قائدین میں سے ایک ہیں ۔ 91 سال کی عمر میں بھی صحت مند ، چست اور تندرست ہیں ۔ لمبے عرصے تک آندھرا پردیش اسمبلی کے رکن رہے ہیں ۔ اپنی سیاسی زندگی کے آخری سال اگرچہ تلگودیشم پارٹی میں گزارے ہیں ، لیکن خیالات اور اصولوں سے وہ اب بھی کمیونسٹ ہی ہیں ۔ 1947 سے 1951 تک کمیونسٹوں کی تلنگانہ مسلح تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا ۔ مخدوم اور راج بہادر گوڑ کے ساتھ روپوشی کی زندگی گذاری ۔ ان کے لڑکے ڈاکٹر سی ایچ رمیش ان دنوں ٹی آر ایس کے ایم ایل اے ہیں ۔ سی ایچ راجیشور راؤنے اپنی زندگی کے تجربات کو ایک قلم کار کے روپ میں ’’کوئسٹ فار ٹروتھ‘‘ نامی کتاب میں یکجا کیا ہے ۔ اس کالم میں ان سے گفتگو کا خلاصہ پیش ہے ۔
اردو اور مسلمان!
میری پیدائش 31 اگست 1923 ء کو ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم بھی گاؤں میں ہی ہوئی ۔ ماحول پوری طرح سے اردو کا تھا ۔ مسلم حکومت ہونے کی وجہ سے تہذیب پر مسلمانوں کا اثر تھا ۔ حالانکہ دیہات اور اضلاع میں مسلمانوں کی تعداد دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں تھی ۔ بعد میں جو جاگیردار آئے وہ بھی شہروں میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ عوام میں جو مسلمان تھے ان میں کاشت کار زیادہ تھے ۔ میں چوتھی جماعت میں کریم نگر ضلع کے فوقانیہ مدرسے میں داخل ہوا ۔ یہاں کے ٹیچر بھی زیادہ تر مسلمان تھے ۔ مسلمان بچوں کے لئے دینیات اور غیر مسلم بچوں کے لئے اخلاقیات کے مضامین لازمی ہوتے تھے ۔ میں کبھی کبھی اجازت لے کر دینیات کی جماعت میں بھی جا بیٹھتا تھا۔ مجھے محسوس ہوتا کہ دونوں مضامین میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔ دینیات میں راست طور پر اسلامی تعلیمات ہوتیں جبکہ اخلاقیات میں ہندو مذہبی کتابوںکا بھی ذکر ہوتا ۔ ان دنوں آریہ سماج کے لیڈر پنڈت نریندر کریم نگر آئے تھے ۔ ہم ان کے جلسوں میں بھی جاتے تھے ۔ ایک دن میں ان سے الجھ بیٹھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیمات میں زیادہ فرق نہیں ہے ۔ وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ انکا ماننا تھا کہ مسلمان بڑے خطرناک لوگ ہوتے ہیں ۔
انہی دنوں ایک واقعہ پیش آیا۔ اردو زبان کے امتحان میں میں اول آیا تھا۔ اس بات کااعلان جماعت میں کیا گیا ۔ اور اس کے بعد جب ہیڈ ماسٹر صاحب سے میری ملاقات کرائی گئی تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ہندو لڑکا اردو میں اول آیا ہے ۔ اردو کے ٹیچر نے کہا کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے ۔ اردو لکھتا ہے ، پڑھتا ہے ، بات چیت اردو میں کرتا ہے تو امتحان میں اول بھی آسکتا ہے ۔ دونوں اساتذہ میں جب یہ گفتگو ہورہی تھی تو میں سامنے ہی تھا۔ میں سوچنے لگا کہ کیا اردو صرف مسلمانوںکی زبان ہے ؟ اردو میں میرے اول آنے پر حیرت کیوں ؟ میرا اول آنا غلط ہے کیا ؟ حالانکہ بعد کی زندگی میں ایسے واقعات بہت کم گزرے لیکن اس واقعہ کو میں کبھی بھول نہیں سکا ۔
