رشیدالدین
ہیڈلی کی گواہی یا بی جے پی کی انتخابی مہم
عشرت جہاں انکاؤنٹر کے داغ دھونے کی کوشش
دہلی اور بہار کی شکست سے پژمردہ بی جے پی آسام ، مغربی بنگال ، کیرالا اور اترپردیش اسمبلی انتخابات سے قبل اپنے دامن پر لگے دھبوں کو دھونا چاہتی ہے تاکہ ناکامی کے تسلسل کو کامیابی میں بدلا جاسکے۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کی 19 ماہ کی کارکردگی نے عوام کو مایوس کیا ہے ۔ جن بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ نریندر مودی نے اقتدار حاصل کیا تھا ، وہ دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کی امیدوں پر جھاڑو پھیردی اور ایک لاکھ 25 ہزار کا پیکیج بھی بی جے پی کے لئے بہار میں اچھے دن لانے میں ناکام رہا۔ جب عوام کیلئے اچھے دن نہیں آسکے تو پھر بی جے پی کیلئے اچھے دن کس طرح ممکن تھے۔ بہار کے عوام کو آج تک پیکیج کا انتظار ہے کیونکہ بی جے پی نے کہا تھا کہ شکست کے باوجود وعدہ برقرار رہے گا۔ جموں و کشمیر میں 80,000 کروڑ کے پیکیج کا اعلان پی ڈی پی کو بی جے پی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے پر راضی نہ کرسکا۔ اس طرح جموں و کشمیر میں حکمرانی کا خواب بی جے پی کیلئے دیرپا ثابت نہ ہوسکا۔ بی جے پی کو جب پتہ چل گیا کہ ہزاروں اور لاکھ کروڑ کا پیکیج بھی اسے کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتا تو اس نے نیا طریقہ اختیار کیا۔ ممبئی دہشت گرد حملہ کے اہم ملزم اور گواہ معافی یافتہ ڈیوڈ ہیڈلی کو ریاستوں کے انتخابات کے لئے مہم کا اسٹار کیمپینر بنایا گیا۔ جس طرح ڈیوڈ ہیڈلی کی زبان سے بی جے پی کو کلین چٹ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہیڈلی پر جرح کیلئے وقت کا تعین محض اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ بند ہے۔ امریکہ سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ گواہ معافی یافتہ کا بیان ریکارڈ کیا جارہا ہے جو 26/11 ممبئی دہشت گرد حملوں کے بارے میں ہے۔
جس کیس سے متعلق سماعت چل رہی ہو بیان بھی اسی بارے میں ہونا چاہئے لیکن ہیڈلی نے گجرات کے عشرت جہاں انکاؤنٹر کو ممبئی دہشت گرد حملہ سے جوڑتے ہوئے عشرت جہاں کو لشکر طیبہ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ڈیوڈ ہیڈلی نے گجرات سے متعلق انکاؤنٹر کو بیان میں شامل کرتے ہوئے بی جے پی کیلئے راحت کا سامان کیا ہے۔ ہیڈلی چونکہ گواہ معافی یافتہ ہے، وہ حکومت کے اشارہ پر کچھ بھی بیان دے سکتا ہے۔ اس طرح عشرت جہاں انکاؤنٹر کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم اور سی بی آئی نے اسے فرضی انکاؤنٹر قرار دیا ہے۔ گجرات کی عدالت نے بھی اس بات کو تسلیم کیا لیکن ہیڈلی کی زبان سے عشرت جہاں کو دہشت گرد کہلواکر آخر کس کے دامن کے داغ دھونے کی کوششیں ہیں؟ پہلے تو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ہیڈلی نے این آئی اے کو دیئے گئے بیان میں عشرت جہاں کے بارے میں انکشاف کیا تھا لیکن قومی تحقیقاتی ایجنسی نے اس طرح کے کسی بھی انکشاف کی تردید کردی۔ کانگریس قائد سنجے نروپم کے مطابق کون بنے گا کروڑ پتی شو کی طرح سرکاری وکیل نے تین نام پیش کئے، جن میں سے ایک کو چننے کیلئے کہا گیا۔ ظاہر ہے کہ ہیڈلی کو عشرت جہاں کا نام لینا تھا۔
