تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
کے سی آر حکومت نے عوام کو خاص کر نوجوانوں کو ایک پُتلی تماشا بنادیا ہے ۔ بورڈ آف انٹر میڈیٹ کے نتائج نے ہزاروں طلباء کے مستقبل کو تاریک بنادیا ۔ انٹر میڈیٹ امتحانات میں جملہ 9.47 لاکھ طلباء نے حصہ لیا لیکن ممتحین حضرات نے 3.28 لاکھ طلباء کو ناکام قرار دیا ۔ بورڈ کے عہدیداروں کی لاپرواہی یا داخلی رسہ کشی نے طلباء کے تعلیمی دور کو دھکہ پہونچایا ہے ۔ اس پر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا رویہ بھی افسوسناک ہے ۔ طلباء کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا ازالہ کرنے اور خاطیوں کو سزا دینے کے بجائے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جانا حکومت کی صحت کے لیے مناسب نہیں ہے ۔ طلباء برادری میں اس حکومت کے خلاف پیدا ہونے والی ناراضگی اور انٹرمیڈیٹ نتائج میں ناکام طلباء کی خود کشی کے واقعات نے ریاست تلنگانہ کو قومی سطح پر بدنام کردیا ہے ۔ اپنی بہترین کارکردگی کا دعویٰ کرنے والی کے سی آر حکومت طلباء کے تعلیمی مسئلہ سے نمٹنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے ۔ کسانوں کی خود کشی کے واقعات کے درمیان اگر طلباء بھی حکومت کی زیادتیوں سے مایوس ہو کر خود کشی کرتے ہیں تو یہ کے سی آر حکومت کے لیے بھی خود کشی کا مقام ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اگرچیکہ طلباء کے اس مسئلہ کا جائزہ لیا ہے اور پرچوں کی مفت جانچ کی ہدایت دی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر پرچوں میں تحریر کردہ درست جواب کے باوجود طلباء کو ناکام کرنے کی غلطی کر کے صورتحال دھماکو بنانے کی وجہ کیا ہے ۔ کیا چیف منسٹر اپنی حکومت کی خرابیوں سے عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے اس طرح کے طلباء کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے کا بہانہ تلاش کیا ہے ۔ اس ایک موضوع کو گرما کر حکومت اپنے فرائض سے لاپرواہی برت رہی ہے ۔ 3.28 لاکھ طلباء کو ناکام بنادیا جاتا ہے تو اس سے تلنگانہ کے اندر محکمہ جاتی کارکردگی کے نقائص بھی سامنے آجاتے ہیں ۔ تلنگانہ کے کئی سرکاری محکموں کی کارکردگی ابتری کا شکار ہے اور حکومت اپنے قلعہ کو مضبوط بنانے کی فکر میں لگی ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کے منتخب ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے ریاست میں اپوزیشن کے وجود کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے ۔ طلباء کے سنجیدہ والدین نے حکومت کی اس لاپرواہی پر افسوس کیا ہے ۔ تلنگانہ تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے طلباء کو یہ افسوس ہورہا ہے کہ حکومت ان کے ساتھیوں کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ طلباء کا استحصال کیا جارہا ہے ۔ طلباء برادری میں پھیلتی مایوسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ تلنگانہ میں آنے والا وقت سنگین ہوگا ۔ طلباء میں مایوسی اس قدر پھیل گئی ہے کہ وہ خود کشی کرتے جارہے ہیں ۔ انٹر میڈیٹ کی تعلیم کا طریقہ کار بھی دن بہ دن مشکل ترین بنادیا جارہا ہے ۔ تلنگانہ اور آندھرا دونوں ریاستوں میں پرائیوٹ انٹر میڈیٹ کالجس میں شدید مسابقت پائی جاتی ہے ۔ ان اداروں نے طلباء کو تعلیم فراہم کرانے کے نام پر قیدی بنا دیا ہے ۔ نہایت ہی ناگفتہ بہ حالت میں طلباء کو 16 تا 18 گھنٹے پڑھنے کے لیے مجبور کردیا جاتا ہے ۔ خانگی کالجس انٹر میڈیٹ میں اپنے طلباء کے بہتر نمبر لانے کے لیے درس و تدریس کے عمل کو سخت بناتے ہیں ۔ تعلیم کا روزانہ کا شیڈول اس قدر سخت بنادیا جاتا ہے کہ طلباء کو پڑھائی کے علاوہ کوئی دوسرا خیال ہی نہیں آتا ۔ ایسے میں طلباء ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے ہیں ۔ تلنگانہ بورڈ آف انٹر میڈیٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خانگی کالجس کے سخت تعلیمی طریقوں کا معائنہ کرتے ہوئے طلباء کے لیے ذہنی اور جسمانی راحت فراہم کرنے کا استحکام کریں لیکن برسوں سے دیکھا جارہا ہے کہ خانگی انٹر میڈیٹ کالجس کا انتظامیہ اپنے کالج کا نام روشن کرنے کی کوشش میں طلباء کی آزادانہ زندگی کو مقید کرلیتا ہے نتیجہ میں یہ طلباء طویل عرصہ تک ہاسٹل کے ایک ہی کمرہ میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ جب یہ بچے اچھی پڑھائی کر کے امتحان تحریر کرتے ہیں اور انہیں بہتر نتائج کا انتظار ہوتا ہے اگر ایسے میں طلباء کی ایک بڑی تعداد کو ہی ناکام قرار دیا جائے تو یہ طلباء کے لیے گہرے صدمہ سے کم نہیں ہے ۔ کالجس کے ہاسٹلوں میں رہ کر پڑھائی کرنے والے طلباء اپنے پرچوں کو درست بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض گروپس ایسے بھی ہیں جو طلباء کا استحصال کر کے نقل نویسی کو ترغیب دیتے ہیں ۔ ہاسٹلوں یا خانگی کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان طلباء کی ذہنی صحت ٹھیک نہیں ہوتی اور انہیں مختلف سزائیں دے کر خوف زدہ کیا جاتا ہے ۔ کئی کالجوں میں انٹر میڈیٹ طلباء کے گروپ بنائے جاتے ہیں اور تعلیم میں اچھا مظاہرہ کرنے والے طلباء کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے جب کہ ان طلباء کو یہ امید ہوتی ہے کہ ان کے امتحانات اچھے گذریں گے اور انہیں درجہ اول میں کامیابی ملے گی جب اس طرح کی محنت کر کے امتحانی نتائج کا انتظار کرتے ہیں تو طلباء کو اس وقت مایوسی ہوتی ہے جب انہیں توقع کے مطابق نشانات نہیں ملتے ۔ کم نشانات دئیے جانے کی وجہ سے طلباء کی آگے کی تعلیم پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ انٹر میڈیٹ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء نوخیز ہوتے ہیں ۔ ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں کشیدگی اور تناؤ بھرے ماحول میں ہوتی ہے تو وہ اپنے تعلیمی نتائج کو لے کر فکر مند ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں بورڈ آف انٹر میڈیٹ کے عہدیدار لاپرواہی اور کوتاہ ذہنی کا مظاہرہ کر کے لاکھوں طلباء کو ناکام قرار دیتے ہیں تو یہ بہت بڑی زیادتی ظلم کہلاتا ہے ۔ خانگی کالجس کی تعلیم اور طلباء کے ذہنی اور جسمانی صحت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے 2007 میں وائس چیرپرسن آندھرا پردیش اسٹیٹ کونسل آف ہائر ایجوکیشن (APSCHE) ایم نریندر ریڈی کی زیر قیادت کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے طلباء میں خود کشی کے رجحان کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ داخل کی تھی اور اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تعلیم کے نام پر ان نو خیز طلباء کا اغواء کر کے انہیں سخت ترین قواعد اور اصولوں کے کیمپس میں قید کردیا جاتا ہے ۔ جب یہ طلباء 16 تا 18 گھنٹے سخت تعلیم حاصل کر کے امتحان لکھنے ہیں اور نتائج ان کی توقع کے برعکس آئیں تو ان طلباء کے دل و دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ مایوسی کے عالم میں خود کشی کا رجحان بڑھ جاتا ہے ۔ اس کمیٹی کی پیش کردہ حقائق پر مبنی رپورٹ کے باوجود محکمہ تعلیم اور نہ ہی حکومت نے طلباء کو ایک آزادانہ اور خوشگوار تعلیمی ماحول فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ برسوں سے طلباء ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر خود کشی کرتے آرہے ہیں لیکن حکومت نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اب کے سی آر حکومت نے خود طلباء کو خود کشی کے لیے مجبور کرنے والے نتائج جاری کردئیے ہیں ۔ اب طلباء کے سامنے ایسی مشکل صورتحال لائی گئی ہے کہ ان کی سمجھ جواب دے گئی ہے ۔۔