حکومت کے ذمہ داروں کا کمالِ بے شرمی

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
حیدرآباد میں بارش نے سڑکوں کو اُدھیڑ کر رکھدیا ہے ۔ اس بات کا اعتراف وزیر بلدی نظم و نسق و آئی ٹی کے ٹی راما راؤ نے اپنے ٹوئیٹر ساتھیوں کے سامنے پوری دیانتداری کے ساتھ کیا ۔ کے ٹی آر سے چیاٹنگ کرنے والے شہریوں نے حیدرآباد میں سڑکوں کی ابتر حالت پر ہی بات کی ہے ۔ کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ گذشتہ چار سال کے دوران تلنگانہ کے دارالحکومت کو پورے احترام کے ساتھ ترقی دینے کی ضرورت تھی لیکن مانسون کے دوران شہریوں کو بہتر سرویس دینے میں جی ایچ ایم سی پھر ایک بار ناکام ہوا ہے ۔ کے ٹی آر بھی شہر کے مسائل سے نمٹنے میں حکومت کی بے بسی کا واضح اظہار کرنے سے قاصر دکھائی دیئے ۔ ڈرینج سسٹم پرانا ہی ہے ۔ اس کے باوجود ٹی آر ایس حکومت کی قسمت اچھی ہے کہ شہریوں نے کوئی اُف تک نہیں کیا ہے ۔ شہری پوری دیانتداری اور اخلاص سے حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ شہریوں کو حیدرآباد کی حالت دیکھ کر دکھ ضرور ہورہا ہوگا لیکن اس سے کہیں زیادہ ملال اس بات کا ہے کہ ذمہ داران کمال بے شرمی سے صورتحال کا سارا ملبہ جی ایچ ایم سی پر ڈال رہے ہیں ۔ جی ایچ ایم سی کے کارپوریٹرس نے شہر کو کھڈوں میں تبدیل کردیا ہے ۔ ایک معمولی بارش اس ریاست کی گڈگورننس کا سارا پروپگنڈہ بہاکر لے جاتی ہے ۔ سڑکیں ، ندی ، نالوں ، تالابوں میں تبدیل ہوتی ہیں ۔ حکومت کی منصوبہ بندی اور کارکردگی کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ پانی سے بھرے نشیبی علاقے کن کی قابلیت پر منہ چڑا رہے ہیں ۔ قبرستانوں میں پانی بھرنے سے مُردوں کے تیرتے کفن کس کی کارکردگی کو خراج پیش کررہے ہیں ۔ گندگی ، غلاظت ، نجاست کے ڈھیر میں ڈینگو مچھروں کی بھرمار ہورہی ہے ۔ ابلتے گھڑے اور نالیاں مریضوں کو مزید مریض بنا رہے ہیں ۔ مقامی جماعت کے قائدین ہیں کہ شہریوں کے سامنے ترقیاتی کاموں کے دعویٰ کرتے ہوئے محلوں میں گھوم کر پھول مالائیں پہن کر مختلف کاموں کے سنگ بنیادیں یا افتتاحی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے اپنا فریضہ ادا کرنے کا مضحکہ خیز مظاہرہ کرتے آرہے ہیں ۔ یہ سیاسی برادران شہریوں کو جان بوجھ کر بے وقوف بنانے میں کامیاب بھی ہوتے رہے ہیں ۔ محکمہ صحت نے شہر اور ریاست میں ڈینگو کے پھیلنے پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ گذشتہ 20 دن میں ہی ڈینگو کے 20 کیس سامنے آئے ہیں ۔ ملیریا کی وباء پھیلی ہوئی ہے ۔ وزیر صحت سی لکشما ریڈی نے محکمہ صحت کے سربراہوں کو سخت ہدایت دی ہے کہ وہ ڈینگو پر قابو پانے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کریں ۔ ڈینگو ، ملیریا ، چکن گنیا اور دیگر موسمی امراض کی روک تھام میں ناکام ، عہدیداروں کو بھی عوام کی صحت کی پرواہ نہیں ہے ۔ اس لیے عوام کو ہی اپنے رویہ پر غور کرنا چاہئے اور یہ سوچنا ہوگا کہ بطور شہری آپ لوگ حکومت اور مقامی جماعت کے لیڈروں کے لیے ناپسندیدہ کیوں ہیں صرف انتخابات کے موقع پر ہی آپ ان لیڈروں کے پسندیدہ شہری کیوں بنتے ہیں ۔ عوام اپنے ڈبل رول ادا کرنے والے لیڈروں کو آخر کب تک نظر انداز کرتے رہیں گے ۔ اداکار ٹائپ سیاستدانوں کو جگہ جگہ پھول مالائیں پہنا کر ان کے ناقص کارکردگی کی داد دے رہے ہیں ۔ اس محبت کے اظہار کو واقعتاً یہ لیڈر اپنے لیے اعزاز ہی تصور کرتے ہیں جب کہ عوام انہیں خاموشی سے برداشت کرنے کے عادی ہوئے ہیں اور ان کے مکروہ چہروں کو برداشت کررہے ہیں ۔ ان قائدین کو ڈبل رول اس لیے کہا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ لوگ انتخابات کے وقت رہنما بن جاتے ہیں اور انتحابات کے بعد ’ رہزن ‘ کا رول ادا کرتے ہیں یعنی سارے ترقیاتی کاموں کے فنڈس کی رہزنی کرتے ہوئے شہریوں کو بلدی مسائل میں مبتلا رکھتے ہیں ۔ شہریوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جس طرح غلیظ پانی سے وضو نہیں کیا جاسکتا ان سیاستدانوں کو سیدھا کیے بغیر ترقی ناممکن ہے ۔ ایک نمک کا کنکر کہہ کر برسوں سے بھگت رہے ہیں ۔ ’ تیڑھا پر میرا ہے ‘ والی سوچ نے جو مشکلات پیدا کی ہیں ۔ اس سے باہر نکلنے کی ترکیب ہی سوچی نہیں جاتی ۔ شہریوں کی رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہوئے کانگریس قائدین نے حکمران پارٹی ٹی آر ایس کی خرابیوں سے انہیں واقف کرانا شروع کیا ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت پر الزام ہے کہ اس نے چار سال میں حیدرآباد کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ سوپر لگثرری والے پرگتی بھون تک ہی محدود ہیں ۔ انہیں دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے مکینوں کے لیے بنیادی سہولتوں کی دستیابی و فراہمی کا جائزہ لینے کی توفیق ہی نہیں ہورہی ہے ۔ وزیر بلدی نظم و نسق کے تارک راما راؤ کی اصل توجہ مختلف پراجکٹس کے لیے کنٹراکٹرس سے کمیشن حاصل کرنے پر مرکوز ہے ۔ اس کمیشن کے ذریعہ انہوں نے غیر قانونی دولت کا انبار جمع کرلیا ہے ۔ صدر پردیش کانگریس اتم کمار ریڈی کا دعویٰ ہے کہ حیدرآباد میں اس وقت جو کچھ انفراسٹرکچر ہے وہ کانگریس کی سابق حکومتوں کی جانب سے فراہم کردہ ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے کچھ نہیں کیا ہے ۔ اس لیے آنے والے انتخابات میں شہر حیدرآباد کے عوام ٹی آر ایس کو شہر کی سڑکوں پر پڑے کھڈوں میں ہی ’ دفن ‘ کردیں گے اور کانگریس پارٹی فاتح بن کر ابھرے گی ۔ یعنی اب کے انتخابی موسم میں رائے دہندوں کی ووٹوں کی بارش سے ٹی آر ایس کے قلعہ کی چھتیں برداشت نہیں کرسکیں گی اور جگہ جگہ سے بری طرح لیک کرنے لگیں گی ۔ حکمران اپنی تمام تر کوششیں کے باوجود حکومت کی چھت بچا نہیں سکیں گے ۔ حکومت کو اپنے پانچ سال کا سفر رائیگاں ہونے سے بچانے کے لیے چند ماہ کے اندر سہی کچھ نہ کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ قومی کیریکٹر ادا کرنے کی آرزو پوری کرنے سے پہلے وفاقی کیریکٹر کو دیانتداری سے ادا کرنا چاہئے ۔ حکومت کے ذمہ داروں کو کبھی کبھی بات سمجھ میں نہیں آتی لیکن وہ بظاہر بات سمجھنے کا ناٹک کرتی ہے لیکن اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ آگے کسی اور کو بھی یہ بات سمجھا پائے گی یا نہیں ۔ اب یہ حکومت ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے ۔ انتخابات کے موقع پر اپنی ناقص کارکردگی کے بارے میں عوام کو سمجھانے کے لیے کچھ باقی نہیں ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود ٹی آر ایس والے دعویٰ کررہے ہیں کہ انہیں 100 سے زائد نشستوں پر کامیابی ملے گی ۔ یہ قائدین کم از کم 100 نشستوں کے دعویٰ کے ساتھ اختصار پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ جب کہ چیف منسٹر نے تو 110 پر کامیابی کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ دعویٰ کتنا درست ثابت ہوگا یہ تو انتخابات کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔ بعد ازاں سیاسی بے روزگار اور بے کاری کے عذاب اور اذیتیں برداشت کرنے کی بھی عادت ڈال لینی چاہئے ۔۔
kbaig92@gmail.com