بابری مسجد … تضاد نہیں اتحاد ضروری
مودی کے جواب میں راہول کی بولیاں
رشیدالدین
بابری مسجد کی شہادت کا مہینہ (ڈسمبر) اور سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت قریب آتے ہی ایودھیا تنازعہ کو ہوا دی جارہی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے حق میں مہم چلانے والی تنظیمیں متحرک ہوچکی ہیں۔ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے دو مرتبہ ایودھیا کا دورہ کیا اور مسجد کے مقام پر غیر قانونی تعمیر کردہ عارضی مندر کے درشن کئے۔ یوگی اس معاملہ میں بظاہر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے انتظار کی بات کر رہے ہیں لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ یوگی دراصل تعمیری منصوبہ کا جائزہ لینے پہنچے تھے۔ کلیان سنگھ کے دور چیف منسٹری میں تنازعہ سپریم کورٹ میں زیر دوران تھا اور حکومت نے مسجد کے تحفظ کا حلفنامہ داخل کیا تھا ، اس کے باوجود مذہبی جنونیوں کو کھلی چھوٹ دے کر مسجد شہید کردی گئی۔ جب یو پی کی بی جے پی حکومت میں مسجد کو شہید کیا گیا تو کیا عجب ہے کہ موجودہ یوگی حکومت میں مندر کی تعمیر کا آغاز ہوجائے۔ مکمل تعمیر نہ سہی لیکن رسمی طور پر آغاز کے ذریعہ ملک بھر میں بی جے پی ووٹ بینک میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ یوں بھی وشوا ہندو پریشد نے اینٹوں کو جمع کرنے اور ستونوں کو تراشنے کا کام تیز کردیا ہے ۔ ایسے میں تعمیری کام کے آغاز میں مشکل نہیں ہوگی۔ مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کیلئے عدالت کے باہر تصفیہ کا شوشہ چھوڑا گیا اور بعض سرکاری مسلمان بھی بی جے پی اور سنگھ پریوار کی زبان میں بولنے لگے۔ جب سپریم کورٹ میں ڈسمبر سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت مقرر ہے تو پھر بیرون عدالت تصفیہ کی گنجائش کہاں رہے گی۔ ویسے بھی اسی معاملہ میں دن بہ دن دعویداروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ لہذا کس کو حقیقی فریق تسلیم کیاجائے۔ مندر کی تعمیر کے حامی تقریباً ایک سر میں بات کر رہے ہیں لیکن جن کی مسجد ہے ، ان میں مختلف آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور رابطہ کمیٹی کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ جس پر مسلمانوں نے بازیابی بابری مسجد کی ذمہ داری عائد کی ، اس کا رویہ اور موقف بھی باعث تشویش ہے ۔ بورڈ کے ایک نائب صدر جو اکثر اپنے بیانات سے مخالف اسلام اور مخالف مسلم طاقتوں کی خدمت کرتے ہیں ، انہوں نے گزشتہ دنوں یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی کہ عدالت کا فیصلہ اگر بابری مسجد کے حق میں آتا ہے تب بھی اراضی مندر کے حوالے کردی جائے گی ۔ اپنی ذاتی زمین کا ایک گز بھی کسی کو حتیٰ کہ اپنے حقیقی بھائی کو دینے تیار نہیں ہوتے لیکن یہاں اللہ کی ملکیت کی سودے بازی کیلئے تیار ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتا۔ مسلمانوں میں اتحاد کی علامت کے طور پر پیش کئے جانے والے اس ادارہ کا کیا حال ہوچکا ہے۔ ابھی نائب صدر کے بیان کا اثر زائل نہیں ہوا تھا کہ بورڈ کے جنرل سکریٹری نے بیان جاری کیا جسے بورڈ کا متفقہ موقف کہا جارہا ہے۔ جنرل سکریٹری کے بیان میں کئی تضادات ہیں جو مخالفین کیلئے فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ بابری مسجد کی جگہ فرش تا عرش قیامت تک کیلئے مسجد کے حکم میں ہے جبکہ دوسرے ہی جملہ میں کہہ دیا گیا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور ہوگا۔ پہلی بات تو یہ کہ گزشتہ دنوں بورڈ نے دو ترجمان مقرر کرتے ہوئے کسی بھی مسئلہ پر انہیں رائے زنی کا مجاز گردانا تھا۔ پھر سیاسی بیاک گراؤنڈ رکھنے والے جنرل سکریٹری کو بیان جاری کرنے کی اجازت کس نے دی۔ جہاں ایک بار مسجد بن جائے تا قیامت مسجد رہتی ہے۔ یہ مسلمانوں کے ایمان اور عقیدہ کا معاملہ ہے۔ ایمان اور عقیدہ کے معاملہ میں کسی عدالت کے فیصلہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ جب آپ ایمان کی بات کر رہے ہیں تو پھر ایمان کے خلاف فیصلہ کو کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کیوں نہیں کیا گیا ؟ طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کو ماننے سے انکار کیوں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں فیصلے شریعت سے ٹکرا رہے تھے ، لہذا ماننے سے انکار کیا گیا لیکن مسجد کے معاملے میں شرعی موقف کی پاسداری کیوں نہیں۔ بحیثیت مسلمان ایمان اور عقیدہ کے معاملہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ پھر مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں کو آخر کیا ہوگیا کہ مصلحت پسندی کا شکار ہیں۔ آپ یا تو ایمان کی بات کریں یا عدالت کے فیصلہ کو قبول کرنے کی ۔ دونوں باتیں یکجا نہیں ہوسکتی۔ جس طرح حق اور باطل کبھی ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔ مندر کے حامی صاف طور پر کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کی آستھا کا مسئلہ ہے اور عدالت میں فیصلہ ان کے عقیدہ کے خلاف ہو تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ کس کا عقیدہ مضبوط ہونا چاہئے، کیا مذہبی رہنماؤں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے ؟ بورڈ کے جنرل سکریٹری نے عدالت کے باہر مسئلہ کی یکسوئی کیلئے ہندو پیشوا روی شنکر سے بات چیت کی تردید کی تو دوسری طرف رائے ظاہر کی کہ اگر ملک کی کوئی ذمہ دار شخصیت غیر مشروط اور ٹھوس فارمولہ پیش کرے تو اس پر بورڈ کی عاملہ میں غور کیا جائے گا۔ کیا جنرل سکریٹری کے نزدیک ذمہ دار شخصیت سے مراد وزیراعظم تو نہیں ؟ جب عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کا موقف ہے تو پھر مذاکرات کا دروازہ کیوں کھولا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ میں روزانہ سماعت سے عین قبل مذاکرات سے کیا حاصل ہوگا۔ گزشتہ 60 برسوں میں عدالتیں جس کا تصفیہ نہ کرسکیں، چند دن کے مذاکرات سے کس طرح حل نکلنا ممکن ہے ۔ کیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسجد کی اراضی سے دستبرداری کے لئے تیار ہے ؟ پھر عقیدہ اور ایمان کا کیا ہوگا۔ اگر کسی کو سرخیوں میں رہنا پسند ہو اور اقتدار کی راہ داریوں میں دل لگتا ہو تو وہ بورڈ کے بیانر کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ جس ادارہ سے مسلمانوں کی امیدیں وابستہ ہیں، کم از کم اس کا وقار مجروح نہ کریں۔ اس طرح کے رویہ سے آخر کس کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے ۔ یہ قوم کی خدمت ہے یا بد خدمتی ۔ کس کے اشارہ پر یہ بیان بازی کی جارہی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بورڈ کا اجلاس طلب کرتے ہوئے موقف کے بارے میں قرارداد منظور کی جائے۔ ایک طرف ایسے ذ مہ دار ہیں تو دوسری طرف بابری مسجد کے پرانے خود ساختہ موکل بھی میدان میں ٹوٹ پڑے ہیں۔ بابری مسجد کے نام پر طویل عرصہ تک سیاست کرنے والے شاید اس تنازعہ میں دوبارہ اپنی جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی وہ قیادت آج کہاں ہے جس نے عدالت کے فیصلوں کے خلاف حکومت کو شریعت کے حق میں قانون سازی کیلئے مجبور کردیا تھا۔ قوم میں بے حسی قائدین کو جواب دہ رکھنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ مذہبی ہو کہ سیاسی دونوں قیادتیں مصلحتوں کا شکار دکھائی دے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں سنگھ پریوار کو ہندو راشٹر کے منصوبہ پر عمل آوری میں کوئی رکاوٹ یا مزاحمت نہیں ہے۔