جب ملک کی اعلیٰ تحقیقاتی ایجنسیوں اور عدلیہ نے انکاؤنٹر کو فرضی اور عشرت جہاں کو بے گناہ ثابت کردیا تو پھر ہیڈلی کی زبان سے نام لینے کا مقصد محض انتخابی مہم اور دامن کے داغ دھونا نہیں تو اور کیا ہے۔ عشرت جہاں پر یہ الزام تھا کہ وہ اس وقت کے چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کو ہلاک کرنے کی سازش کے ساتھ جارہی تھی۔ ہیڈلی ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر سہراب الدین شیخ کو بھی دہشت گرد قرار دیدے اور ان کے انکاؤنٹر کو درست ثابت کرے۔ اتنا ہی نہیں گجرات فسادات کے ملزمین کو بھی ہیڈلی کی زبان سے بے قصور قرار دیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ بی جے پی اور اس کی قیادت کو ملک کے قانون اور عدلیہ سے زیادہ گواہ معافی یافتہ دہشت گرد پر بھروسہ ہے۔ عشرت جہاں سے متعلق بیان پر ملک بھر سے تنقیدوں کے بعد مرکز کو وضاحت کرنی پڑی کہ ہیڈلی کا بیان بطور ثبوت قابل قبول نہیں ہے اور اس سے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہیڈلی کے بیان سے 26/11 دہشت گرد حملوں کے متاثرین کو کوئی انصاف نہیں ملا لیکن بی جے پی نے اسمبلی انتخابات سے عین قبل دامن پر لگے دھبے صاف کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ کیا نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ اسی لئے کیا کہ وہاں مقیم ہیڈلی سے اپنی مرضی کے مطابق بیان دلایا جاسکے۔ ڈیوڈ ہیڈلی ممبئی حملوں کا اصل مجرم ہے، اسے تو اجمل قصاب سے پہلے پھانسی ہونی چاہئے تھی لیکن اسے گواہ معافی یافتہ بناکر اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی نے ہیڈلی کے ذریعہ آسام، کیرالا ، بنگال اور اترپردیش کی انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ ہیڈلی کے عشرت جہاں سے متعلق بیان کو میڈیا میں دانستہ یا نادانستہ طور پر جس طرح اچھالا گیا وہ گجرات کے اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی کے چہرے کی کالک دھونے کی کوشش ہے۔ جو شخص سزا کا اولین مستحق ہو اور اسے معافی مل جائے تو وہ معاف کرنے والے کے حق میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ۔ سیاسی مبصرین نے بھی ہیڈلی کے بیان کی ٹائمنگ پر سوال اٹھائے ہیں۔ ایک طرف ہیڈلی نے اندرون ملک بی جے پی کی بھجن منڈلی کا رول ادا کیا تو خارجی سطح پر پاکستان سے بہتر ہورہے تعلقات کو دھکا لگا ہے۔ چونکہ ہیڈلی پاکستانی نژاد امریکی شہری ہے، لہذا نریندر مودی اور سابقہ یو پی اے حکومت نے کبھی بھی امریکہ پر اس کی حوالگی کیلئے دباؤ نہیں ڈالا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ میں بیٹھ کر ہیڈلی کس کا لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ کسی کمزور ملک میں ہوتا تو کیا حکومت کا رویہ یہی ہوتا۔ جس طرح حافظ سعید ، مسعود اظہر اور ذکی الرحمن لکھوی کو حوالے کرنے کی پاکستان سے مانگ کی جارہی ہے، اسی طرح ڈیوڈ ہیڈلی کے بارے میں امریکہ سے مطالبہ ہونا چاہئے تھا۔ اس کی جرح تو ہندوستان میں ہونی چاہئے لیکن اس کے ساتھ یہ خصوصی سلوک اور رعایتیں آخر کیوں ؟
گزشتہ دنوں ابو ظہبی کے ولیعہد شیخ محمد بن زاید النیہان ہندوستان کے دورہ پر تھے، وہ ولیعہد کی حیثیت سے پہلی مرتبہ ہندوستان آئے تھے، ان کی آمد کے موقع پر نریندر مودی نے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایرپورٹ پہنچ کر استقبال کیا اور دیکھتے ہی بے ساختہ لپٹ گئے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا ، نریندر مودی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ آخر ابوظہبی کے ولیعہد کی آمد میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ مودی خوشی سے بے قابو تھے۔ اگر ملک کی معاشی صورتحال کے پس منظر میں ابو ظہبی کے ولیعہد کے دورہ کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ نریندر مودی کی نظریں شخصیت پر نہیں بلکہ ان کے ملک کی سرمایہ کاری پر ٹکی تھی۔ ابوظہبی کے ولیعہد نے ہندوستان کے ساتھ کئی معاہدے کئے اور تیل کی فراہمی سے اتفاق کیا۔ نریندر مودی حکومت کو اسی کی ضرورت تھی اور روایات کو توڑ کر استقبال کرنا اس کا واضح ثبوت تھا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ نریندر مودی نے بحیثیت چیف منسٹر گجرات اور پھر وزیراعظم کی حیثیت سے آج تک کسی مسلمان کو گلے لگانا مناسب نہیں سمجھا لیکن دوسرے ملک کے مسلم حکمراں کے آگے بچھے جارہے تھے کیونکہ سرمایہ کاری اور تیل کا مفاد وابستہ ہے۔ مودی دیش بھکتی کے دعویدار ہیں لیکن انہیں کسی مسلمان کو گلے لگانا پسند نہیں۔ کبھی غلطی سے بھی انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوگا۔ نریندر مودی کی ذہنیت اور زعفرانی سرپرستی کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو عیدالفطر کی مبارکباد بحالت مجبوری دی۔ رات دیر گئے جب عہدیداروں نے توجہ دلائی تو مجبوراً ضابطہ کی تکمیل کیلئے مبارکبادی کا پیام جاری کردیا گیا لیکن عیدالاضحیٰ کے موقع پر مودی انجان ہوگئے۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ مودی کو ملک کا دشمن سمجھے جانے والے پڑوسی ملک پاکستان کے وزیراعظم کو گلے لگانے میں دلچسپی ہے اور حد ہوگئی کہ انہیں دشمن ملک کے وزیراعظم کی سالگرہ کا دن اچھی طرح یاد ہے اور وہ مبارکباد دینے بن بلائے مہمان کی طرح لاہور پہنچ گئے۔ اگر ان سے اچانک نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کی سالگرہ کا دن پوچھ لیا جائے تو شائد وہ نہیں بتا پائیں گے۔ دیش بھکتی کے دعوے کرنے والے پہلے دستور پر عمل کریں اور تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔ گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے مودی نے مسلم رہنماؤں کی جانب سے پیش کی گئی ٹوپی کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور ان کے سیاسی کیریئر میں کسی ہندوستانی مسلمان کو گلے لگاتے ہوئے شائد ہی کوئی تصویر یا ویڈیو موجود ہو۔ دستور پر حلف برداری تو آسان ہے لیکن اس کی پاسداری مشکل ہے۔ نریندر مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے دستور اور قانون کی پاسداری کا حلف لیا اور سب کے ساتھ یکساں انصاف کا وعدہ کیا لیکن گزشتہ 19 ماہ میں ایک بار بھی مودی خود کو غیر جانبدار ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ جانبداری اور مظالم کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، بھلے ہی وہ اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ ہو یا پھر باقاعدہ تشدد کے ذریعہ ہو۔ مودی نے زعفرانی بریگیڈ کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور انہیں کنٹرول کرنا شائد ان کے بس میں نہیں۔ ایک طرف بی جے پی کا مسلمانوں کے ساتھ یہ رویہ ہے تو دوسری طرف خود کو سیکولرازم کی علمبردار قرار دینے والی کانگریس پارٹی بھی کسی سے کم نہیں۔گزشتہ عام انتخابات میں بدترین شکست سے کانگریس نے کوئی سبق نہیں لیا ہے۔ پارٹی کے نائب صدر اور وزیراعظم کے عہدہ کے امیدوار راہول گاندھی گزشتہ دنوں کیرالا کے دورہ پر تھے۔ انہوں نے پارٹی قائدین کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس اجلاس کیلئے جو بیانر تیار کیا گیا تھا ، اس میں بیشتر قومی قائدین کی تصاویر موجود تھیں لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نظر نہیں آئے۔ حالانکہ وہ کانگریس پارٹی کے سب سے کمعمر صدر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔کیرالا جہاں مسلم آبادی فیصلہ کن موقف میں ہے اور وہاں مسلم لیگ سے کانگریس کی دوستی ہے، ایسی ریاست میں مسلم قومی رہنماؤں کو نظر انداز کرنا باعث حیرت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس میں بھی زعفرانی ذہنیت سرائیت کرچکی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار ان قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی آخری سانس تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ اس طرح کے عظیم محب وطن کو کانگریس کی جانب سے نظر انداز کرنا اہم سوال ہے۔ منور رانا نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
میں دہشت گرد تھا مرنے پہ بیٹا بول سکتا ہے
حکومت کے اشارہ پر تو مردہ بول سکتا ہے