حکومت کے وعدے ہی وعدے عوام کی آہ ، جماعت کی واہ

 

محمد نعیم وجاہت
ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے گزشتہ تین برسوں سے صرف وعدے اور باتیں کئے جارہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ عوام کو وعدوں کے کھلونے دے کر بہلایا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے وعدوں سے سارا ہندوستان پریشان ہے، حد تو یہ ہوگئی کہ اب بیویاں بھی اپنے شوہروں سے کہنے لگی ہیں کہ وعدے کریں مگر مودی کی طرح نہ کریں۔ یہی حال ریاست تلنگانہ کا بھی ہے جہاں ٹی آر ایس حکومت بلند بانگ دعوے اور ہر روز بے شمار وعدے کرتی ہے لیکن اکثر وعدے بالی ووڈ فلم کے اس نغمہ ’’ وعدہ تیرا وعدہ، جھوٹا ہے تیرا وعدہ ‘‘ کی طرح ثابت ہوتے ہیں۔ اگر کے سی آر کے وعدوں کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وعدے تو بڑی جرأت اور بے باکی سے کردیتے ہیں تاہم اُن پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ حال ہی میں اقلیتی اُمور سے متعلق چیف منسٹر نے ایک اجلاس طلب کیا جس میں بہت بڑی بڑی باتیں کی گئیں لیکن اُن باتوں اور وعدوں کے وفا ہونے کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آتے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ اُن سے وعدے ڈھیر سارے کئے جاتے ہیں لیکن تکمیل صرف چند ایک ہی کی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اقتدار حاصل کرنے سے قبل کے سی آر نے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی شعبہ میں 12فیصد تحفظات برسر اقتدار آنے کے اندرون 4 ماہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن چار ماہ تو کُجا 41 ماہ کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود 12فیصد مسلم تحفظات کا معاملہ اچانک سڑک پر فیل ہوجانے والی گاڑی کے مانند ایک ہی جگہ رُکا ہوا ہے۔ اپنی جانب سے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے بجائے چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر بی جے پی کی مرکزی حکومت سے اُمید لگائے ہوئے ہیں جو ابتداء سے ہی مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کی مخالف ہے۔ 3 نومبر کو ہی بی جے پی نے اسمبلی میں 4 فیصد مسلم تحفظات کو منسوخ کرنے کی تحریک التواء نوٹس پیش کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر بار بار12فیصد مسلم تحفظات کے معاملے میں وزیراعظم سے مثبت ردعمل حاصل ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تسلی دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ کو یاد دلادوں کہ سال برائے 2017-18 کے مجموعی بجٹ میں اقلیتوں کیلئے 1200 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں جو دیکھنے، لکھنے اور سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بجٹ منظور ہوکر 6 ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ابھی تک صرف 350 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ہیں۔ چلو مان لیا جائے کہ چیف منسٹر 12 فیصد مسلم تحفظات کیلئے مرکز سے تعاون نہ ملنے کا بہانہ کرسکتے ہیں مگر ریاستی بجٹ تو ان کے کنٹرول میں ہے پھر ایسی کونسی مجبوری ہے جو اس کو خرچ کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے، کیوں منظورہ بجٹ خرچ نہیں کیا جارہا ہے۔ نہ حکومت اس کی وضاحت کرتی ہے اور نہ ہی حکمران جماعت کے اقلیتی قائدین اس کی وجوہات دریافت کرنے کی جرأت کرتے۔ جبکہ حکومت کی حلیف جماعت صرف واہ … واہ … پر اکتفاء کررہی ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے تو اس کا جواب دینے کے بجائے انہیں ان کے دور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے خاموش کرادیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں، بینکوں سے قرض، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے فیس ری ایمبرسمنٹ اور اسکالر شپس اور آئی ٹی کی تربیت حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ؟ افسوس تو اس بات کا ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے پیش کردہ 4 بجٹس میں اقلیتی بجٹ کسی بھی سال مکمل جاری نہیں کیا گیا ۔ تقریباً 60 فیصد بجٹ سرکاری خزانے میںواپس لوٹ گیا۔ آئندہ سال کیاری فارورڈ کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا مگر ابھی تک نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی جانب سے 2 سال قبل بینکوں سے مربوط سبسیڈی قرض فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے 1.66 لاکھ درخواستیں قبول کی گئیں، تاریخ میں بار بار توسیع دیتے ہوئے درخواستیں وصول کی گئیں۔ شہر اور اضلاع کے غریب مسلمانوں نے دوڑ دھوپ کرتے ہوئے 1000 تا 2000 روپئے خرچ کرکے درخواستیں جمع کروائے مگر صرف 20فیصد درخواستوں کی یکسوئی کی گئی مابقی تمام درخواستوں کو برخواست کرتے ہوئے درخواست گذار مسلمانوں کو پھر ایک مرتبہ مایوس کیا گیا۔ چیف منسٹر کے سی آر نے پرگتی بھون میں اپنی حلیف جماعت کے برادران کے ساتھ اجلاس طلب کیا اور بینکوں کے تعاون کے بغیر حکومت اقلیتوں کو ایک تا ڈھائی لاکھ سبسیڈی پر قرض دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ فیصلہ آئندہ انتخابات کی تیاری ہے یا اقلیتوں کے تئیں حکومت کی سنجیدگی کا اظہار ہے، اس بات کا پتہ تو آنے والے دنوں میں چلے گا۔ حکومت کی باوقار ڈبل بیڈروم مکانات کی اسکیم میں پہلے سے شہری علاقوں میں مسلمانوں کو 12 فیصد کوٹہ مختص کردیا گیا ہے، اس کے لئے حکومت نے باضابطہ 26 جنوری 2015 کو جی او ایم ایس نمبر 12 جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے، مگر چیف منسٹر نے ابھی تک جن علاقوں میں ڈبل بیڈروم مکانات تعمیر کئے گئے ہیں ان میں کتنے فیصد مسلمانوں کو مکانات دیئے گئے ہیں اس کی وضاحت نہیں کی۔ مگر شہری علاقوں میں اقلیتوں کو 10 فیصد مکانات مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پہلے جو جی او جاری کیا گیا تھا اس میں 2 فیصد مکانات گھٹادیئے گئے۔ گزشتہ تین برسوں سے لاکھوں اقلیتی طلبہ کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، فیس ری ایمبرسمنٹ اور اسکالر شپس کی عدم اجرائی سے طلبہ پریشان ہیں۔

پروفیشنل کورسیس کی تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ بے یارومددگار ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے فیس ری ایمبرسمنٹ کی عدم اجرائی سے کالج انتظامیہ انہیں کورس کی تکمیل کے باوجود سرٹیفکیٹس حوالے کرنے سے گریز کررہے ہیں جس کے سبب طلبہ کو ملازمت کے مواقعوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔6 ماہ قبل اسمبلی بجٹ سیشن کے دوران چیف منسٹر نے 10 ایکر اراضی پر اسلامک کلچر کنونشن سنٹر قائم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک اس کا سنگ بنیاد بھی نہیں رکھا گیا۔ برادران کے ساتھ طلب کردہ اجلاس میں کے سی آر نے تین ہفتوں میں سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ دو ہفتے گذر چکے ہیں۔ 