بابری مسجد مسئلہ پر عدالت کے باہر مذاکرات کیلئے روی شنکر کون ہوتے ہیں؟ انہیں کس نے مصالحت کار مقرر کیا ہے ؟ دراصل وہ اپنی ان سرگرمیوں کے ذریعہ بی جے پی کو تقویت پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان حالات میں ملت کو چوکس رہنا ہوگا۔ سبرامنیم سوامی جیسے افراد سرگرم ہیں اور ہمیں سپریم کورٹ میں موثر انداز میں پیروی کو یقینا بنانا ہوگا ۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر مناسب پیروی نہ ہونے کے سبب مخالف شریعت فیصلہ سنایا گیا۔ سپریم کورٹ میں پرسنل لا بورڈ کے وکیل کپل سبل نے بعض غیر ضروری ریمارکس کئے جو بابری مسجد مقدمہ میں مخالفین استعمال کرسکتے ہیں۔ ملک میں تحت کی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک مسلم وکلاء اور ماہرین قانون کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کے سبب مسلم مسائل پر غیر مسلم وکلاء کی خدمات حاصل کرنا مجبوری بن چکا ہے۔ نوجوان نسل کو قانون کی تعلیم سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف گجرات اور ہماچل پردیش میں انتخابات کی مہم عروج پر ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور کانگریس کے یوراج راہول گاندھی انتخابی مہم میں اپنی بولیوں کے ذریعہ ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کو اس مرتبہ گجرات میں سخت مقابلہ درپیش ہوسکتا ہے۔ 2014 ء میں ملک بھر میں مودی کی بولیوں کا اثر ہوا اور اچھے دن کے وعدہ نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں معاشی سطح پر حکومت کی ناکامی نے مودی کے جادو کا اثر کم کردیا ہے۔ عام آدمی اور بالخصوص متوسط طبقہ حکومت کی پالیسیوں سے بری طرح متاثر ہے۔ ایسے میں راہول گاندھی کی جوابی بولیاں مودی کیلئے مشکلات کھڑی کر رہی ہیں۔ راہول گاندھی عمر میں بھی مودی سے کافی کم ہیں اور ملک کے رائے دہندوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے ، لہذا راہول گاندھی کے بول نوجوانوں میں اثر دکھا رہے ہیں۔ اگر گجرات میں کانگریس کی نشستوں میں اضافہ ہوتا ہے تب بھی اس کے لئے یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور اگر اقتدار میں واپس ہو تو اسے راہول گاندھی کا کارنامہ کہا جائے گا اور یہ بی جے پی کے زوال کا آغاز ہوسکتا ہے ۔ راہول گاندھی نے مودی کے گڑھ گجرات میں اپنی تقاریر کا جادو جگایا ہے اور ان کے اندازِ خطابت میں کافی نکھار آچکا ہے۔ ملک میں مودی سے مقابلہ کیلئے کانگریس کو مقبول چہرہ کے ساتھ اچھے بولیاں بولنے والے کی ضرورت تھی اور راہول گاندھی اس معاملہ میں تقریباً ٹرینڈ ہوچکے ہیں۔ 8 نومبر کو ملک میں نوٹ بندی کا ایک سال مکمل ہوگا ، پتہ نہیں مودی اس مرتبہ کیا اعلان کردیں۔ حیرت ہے کہ بی جے پی اس دن کو مخالف کالا دھن یوم کے طور پر منا رہی ہے۔ بی جے پی پہلے اس بات کی وضاحت کرے کہ بیرون ملک سے کتنا کالا دھن لایا گیا اور نوٹ بندی کے فیصلہ سے کتنا کالا دھن منظر عام پر آیا ۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے 98 فیصد نوٹوں کی واپسی کا دعویٰ کیا ہے۔ اس طرح نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلے مہنگائی میں اضافہ کے ساتھ بی جے پی کیلئے بھی مہنگے پڑسکتے ہیں۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
طوائف کی طرح اپنی غلط کاری کے چہرے پر
حکومت مندر و مسجد کا جھگڑا ڈال دیتی ہے