تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
صدر ٹی آر ایس چندر شیکھر راؤ کو ان کے فرزند کے ٹی راما راؤ نے مغربی بنگال کے چیف منسٹر جیوتی باسو کی طرح ملک میں سب سے طویل مدت تک خدمت انجام دینے والے چیف منسٹر کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کیا ہے، یہ خوش فہمی کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن حکومت کے ابتدائی 3 سال میں ٹی آر ایس حکومت کو کئی گوشوں سے تنقیدوں کا سامنا ہے تو ایسے میں ملک کے طویل مدت تک خدمت انجام دینے والے چیف منسٹر ہونے کی توقع رکھنے والوں پر عوام کو رحم آرہا ہے۔ بلا شبہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کا جنم ہی تلنگانہ کے حصول کے لئے ہوا تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئی ہے۔ اپنے اسی جذبہ کے تحت ٹی آر ایس کو حکومت کرنے کا بھی موقع ملا مگر وہ حکمرانی کی کرسی پر ابھی کمسن ہی ہونے کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ٹی آر ایس نے تلنگانہ کے حصول اور تلنگانہ کے قیام کے بعد میں تاریخی تبدیلیوں کی جانب قدم ضرور اٹھایا تھا مگر اس میں وہ صد فیصد کامیاب نہیں ہوسکی۔ سب سے بڑا وعدہ مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کا تھا، حکومت نے تمام سرکاری محکموں میں نوجوانوں کو 1.12 لاکھ ملازمتیں دینے کا عہد کیا تھا ان کے منجملہ صرف 27874 مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات عمل میں لائے گئے ہیں ۔ گزشتہ 40 ماہ کے دوران حکومت نے تلنگانہ کے لاکھوں بیروزگار نوجوانوں میں سے صرف چند ہزار کو ہی روزگار دیا ہے۔ حکومت کے پاس ہنوز 20 ماہ ہیں ان بیس ماہ کے دوران حکومت اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرے گی یا انتخابات کی تیاری کے لئے نئے وعدے و قسمیں کھانے والے منشور کو تیار کرے گی‘ یہ چند دنوں میں واضح ہوجائے گا۔ حکومت نے تو یہ کہنا شروع کیا ہے کہ وہ آئندہ20 ماہ کے دوران مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات عمل میں لائے گی۔ حکمراں پارٹی یہ بھول چکی ہے کہ اس نے ریاست تلنگانہ کے ہر خاندان کو ایک عہدہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
حکومت اپنے قول سے مکررہی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے اس کے وعدوں کو یاد دلایا جارہا ہے تو اُلٹا اپوزیشن پر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کررہی ہے۔ حکومت اس وقت اپنے ہی وعدوں میں بھٹک رہی ہے۔ گزشتہ 3 برس سے وعدوں اور اعلانات کا چرچا اس شد و مد سے جاری ہے کہ اب کانوں کو بھلا لگنے کے بجائے گراں گذرنے لگا ہے۔ عوم کو خوش کرنے کے معاملات میں فراخدلی کے ساتھ تعاون کی اہمیت سے انکار نہیں‘ مگر جس بھونڈے طریقہ سے وعدوں کی لمبی تان حکومت نے اٹھائی ہے تو عوام کو کنفیوز کردیا ہے، اس لئے اپوزیشن کو شکایت ہے کہ حکومت کے وعدوں پر اعتبار نہیں ہورہا ہے۔ ایسے میں ریاست کی سیاست کبھی بھی فیصلہ کن موڑ پر پہنچ سکتی ہے۔ ہر اپوزیشن لیڈر کو چیف منسٹر کے بارے میں اظہار خیال کرنے کیلئے کہا جارہا ہے کہ چیف منسٹر نے خود کو تلنگانہ کا ناقابل تسخیر قلعہ میں تبدیل کرلیا ہے۔ وہ اپنے ایجنڈہ کو روبہ عمل لانا چاہتے ہیں ان کا ایجنڈہ ایک سیاستداں کی حیثیت سے عوامی ایجنڈہ بن گیا تھا اب دھیرے دھیرے یہ ایک سیاستداں کا ایجنڈہ ذاتی بن گیا ہے۔ فیملی ایجنڈہ میں تبدیل ہوگیا۔ ان کی پالیسیوں اور طرز عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ وہ ٹاملناڈو کی جیہ للیتا کی طرح خود کو ڈھالتے جارہے ہیں یا سماج وادی پارٹی، لالو پرساد یادو کی فیملی اور ممتا بنرجی کی طرح داخلی طاقت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ کل تک یعنی حصول تلنگانہ تک عوامی لیڈر تھے اور عوام کے درمیان رہتے تھے، ہر ایک کیلئے ان کے دروازے کھلے اور عام و خاص سے بروقت ملاقات کے لئے دستیاب رہتے تھے لیکن جب سے انہوں نے خود کی زندگی کو سابق چیف منسٹر ٹاملناڈو جیہ للیتا کی طرز پر ڈھالنا شروع کیا ہے وہ سوائے اپنے ارکان خاندان کے کسی سے نہیں ملتے اور ان کے رفقاء وزراء سے بھی ان کی بہت ہی کم ملاقات ہوتی ہے۔ انہوں نے خود کو اپنی حیات سے زیادہ بلند ثابت کرلیا ہے بلکہ وہ باہوبلی کا عملی نمونہ پیش کرنے کے بجائے ایک ایسی طاقت کا روپ دھار چکے ہیں، جن تک رسائی ممکن نہیں ۔ دراصل وہ اصل دنیا سے کٹ چکے ہیں اور اپنے نئے پیالیس سے ہی کام کررہے ہیں بلکہ ان کے ناقدین نے انہیں عصر حاضر کا نظام کہنا شروع کیا ہے بلکہ اصل نظام کی زندگی عوام سے قریب ہوا کرتی تھی، نظام کے دور حکومت میں وعدے نہیں بلکہ کام ہوتے تھے مگر کے سی آر نے عوام، خاص کر مسلمانوں سے صرف وعدے کرنا سیکھا ہے۔
اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا مگر اس اعلان کو حتمی منظوری دینے کیلئے ایوان اسمبلی میں تلگو کا استعمال کیا گیا۔ اردو سے ناواقف وزیر کے ذریعہ اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دینے کی منظوری دی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ خود چیف منسٹر ایوان میں موجود ہوتے اور اپنی اردو دانی اور اردو دوستی کا ثبوت دے کر سرکاری زبان کی حیثیت سے منظوری دیتے۔بہرحال مسلمانوں کی دلجوئی والے اعلانات کرکے وہ تلنگانہ کے مسلمانوں کے تعلق سے سارے ہندوستان میں غلط پروپگنڈہ کررہے ہیں کہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت نے مسلمانوں کیلئے فلاح و بہبود اور ترقی کی راہیںکشادہ کردی ہیں، اور یہ پروپگنڈہ قومی ٹی وی میڈیا نے خوب اُچھالا ہے تو فرقہ پرستوں کو اپنے ہم خیال عوام کو گمراہ کرنے کا موقع دیا ہے ۔ ایسے میں مسلمانوں کو ہی اپنا ذہن تیار کرلینے کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں کی پروپگنڈہ مہم اور دلجوئی کی سیاست نے انہیں کئی محرومیوں کا شکار بنادیا ہے۔ سابق حکومتوں کے وعدوں کا سفر طئے کرنے کے باوجود اگر مسلمانوں کا مائنڈ سیٹ اور فکری رویہ نہیں بدلا تو پھر ان کا مستقبل بھی نہیں بدلے گا۔ سیاسی شعور اور سیاسی آگہی کی سطح کو بلند نہیں کیا گیا تو پھر سیاستدانوں کو ان کے ووٹ بینک بنانے کا موقع ملتا رہے گا۔ دھوکہ دہی کی تاریخ ایک زبردست آئینہ ہوتی ہے جو نہ صرف ماضی کی عکاسی کرتی ہے بلکہ سیاستدانوں کے سیاسی سفر پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ اس لئے سابق حکمرانوں یا نئے حاکموں دونوںکے وعدوں کا تجربہ کرتے ہوئے اپنے ووٹوں کی گرفت کو کمزور نہیں کرنا چاہیئے۔ موجودہ سیاسی قیادت کی لیڈر شپ سے بھی انہیں انکار نہیں ہے جس کے ہاتھ پر خود انہوں نے بیعت کی ہے حالانکہ بیعت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، کچھ ادب ملحوظ خاطر ہوتا ہے لیکن یہ بات سچ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنی قیادت کی ہی اداؤں کی اسیر ہے۔
kbaig92@gmail.com