اس زمانے میں لوگ زمینداری اور سرمایہ داروں کی مخالفت کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے ۔ میرے ساتھ ایسا نہیں تھا ۔ ہمارے گھر میں زمینداری تھی اور میں مزدور یا مشینوں کے ساتھ کام کرنے والا بھی نہیں تھا ۔ دراصل مارکس کے اصولوں سے متاثر ہو کر میں نے پارٹی کاکام کرنا شروع کیا ۔ دنیا کے سبھی مذاہب مجھے ایک جیسے لگتے ہیں ۔ اس خیال نے بھی شاید کمیونسٹ بنے رہنے میں میری مدد کی ۔ میں تقریباً 13 سال کا تھا ۔ 1936 میں سِرسلا میں آندھرا مہاسبھا کی چوتھی کانفرنس تھی ۔ ماڈا پاٹی ہنمنت راؤ اس کانفرنس کی صدارت کررہے تھے ۔ کریم نگر ضلع کی مشہور ہستیاں اس میں شرکت کررہی تھیں ۔ میں نے ایک کارکن کے طور پر اس کے لئے کام کیا اور شاید وہی کانفرنس سیاست میں میرے داخل ہونے کا باعث بنی ۔
ارونا آصف علی کا خط
ان دنوں میں دسویں جماعت میں تھا ۔ یاسین علوی ہمارے سائنس کے ٹیچر تھے ۔ وہ نیشنلسٹ تھے ۔ جب مہاتما گاندھی نے quit india movement (بھارت چھوڑو تحریک) کا نعرہ دیا تو انہوں نے بھی طلبا کو اس میں حصہ لینے کی تحریک دی ۔ اپنی جماعت کے ٹیچر کی تحریک اور باہر کے سیاسی ماحول سے متاثر ہو کر ہم لوگوں نے کریم نگر میں دوسرے دن ہی یعنی 9 اگست کو ہی بڑے پیمانے پر مظاہروں میں حصہ لیا ۔ کریم نگر ہائی اسکول کے سبھی طلباء نے فیصلہ کیا تھا کہ سب مل کر ایک جگہ بھوک ہڑتال کریں گے ۔ تاکہ آزادی کی جدو جہد کرتے ہوئے قومی سطح پر جو لیڈر جیلوں میں بند ہیں ، ان کی اخلاقی تائید کی جاسکے ۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ شام تک یہ ہڑتال جاری رہے گی ۔ اس میں طلباء کے ساتھ ساتھ آریہ سماج اور آندھرا مہاسبھا کے ارکان بھی شامل تھے ۔ شہر کے کئی بزرگوں نے ہمارے ستیہ گرہ کیمپ کا دورہ کیا ۔ کچھ دن بعد ناگپور سے میرے نام ایک خط آیا ۔ میری حیرت کی انتہا نہ تھی ۔ یہ خط آنجہانی ارونا آصف علی کا تھا ۔ انگریزوں کے خلاف بھارت چھوڑو تحریک میں حصہ لینے پر انہوں نے میرے نام لکھے خط میں کہا تھا کہ آزادی کی جد و جہد میں نوجوانوں اور طلبہ کو حصہ لینے کے لئے یہی صحیح وقت ہے ۔ یہ خط میں نے ضلع کے مشہور لیڈر بدم یلا ریڈی کو دکھایا ۔ انہوں نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ طلباء کی یونین میں سرگرمی سے حصہ لینا چاہئے ۔ میرے ایک رشتہ دار پولگم پلی نے ان سے کہا کہ لڑکے کو کم عمری میں سیاست میں گھسیٹ رہے ہو ۔ لیکن میں سرگرم رہا ۔ ہر جمعہ کو تعطیل کے روز ایک جلسہ ہوتا اور اس میں ملک بھر کے سیاسی حالات کی رپورٹ پیش کرنی پڑتی تھی ۔ پارٹی کی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لئے آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری جواد رضوی سے خطوط کے ذریعہ رہنمائی حاصل ہوا کرتی تھی ۔ اسی دوران میں نے سی پی آئی کی رکنیت حاصل کرلی تھی ۔
اس سے پہلے کا ایک اور واقعہ یاد آتا ہے ۔ ایک دن سفید دھوتی اور کرتے میں ملبوس ایک صاحب کریم نگر آئے ۔ پتہ چلا کہ وہ کونڈا وینکٹ اپّیا ہیں ۔ کریم نگر کی ایک عدالت میں انہیں گواہی کے لئے بلایا گیا تھا ۔ پولکم پلی ایڈوکیٹ نے ان کا کام کچھ دیر میں ہی پورا کردیا ۔ جب آندھرا مہاسبھا کے لیڈروں کو پتہ چلا کہ وینکٹ اپّیا آئے ہیں تو انہوں نے ان کی اس آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دن ایک جلسہ منعقد کرنے کا پروگرام بنایا ۔ لیکن اس کے لئے پولیس کی اجازت کی ضرورت تھی ۔ جب پولیس سے ربط کیا گیا تو پولیس نے بتایا کہ اس طرح کے جلسے کے لئے ایک ہفتہ پہلے درخواست دینا ضروری ہے ۔ سی آئی ڈی عہدیدار بندے کریم صاحب نے اس کے لئے ایک ترکیب نکالی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر طلبہ کی جانب سے درخواست دی جائے تو اجازت فوری مل جائے گی اور پھر میں نے اپنی ذمہ داری سے درخواست لکھ کر اس جلسے کی اجازت لی ۔ ان واقعات نے کریم نگر کی سیاسی تحریکوں میں میری شناخت قائم کردی اور میرے حیدرآباد پہنچنے سے قبل ہی میرے نام سے یہاں کے لوگ واقف ہوچکے تھے ۔
عثمانیہ یونیورسٹی اور سی ہاسٹل
1943 میں دسویں جماعت کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد میں نے حیدرآباد کا رخ کیا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے سی ہاسٹل کے روم نمبر 22 میں جگہ مل گئی ۔ سی ہاسٹل حیدرآباد میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا ، جہاںجے گوتم راؤ ، مکندلال مشرا ، الگی ریڈی ، کشن ریڈی ، کے نرسنگ راؤ جیسے لیڈر رہتے تھے ۔ الگ الگ اصولوں کو ماننے والے افراد یونیورسٹی کے پرامن ماحول میں رہا کرتے تھے ۔ اصولوںپر بحث بھی ہوتی لیکن کبھی جھگڑا یا تشدد کا ماحول پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ ان دنوں عثمانیہ یونیورسٹی میں رہنے والے ہندو طلباء بڑی تعداد میں ہندوستان کی قومی تحریک کی جانب راغب ہوئے ۔ جبکہ زیادہ تر مسلم طلبہ نظام کی حمایت کرتے تھے ۔ اس کے باوجود طلباء میں فرقہ وارانہ طور پر کھل کر تفریق نہیں آئی تھی ۔ اس کی ایک خاص وجہ بھی تھی ۔ وہاں ایسے مسلم طلبہ کی تعداد بھی کم نہ تھی جو کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے اور وہ قومی مزاج رکھتے تھے ۔ یونیورسٹی میں سیکولر اور امن پسند ماحول بنانے میں ان طلباء کا صحت مند رویہ بہت مددگار ثابت ہوا ۔ کئی بار فرقہ وارانہ ذہن رکھنے والی طاقتوں نے باہر سے یونیورسٹی میں داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن یونیورسٹی کے اندر رہنے والے دونوں فرقوں کے طلباء نے مشترکہ طور پر ان کوششوں کو ناکام بنادیا ۔ یونیورسٹی کے طلبہ کی یونین میں سبھی طبقات کے طلبہ شامل تھے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے ان پر کئی پابندیاں عائد کررکھی تھیں ، تاکہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا نہ ہو ۔ اس کے باوجود یونیورسٹی میں طلبہ انتخابات ہوئے اور میں سائنس کالج کی نمائندگی کے لئے منتخب ہوا ۔ ہم لوگ چاہتے تھے کہ انتخابات جمہوری طریقے پر ہوں ، لیکن مسلم طلبہ اس کے لئے تیار نہیں ہوئے ، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر 50 فیصد نمائندگی دی جائے ۔ علی یاور جنگ بہادر اس وقت وائس چانسلر تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی میں غیر جمہوری طور طریقوں کے موضوع پر وائس چانسلر سے مل کر بحث بھی کی ، لیکن اس موضوع پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔ جب طلبہ کی سیاسی تحریک تیز ہوئی تو جواد رضوی ، اوم پرکاش جیسے لیڈروں پر عثمانیہ یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی لگادی گئی ۔
