تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
نئے سال میں تلنگانہ کی سیاست اُتار چڑھاؤ کا شکار ہوگی ۔ بی جے پی کو اپنی جگہ بنانی ہے تو مقامی جماعت کے برادران کو حکمراں پارٹی چاہے وہ مرکز میں ہو یا ریاست میں سودے بازی کرنی ہے ۔ شہر حیدرآباد تیزی سے دہلی کی طرح فضائی آلودگی میں مبتلا ہورہا ہے ۔ سیاسی لیڈروں میں کیچڑ آلود بیانات زور پکڑ رہے ہیں ۔ ریاستی حکومت اپنے نظم و نسق میں اتھل پتھل کرتے ہوئے کئی آئی اے ایس آفیسرس کو تبدیل کرچکی ہے تاکہ سال 2019 کے عام انتخابات تک ضلع نظم و نسق کو موثر بنایا جاسکے لیکن حکومت یہ بھول گئی ہے کہ فعال عہدیداروں کے ساتھ چھیڑ خوانی اچھی نہیں ہوگی ۔ اقلیتی بہبود سے عمر جلیل کو ہٹایا گیا ۔ اسی طرح کے سی آر حکومت نے ان 5 کلکٹرس کو بھی ہٹادیا جو اپنی دیانتدارانہ کارکردگی کے ذریعہ ضلع نظم و نسق کو بہتر انداز میں چلا رہے تھے ۔ مگر ان کلکٹرس کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے ارکان اسمبلی اور کارکنوں کی بات اور سفارشات کو نظر انداز کر کے عوامی بہبودی کاموں کو ترجیح دی ۔ یہ ضلع کلکٹرس عوام کی خاطر حکمراں پارٹی کے ارکان اسمبلی اور وزراء سے متصادم ہوچکے تھے ۔ محبوب آباد کلکٹر پریتی مینا اور جنگاؤں کلکٹر دیوا سینا کو ہٹا دیا گیا ۔ یہ دونوں مقامی رکن اسمبلی اور ٹی آر ایس قائدین کی تابعداری نہیں کررہے تھے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے سینئیر آئی اے ایس آفیسر بی آر مینا کا بھی تبادلہ کردیا ہے ۔ بہتر حکمرانی کے لیے بیوروکریٹس کی کارکردگی کا اچھا ہونا ضروری ہے ۔ چیف سکریٹری سے لے کر ضلع سطح پر سرکاری کرمچاری کی دیانتدارانہ خدمات سے ہی عوام کے اندر حکومت اور حکمراں پارٹی کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے مگر ٹی ار ایس حکومت نے اپنے ارکان اسمبلی اور لیڈروں کی خاطر فرض شناس عہدیداروں کو غیر اہم محکمے دے کر تبادلہ کردیا ۔ اس طرح ٹی آر ایس حکومت نے سال 2019 کے انتخابات سے قبل ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مار چکی ہے ۔ بیوروکریٹس سے ناراضگی مول کر کے سی آر اپنی حکومت کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔ بہت بڑی تبدیلی میں آر وی چندراودن کا تبادلہ ہے کیوں کہ ان کے کمرشیل ٹیکس اور اکسائز پرنسپل سکریٹری سومیش کمار سے اختلافات میں شدت آرہی تھی ۔ نوین متل کو میونسپل اڈمنسٹریشن سکریٹری سے ہٹاکر کالجویٹ ایجوکیشن اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کمشنر بنایا گیا ۔ سال 2018 کا خیر مقدم کرنے والوں نے سال 2017 میں رونما ہوئے واقعات کو فراموش کردیا ہے تو یہ افسوسناک عمل ہے ۔ ویسے زندگی کے بہت سے سال رخصت ہوتے ہیں لیکن ہندوستان میں حالیہ سال جو داستانیں رقم ہوئی ہیں وہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سبق آموز ہیں ۔ مودی حکومت میں مسلمانوں کا معاملہ سنگین بنادیا گیا ہے ۔ طلاق ثلاثہ بل لوک سبھا میں منظور کرلیا گیا ۔ یہ ایک ایسا بل ہے جس کے حروف مسلمانوں کی بے بسی کی دھول میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں ۔ وقت تیزی سے گذر رہا ہے اور مسلمانوں کا مستقبل تیزی سے بی جے پی ، آر ایس ایس کی پالیسیوں میں جکڑ رہا ہے ۔ امتیاز برتنے کے واقعات میں کل سے زیادہ آج اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے سیاسی قائدین نے تو اپنا ہنر دکھا دیا ہے کہ وہ وقت کے دیوتا کی پوجا کرتے ہیں مگر ان تنظیموں ، اداروں اور مسلم دانشوروں کا کیا ہے خاص کر دینی اداروں نے طلاق ثلاثہ اور دیگر امور پر بی جے پی حکومت کی بیجا مداخلت کاری پر خاموش ہیں ۔ ملک بھر میں جگہ جگہ مسلمانوں کو چن چن کر ہلاک کیا جارہا ہے ۔ مسلم لڑکیوں کے تعلق سے سوشیل میڈیا پر گمراہ کن ویڈیو وائرل کی جارہی ہے ۔ گذشتہ چند سال سے دیکھا جارہا ہے کہ حیدرآباد اور اطراف و اکناف میں مسلم لڑکیوں کی بے راہ روی کو لے کر بعض تنظیمیں فکر مند ہیں ۔ ان کی کوششوں کے باوجود بدنام کرنے والے واقعات کم نہیں ہوئے ۔ آپ اخبارات یا سوشیل میڈیا کا مشاہدہ کیجئے تو ایسے واقعات پڑھنے کو ملیں گے جو یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ مسلمانوں کا بُرا ہونے والا ہے ۔ مسلمانوں کی معیشت کا دیوالیہ نکلنے والا ہے اور فرقہ پرست طاقتیں حکمرانوں کی سرپرستی میں ہم پر چڑھ دوڑنے والی ہیں ۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے ۔ مسلمانوں کے کاروباری علاقہ ، گاؤ رکھشکوں کے قتل گاہیں بن گئے ہیں ۔ دفتروں اور پولیس اسٹیشنوں میں مسلمانوں کی سنائی نہیں ہوتی ۔ مسلمانوں کے لیے حکومت کے منصوبوں میں اربوں روپئے کھائے جارہے ہیں مگر مسلمانوں کو کچھ نہیں مل رہا ہے کیوں کہ یہ معاشرہ اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ سیاسی زوال کی انتہا کو پہونچنے والا ہے ۔ بلا شبہ ہمارے معاشرے میں ہولناک سماجی اور معاشی ناہمواریاں پیداکردی جارہی ہیں ۔ ماضی میں جس طرح مسلمانوں نے غلامی کا زمانہ دیکھا ہے جس میں مسلمان نچلے درجے کے باشندے اور اچھوت سمجھے جاتے تھے اور ان پر باعزت روزگار اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے بڑی حد تک بند تھے ۔ اب برسوں بعد مرکز کی بی جے پی حکومت سے مسلمانوں کے لیے ایسے ہی حالات پیدا کردئیے ہیں ۔ اب بھی یہی بی جے پی تلنگانہ میں قدم جمانے آرہی ہے ۔ مسلمانوں کے ووٹوں کو کاٹنے والا ٹولہ بھی مرکز کی حکمراں پارٹی سے ہاتھ ملا کر مسلم ووٹوں کی کٹوا پارٹی بن جائے گی ۔ اس کے بعد مسلمانوں کو سیاسی انٹینسیوکیر میں شریک کیا جائے گا ۔ لہذا ریاست تلنگانہ میں سال 2019 کے آنے تک مسلمانوں کو اپنے محاسبہ کی ضرورت ہے ۔ مقامی جماعت کے ولی عہد جس روش پر چل نکلے ہیں وہ مسلمانوں کے ووٹوں کی ناشکری کے ساتھ اپنے مفادات کی شکر گذاری میں حکمراں پارٹیوں کے تلوے چاٹنے لگیں گے ۔ ریاستی سیاست کا قیمتی سرمایہ مسلمانوں کا ووٹ ہے ۔ اس وووٹ کو منقسم کرنے والی سیاسی ٹولی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ مسلم ووٹوں کے بعد ہول سیلرز بن کر اپنا کمیشن حاصل کرتے ہیں ۔ ایسی ہی قیادت نے ملک کے مسلمانوں کو کمزور بنادیا ہے ۔ دلت طبقہ اپنے ایک فرد کی موت پر سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکلتا ہے اور حکومت کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیتا ہے لیکن گاؤ دہشت گردوں کے ظلم کا شکار مسلمانوں کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھایا جاتا ۔ اس زہریلی حقیقت کے ساتھ اہل فکر اور اہل دانش کو اپنے مورچہ پر مستحکم رہنا ہوگا اور حکومت کے دربار میں منہ مارتے پھرنے والوں سے چوکس رہنا ہوگا ۔ انتخابات کے عین موقع پر ان قائدین کا سیاسی قبلہ بھی تبدیل ہوجاتا ہے ۔ مرکز کی نظر تلنگانہ پر ہے خاص کر جنوبی ہند کی ریاستوں کرناٹک اور تلنگانہ میں اپنی ساکھ مضبوط کرنے بی جے پی تیزی سے کام کررہی ہے ۔ ایسے میں کانگریس کے صدر راہول گاندھی کو بھی تلنگانہ میں پارٹی کی کمزور بنیادوں کو مستحکم کرنے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اگرچیکہ انہوں نے حالیہ گجرات اسمبلی انتخابات میں اپنی طوفانی انتخابی مہم کے ذریعہ سیاسی شعوری پن کا مضبوط مظاہرہ کرتے ہوئے مودی کے سحر کو توڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ تلنگانہ اور کرناٹک میں انہیں گجرات انتخابی مہم کے تجربے کی روشنی میں اہم دورے کرنے ہوں گے ۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی کے حصول کے لیے ابھی سے راہول گاندھی کو سیاسی پختہ شعوری کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل چکا ہے ۔ ریاستی کانگریس قائدین پر دھند چھائی ہوئی ہے وہ دھندلی قیاس آرائیوں کے دائرہ سے باہر آجائیں تو ہی پارٹی کے لیے موثر کام کرسکیں گے ۔ تلنگانہ میں موسمی دھند پر سیاسی دھند اور اس تہہ در تہہ دھند میں سیاسی قیاس آرائیاں ٹھیک نہیں ریاستی کانگریس قائدین کو مزید سخت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اجتماعی رول پلے کریں ۔ اپوزیشن لیڈر صرف اپنی پارٹی کے لیے اپوزیشن لیڈر نہیں ہوتے بلکہ وہ عوام کے لیڈر بھی ہوتے ہیں ۔ کانگریس کو اپوزیشن کی حیثیت سے صدق دل کے ساتھ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس نے تلنگانہ بننے کے بعد یہاں کے عوام کے لیے کیا کیا اور کن کن مسائل کو حل کرانے میں ان کی مدد کی ۔ تلنگانہ کانگریس قائدین کا فرض ہے کہ وہ پارٹی قیادت کا حوصلہ بڑھاتے رہیں اور سیاسی شعور بھی سربراہ کرتے رہیں ۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور غرض بھی ہے کہ تلنگانہ میں پارٹی کو مستحکم بنانے کے لیے کام کریں ۔
kbaig92@gmail.com