حکومت طوفانی مانسون اجلاس کا سامنا کرنے تیار

نئی دہلی۔ 8 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ایک طوفانی مانسون اجلاس کا سامنا کرنے کی حکومت کی جانب سے تیاری جاری ہے جبکہ اپوزیشن پارٹیاں مختلف مسائل پر اپنی صفیں درست کررہی ہیں۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جارحانہ جوابی ردعمل تمام مسائل بشمول ویاپم اسکینڈل، للت مودی تنازعہ، کالا دھن مسئلہ اور تازہ ترین ذات پات کی بنیاد پر معاشی مردم شماری کے سلسلے میں ظاہر کیا جائے۔ توقع ہے کہ حکمت عملی کو کُل جماعتی اجلاس سے قبل جو 20 جولائی کو مقرر ہے، قطعیت دے دی جائے گی۔ تین ہفتہ طویل مانسون اجلاس کا جس کے ایک دن بعد یعنی 21 جولائی کو آغاز اور 13 اگست کو اختتام مقرر ہے، سرکاری ذرائع کے بموجب کابینی کی کمیٹی برائے پارلیمانی اُمور کا اجلاس 24 جون کو منعقد کیا گیا تھا جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام تنازعات کا ایوان اسمبلی کے اجلاس میں سامنا کیا جائے گا۔ بعدازاں فیصلہ کیا گیا تھا کہ مانسون اجلاس میں کوئی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ امکان ہے کہ اجلاس میں ایک ہفتہ تک ضرورت پڑنے پر تمام تنازعات پر مباحث منعقد کئے جائیں گے۔ ذرائع کے بموجب متنازعہ حصول اراضی مسودۂ قانون آئندہ اجلاس میں پیش کئے جانے کی توقع نہیں ہے

، کیونکہ حکومت آر ایس ایس سے ملحق تنظیموں اور اپنی حلیف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مجوزہ قانون کی مختلف دفعات پر اعتراضات کی وجہ سے الجھن زدہ ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے قبل ازیں کہا تھا کہ این ڈی اے حکومت کے وزراء کو استعفیٰ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ حکومت اپوزیشن کے دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکنا نہیں چاہتی بلکہ اپنے قائدین بشمول وزیر خارجہ سشما سوراج، چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیو راج سنگھ چوہان اور چھتیس گڑھ کے چیف منسٹر رمن سنگھ کا بھرپور دفاع کرنا چاہتی ہے جو تنقیدوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ چوہان ، ویاپم اسکام کی سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کرچکے ہیں جس کا مقصد اپوزیشن کی تنقید کی شدت کم کرنا معلوم ہوتا ہے۔ سینئر بی جے پی قائدین جنہیں حکومت نے اپوزیشن کی تنقیدوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مقرر کیا تھا، کہہ رہی ہے کہ ان کا تقرر مدھیہ پردیش میں سابق کانگریسی حکومت کی جانب سے من مانی انداز میں کیا گیا تھا اور چوہان حکومت نے 2007ء میں فیصلہ کیا تھا کہ جانبدارانہ طور پر کام کے طریقوں سے گریز کیا جائے اور شفاف نظام برائے تقررات قائم کیا جائے۔