وندے ماترم تحریک اور لفظ ’عثمانیہ
کئی ساری پابندیوں کے باوجود یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے باہر طلبہ کی تحریکیں جاری رہیں ۔ نظام حکومت کے غیر جمہوری رویہ کے خلاف بھی آوازیں اٹھتی رہیں ۔ بڑی تعداد میں طلبہ لیڈر بن کے ابھرے ۔ ڈاکٹر پرانجپے ، پی وینکٹ راما راؤ ، رفیع احمد ، باسط اللہ بیگ ، وٹھل راؤ کلکرنی ، گوپال راؤ ، گنگا دھر چٹنیس ، سی ایچ ہنمنت راؤ ، بورگولا نرسنگ راؤ ، جیسے کئی لوگ ابھرے اور انہوں نے بعد کی سیاسی اور سماجی زندگی میں اہم مقام حاصل کیا ۔
وندے ماترم جیسی تحریک کو بھی عثمانیہ یونیورسٹی سے تقویت حاصل ہوئی ۔ جب عثمانیہ یونیورسٹی نے طلبہ کیلئے کالی شیروانی کو یونیفارم بنایا تو ہندو طلبہ نے اس کی مخالفت کی اور جماعتوں میں وندے ماترم گیت گا کر نعرے لگائے ۔ یونیورسٹی نے سخت قدم اٹھاتے ہوئے طلبہ اور ان کے قائدین کو نوٹسیں جاری کیں ۔ بڑی تعداد میں طلبہ نے پونے ، ناگپور ، علی گڑھ اور دوسرے کالجوں میں شریک ہو کر اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ بعد میں وہ کانگریس ، کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹی میں بڑے عہدوں پر پہنچے ۔ حیدرآباد اور اضلاع میں لوگوں نے حکومت مخالف تحریکوں میں مختلف حربے استعمال کئے ۔ مجھے یاد ہے کہ کریم نگر میں آندھرا بھاشا نیلایم کے قیام کی اجازت نہیں ملی تو مقامی لوگوں نے ’عثمانیہ‘ نام شروع میں لگا کر عثمانیہ آندھرا بھاشا نیلایم کا قیام کیا اور اجازت بھی مل گئی ، کیوں کہ عثمانیہ نام جوڑنے سے حکومت کو اطمینان ہوگیا تھا ۔ اس کے کتب خانے سے وندے ماترم تحریک چلائی گئی ۔ یہاں پر گولکنڈہ ڈیلی ، آندھرا پتریکا ڈیلی اور ہفتہ وار ’’سوتنترا‘‘ جیسے اخبار اور رسالے آتے جن میں آزادی کی تحریکوں پر اچھا خاصا مواد ہوتا تھا ۔
اساتذہ چھپ کر گاندھی جی سے ملتے تھے
یونیورسٹی میں رہنے کے دوران میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتا تھا تو کئی اساتذہ کی حمایت حاصل تھی ۔ زوالوجی ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر جی کے داس میرے کام سے کافی متاثر تھے ۔ دو دیگر پروفیسر تھے جو قومی تحریکوں کے حمایتی تھے ۔ فزکس کے راؤڈا ستیہ نارائن (جو بعد میں وائس چانسلر ہوئے) اور کیمسٹری کے الیندولہ سیتاراما راؤ بہت اچھے دوست بھی تھے اور گاندھی جی کے خیالات سے متاثر تھے ، لیکن عثمانیہ یونیورسٹی میں رہتے ہوئے کھل کراپنی آواز نہیں اٹھاسکتے تھے ۔ ایک بار کا دلچسپ واقعہ ہے ۔ دونوں پروفیسروں نے واردھا جا کر گاندھی جی سے ملنے کا پروگرام بنایا ، لیکن وہ چاہتے تھے کہ اس کی اطلاع یونیورسٹی انتظامیہ کو نہ ہو ۔ وہ رات کی ٹرین سے نکلے اور صبح وہاں پہنچے ۔ وہ چاہتے تھے کہ وہاں سے لوٹتے ہوئے بھی کسی کی نظر ان پر نہ پڑے ۔ شام کی ٹرین سے لوٹنے کے لئے جب وہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو انھیں یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وائس چانسلر اعظم صاحب اسٹیشن پر ٹہل رہے تھے ۔ انہوں نے دونوں سے پوچھا کہ وہ واردھا کیوں آئے ہیں ؟ یہی سوال وائس چانسلر سے بھی کیا گیا ، تینوں کھلکھلاکر ہنس پڑے اور راستے بھر گاندھی جی سے ملاقات کے دوران ہوئی بات چیت پر گفتگو ہوتی رہی ۔
