حکومت ۔ اپوزیشن ٹکراؤ

پارلیمنٹ کے مانسون سشن کا پہلا ہفتہ ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا ۔ اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کے مابین مختلف اسکامس اور تنازعات پر تعطل اور تصادم کی صورتحال ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کا اصرار ہے کہ للت مودی تنازعہ میں وزیر خارجہ سشما سوراج اور چیف منسٹر راجستھان وسندرا راجے سندھیا کے علاوہ ویاپم اسکام میںچیف منسٹر مدھیہ پردیش شیو راج سنگھ چوہان کو برطرف کردیا جائے ۔ کانگریس پارٹی نے یہ واضح کردیا ہے کہ جب تک حکومت ان تمام سے استعفے طلب نہیں کرلیتی اس وقت تک ایوان کی کارروائی کو چلنے کا موقع نہیں دیا جائیگا ۔ اپوزیشن کے سخت گیر موقف کو دیکھتے ہوئے حالانکہ حکومت فکرمند ضرور ہے لیکن اس نے بھی اپنی ساکھ بچانے کیلئے سخت گیر موقف اختیار کرلیا ہے اور اس کا بھی کہنا ہے کہ اس کے وزرا نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے اس لئے ان سے استعفوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حکومت اور اپوزیشن کے ٹکراؤ کے نتیجہ میں پارلیمنٹ کا پہلا ہفتہ تعطل کی نذر ہوگیا اور صرف ہنگامہ آرائی و شور شرابہ کی وجہ سے کوئی کام کاج نہیں ہوسکا ۔ کانگریس کی زیر قیادت اپوزیشن جماعتیں ان مسائل پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کا تہئیہ کرچکی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو بھی ایوان کے کام کاج کی کوئی فکر نہیںہے اور وہ ان کے مطالبات پر غور کرنے تک کو تیار نہیں ہے ۔ اس سارے ہنگامے اور گڑبڑ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور وہ حساس سمجھے جانے والے ان مسائل پر کسی طرح کی لب کشائی کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں کچھ مخصوص گوشوں کی جانب سے لب کشائی کی اجازت ہی نہیں دی جا رہی ہے ۔ حکومت کے مختلف وزرا اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ سمیت دوسرے کئی قائدین داغدار قائدین کے دفاع میں بیانات دے رہے ہیں لیکن اگر کسی کی زبان نہیں کھل رہی ہے تو وہ نریندر مودی کی زبان ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارلیمنٹ کا وقت ضائع کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے لیکن اس الزام سے قطع نظر کانگریس اپنے احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ حکومت کو گھیرنے کا یہ موقع ضائع کرنا نہیں چاہتی ۔ اس کو یہ خیال ہے کہ ملک کے عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے یہ ایک بہترین موقع ہے اور اسے اس سے فائدہ اٹھانا ہے ۔

بی جے پی کیلئے ایسا لگتا ہے کہ وقت نے ایک چکر مکمل کرلیا ہے ۔ جس وقت یو پی اے حکومت میں منموہن سنگھ وزیر اعظم تھے ان کے دور حکومت کے آخری پارلیمانی سشن کا بیشتر وقت بی جے پی کے احتجاج اور ہنگاموں و شور شرابہ کی نذر ہوگیا تھا ۔ اب بی جے پی کو پارلیمنٹ کا وقت ضائع ہونے کا احساس ہو رہا ہے کیونکہ اب وہ شور شرابہ نہیں کرسکتی ۔ اسے پارلیمنٹ میں جوابدہ ہونا پڑ رہا ہے ۔ وہ داغدار وزرا کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں مباحث کا عذر پیش کر رہی ہے اور یہ ایک ایسا بہانہ ہے جسے اپوزیشن جماعتیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں جو تعطل پیدا ہوگیا ہے اس سے عوامی مسائل کا تو نقصان ہو ہی رہا ہے لیکن کانگریس چاہتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں اس کی سیاسی ساکھ بحال ہوجائے ۔ کانگریس کو اپنے لئے فی الحال اس سے اچھا کوئی موقع دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ کانگریس کی حکمت عملی کے اعتبار سے پارلیمنٹ کی کارروائی کو روکنا بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن یہ لڑائی صرف پارلیمنٹ تک محدود رکھنے کے نتیجہ میں کانگریس کو زیادہ کچھ حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اسے یہ لڑائی پارلیمنٹ کے باہر بھی منتقل کرنی ہوگی ۔ ملک کے عوام میں اور خاص طور پر اپنے کیڈر میں شعور بیدار کرنا ہوگا اسی وقت وہ حکومت کے ساتھ ٹکراؤ اور تصادم کا حقیقی معنوں میں کوئی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے گی ۔ ایسے وقت میں جبکہ دوسری اپوزیشن جماعتیں بھی کانگریس کے ساتھ ہیں اور حکومت کو گھیرنا چاہتی ہیں کانگریس کی قیادت کو ایک موثر اور جامع حکمت عملی بناکر اس پر عمل آوری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درکار نتائج اخذ کئے جاسکیں۔

کانگریس اگر اپنے احتجاج کے نتیجہ میں اپنا کوئی بھی مطالبہ منوانے میںکامیاب ہوجاتی ہے اور کسی ایک بھی وزیر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو یہ اس کیلئے ایک ایسی اخلاقی کامیابی ہوسکتی ہے جس کی بنیاد پر وہ سارے ملک کے عوام میں ایک بار پھر اپنا امیج بہتر بنانے کی کوششیں شروع کرسکتی ہے ۔ فی الحال میڈیا میں کانگریس کو قدرے شاباشی مل رہی ہے لیکن یہ قبل از وقت شاباشی اس کیلئے افیون کی گولی بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔ اسے موجودہ صورتحال پر اکتفا کرنے کی بجائے حکومت کے ساتھ جو ٹکراؤ چل رہا ہے اس کو حقیقی معنوں میں ایک سیاسی لڑائی کی شکل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے عوام میں بھی حکومت کی اصل شبیہہ کو پیش کرنے میں مدد مل سکے اور آج جو سوالات اپوزیشن جماعتیں حکومت سے پوچھ رہی ہیں کل وہی سوال ملک کی ہر ریاست اور ہر شہر میں خود عوام کرسکیں۔ جب تک یہ صورتحال پیدا نہںے ہوگی اس وقت تک اپوزیشن کے حکومت سے ٹکراؤ کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