6 ماہ قبل ہی یتیم خانہ انیس الغرباء کیلئے ہمہ منزلہ عمارت تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، چیف منسٹر نے تین ماہ قبل اس کا سنگ بنیاد رکھا مگر تعمیری کاموں کا ابھی تک آغاز نہیں ہوا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ تعمیرات کیلئے حکومت نے ورک آرڈر جاری نہیں کیا جس کی وجہ سے کنٹراکٹر نے نہ تخمینہ تیار کیا اور نہ ہی ٹنڈر طلب کیا گیا۔ ضلع نلگنڈہ کے سروے نمبر 146، 145 ، 141 ،140 پر واقع 42 ایکر وقف اراضی جس کی مالیت 10کروڑ روپئے ہے قبضہ کرتے ہوئے رجسٹریشن کرالیا گیا ہے جس کا وقف کو علم بھی نہیں ہے جبکہ مقامی تحصیلدار نے اس کو وقف اراضی قرار دیتے ہوئے رجسٹریشن منسوخ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ وقف بورڈ کے صدرنشین سرگرم ہیں لیکن بورڈ کی کارکردگی صفر ہے۔ درگاہوں کے انتظامات کی لیز میں بھی بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی ہیں۔ اوپن آکشن کے بجائے نامنیشن کے تحت لیز پر دیئے گئے ہیں۔ یہ مسئلہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ ریاست میں بڑے پیمانے پر اراضی سروے ہورہا ہے۔ ایک ماہ بعد وقف بورڈ نیند سے بیدار ہوا ہے جبکہ کافی دیر ہوچکی ہے۔ اقلیتی اسکیمات پر عمل آوری میں سب سے بڑی رکاوٹ بجٹ کی عدم اجرائی ہے۔2014-15 سے جاریہ سال تک اقلیتوں کیلئے مختص کردہ بجٹ میں صرف 30 تا45 فیصد کی اجرائی ہوئی ہے۔ جاریہ مالیاتی سال 1240 کروڑ اقلیتی بجٹ منظور کیا گیا ہے۔ تاحال 350 کروڑ روپئے جاری ہوئے ہیں۔ جاریہ سال فیس ری ایمبرسمنٹ کیلئے 180 کروڑ روپئے مختص کئے گئے لیکن صرف 54کروڑ روپئے ہی جاری ہوئے جبکہ سال 2014-15 فیس ری ایمبرسمنٹ کیلئے 400 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تاہم 150 کروڑ روپئے ہی جاری کئے گئے تھے۔ سال 2015-16 میں 425 کروڑ روپئے مختص کئے گئے صرف 164 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ 2016-17 میں فیس ری ایمبرسمنٹ کی رقم کو گھٹاکر 238 کروڑ روپئے کیا گیا اور 219 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ پوسٹ میٹرک اسکالر شپس اور اوورسیز اسکالر شپس اسکیم بھی اسی طرح کی صورتحال کا شکار ہے۔ حیدرآباد میں سڑکوں کی تعمیر و توسیع کیلئے کئی وقف اراضیات حاصل کی گئی ہیں مگر جی ایچ ایم سی کی جانب سے 400کروڑ روپئے قیمت ابھی تک وقف بورڈ کو ادا نہیں کی گئی اس سلسلہ میں چیف منسٹر کے سی آر یا وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر نے کوئی مداخلت نہیں کی اور نہ ہی جی ایچ ایم سی سے وقف بورڈ کو فنڈز جاری کروائے۔ جبکہ چیف منسٹر نے آر ٹی سی کو خسارہ سے باہر نکالنے کیلئے جی ایچ ایم سی سے 500 کروڑ روپئے کی اجرائی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ابھی تک حج کمیٹی اور اُردو اکیڈیمی تشکیل نہیں دی گئی۔ چیف منسٹر کے سی آر سے اجلاس ختم ہونے کے بعد رکن پارلیمنٹ حیدرآباد اسد الدین کی نمائندگی پر چیف منسٹر نے اندرون 2 گھنٹے فنڈز کی اجرائی کیلئے جی او جاری کردیا جس پر انہوں نے ٹی آر ایس کو بڑی تیز حکومت قرار دیا۔ ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے کہ پارلیمانی حلقہ حیدرآباد کی ترقی کیلئے 2 گھنٹے میں 41 کروڑ روپئے جاری ہوئے بلکہ اعتراض اس پر ہے کہ 6 ماہ گذر جانے کے باوجود منظورہ اقلیتی بجٹ کے نصف فیصد فنڈز جاری نہیں ہوئے۔ واہ … کیا تیز حکومت ہے۔