گیتا پر اردو میں مضمون
1944 میں تین اہم واقعات میری زندگی میں پیش آئے ۔ جب میں 21 سال کا تھا تو میری شادی ہوگئی ۔ ان دنوں میں سیاسی تحریکوں میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لے رہا تھا ۔ اس تعلق سے میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ میں زیادہ وقت انہیں نہیں دے پاؤں گا۔ انہوں نے بخوشی ہر حال میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ۔ انہی دنوں عثمانیہ یونیورسٹی میں تحریری مقابلے ہوئے ۔ کے وی نرسنگ راؤ اور میں نے گیتا کو موضوع بنایا تھا ۔ انہوں نے انگریزی میں اور میں نے اردو میں مضمون لکھا ۔ نرسنگ راؤ نے اس کتاب کوالہامی کتاب قرار دیا جبکہ میں نے اس کو مادیت پسند فلسفے پر مشتمل سنسکرت کا قیمتی ادب قرار دیا ۔ سروجنی نائیڈو جج کے طورپر حصہ لے رہی تھیں اور مخدوم محی الدین مہمان خصوصی تھے ۔ دونوں مضامین کو انعام اول کا مستحق قرار دیا گیا ۔ سروجنی نائیڈو نے کہا ’’میں تمہارے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتی ، لیکن تم نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے دلائل جمع کرنے میں کافی محنت کی ہے ۔ ایک دن تم بڑے کمیونسٹ لیڈر بنوگے‘‘۔ یہ سن کر مخدوم مسکرائے اور کہا ’’یہ کمیونسٹ لیڈر بن گیا ہے‘‘ ۔ اسی سال مشہور سائنس داں سر سی وی رمن کا لکچر عثمانیہ یونیورسٹی میں رکھا گیا تھا۔ فزکس پر ان کا لکچر سننے کے لئے بڑی تعداد میں لوگ حاضر تھے ۔ لیکن انہوں نے سیاست اور سیاستدانوں کے تئیں نفرت کا اظہار کیا ۔ ان کی تقریر کے بعد طلبہ کو سوالات کا موقع دیا گیا ۔ میں نے سیاست پر سی وی رمن کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا ۔ اس پر جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میرے بچے پیشے سے میں سیاستداں نہیں ہوں ۔ میں سیاستدانوںکے بیانات سے مایوس ہوں ۔ گاندھی جی آج کچھ کہتے ہیں تو دوسرے دن پنڈت جی اس موضوع پر اپنا مختلف خیال ظاہر کرتے ہیں اور راجا جی کچھ الگ طرح سمجھاتے ہیں ۔ اس وقت سارے ملک کی ایک آواز ہونی چاہئے ، جبکہ یہ سیاستداں اپنے بیانات سے ملک کے لئے مسائل کھڑے کررہے ہیں ۔ بھلا ان پر کون یقین کرے‘‘ ۔
تلنگانہ کی مسلح تحریک
17 اگست 1947 ء کو ہندوستان آزاد ہونے کے بعد نظام حیدرآباد نے آزاد ریاست کے طور پر رہنے کا فیصلہ لیا تھا ، لیکن ریاست میں آزادی کی تحریکیں چلانے والی آندھرا مہا سبھا ، کانگریس ، آریہ سماج اور دیگر تنظیمیں چاہتی تھیں کہ تین زبانیں (تلگو ، مراٹھی اور کنڑا) بولنے والے علاقے پہلے ہی انڈین یونین میں شامل ہوگئے ہیں تو پھر حیدرآباد ریاست کو بھی ہندوستان میں شامل ہوجاناچاہئے ۔ مخالفت بڑھتی گئی ۔ دوسری جانب قاسم رضوی کی سربراہی میں رضاکار تحریک کا اثر بھی بڑھتا گیا ۔ اسی سال کمیونسٹ پارٹی نے زمینداروں اور دیشمکھوں کے ظلم کے خلاف مسلح جد وجہد شروع کی ۔ کئی مقامات پر رضاکاروں اور کمیونسٹوں میں تشدد آمیز واقعات ہوئے ۔ دونوں طرف کے کئی لوگ مارے گئے ۔ میں مخدوم اور دیگر قائدین کے ساتھ روپوش رہ کر پارٹی کا کام کرتا رہا ۔ یہ سلسلہ پولیس ایکشن کے بعد بھی جاری رہا ۔