حکومت اور فوج دونوں کی عزت عدالت کے ہاتھ

محمود شام، کراچی (پاکستان)

آپ اور ہم میں سے بہت سے تویہ سوچ رہے تھے کہ پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویزمشرف ایک دو دن میں ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ کسی بھی عرب ملک سے کوئی آرہا تھا تو یہی سوچا جارہا تھا کہ وہ جنرل کو لینے آرہا ہے یہ سوچ ایسی غلط بھی نہیں ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ ابھی ایک دو برس پہلے امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کے قتل کا ملزم ہونے کے باوجودبھیج دئے گئے تھے ۔میاں نواز شریف اپنے ساتھیوں کو جیل میں چھوڑکرسعودی عرب چلے گئے تھے۔ دس برس تک سیاست سے توبہ بھی کر لی تھی۔ جنرل ضیاء کے دورمیں بے نظیر بھٹو صاحبہ کان کی تکلیف کے علاج کے لئے لندن روانہ ہو گئی تھیں ۔جنرل مشرف کچھ ضدی واقع ہوئے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کے منع کرنے کے باوجود وہ دشمنوں کے درمیان واپس آگئے۔ نواز شریف جن کا تختہ الٹا وہ وزیر اعظم چیف جسٹس افتخار جن کو برطرف کیا وہ چیف جسٹس جنرل کیانی جن کی ترقی رکی رہی وہ توسیع پا کرآرمی چیف ۔مشرف چاہتے تھے کہ جتنے بھی مقدمات ہیں۔ وہ ان میں پیش ہوں اور وہ عدالت سے بری ہوں نواب بگتی، بینظیر قتل، لال مسجد سارے مقدموں میں ان کی ضمانت ہوتی گئی۔

آخر میں تین نومبر2007 میں لگائی گئی۔ ایمرجنسی کا کیس آیا یہ آئین توڑنے کا مقدمہ ہے۔ اس کے لئے مرکزی حکومت کو با قاعدہ اعلان کرنا ہوتا ہے۔ پھر تین صوبوں سے ہائی کورٹوں سے جج لے کر ایک خصوصی عدالت قائم کی جاتی ہے۔ پہلے عام خیال یہی تھا کہ حکومت اس سے گریز کرے گی لیکن نواز حکومت کو اپنے کارکنوںکو حرکت میں رکھنے اور عام لوگوں کی توجہ حقیقی مسائل سے دور رکھنے کے لئے یہ مقدمہ بہت ضروری ہو گیاتھا۔ مگر پاکستانی فوج کے لئے اپنے سابق چیف کے خلاف غداری کا الزام ہضم کرنا مشکل ہوگیا۔ اس لئے یہ چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ اگر ایک سابق آرمی چیف پر بھری عدالت میںغداری کی چارج شیٹ عائد کی گئی تو یہ پاکستان کی تاریخ میں فوج کے خلاف سب سے بڑی کارروائی ہوگی۔ اس لئے مشرف کو ہر صورت میں عدالت جانے سے روکا جانا ضروری سمجھا گیا۔ دیگر مقدمات میں وہ چھوٹی چھوٹی عدالتوں میں بھی پیش ہوتے رہے۔

اس میں فوج نے اپنے لئے کوئی شرم یا مسئلہ خیال نہیں کیا تھا۔ مشرف تو اس میں بھی پیش ہونے والے تھے۔ اب ملک میں یہ بحث چل رہی ہے کہ فوج مشرف کے ساتھ ہے یا نہیں۔ میڈیا اور سیاسی پارٹیاں اس پر صاف تقسیم نظر آرہی ہیں۔ قریب قریب ہر چینل پر کئی روز سے مسلسل ٹاک شوزکا موضوع یہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ۔مسلم لیگ ق واضح طور پر مشرف کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پی پی پی کا کہنا ہے کہ مقدمہ ضرورچلاؤ لیکن بارہ اکتوبر 1999سے جب مشرف نے یہ گناہ پہلی بار کیا۔ ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ مشرف اکیلے نے یہ جرم نہیںکیا اس کے ساتھ جو کورکمانڈرز تھے۔ گورنرزتھے۔ چیف منسٹرز تھے۔ ان کو بھی کٹہرے میں طلب کیا جائے۔ بہر حال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی بارایک منتخب وزیر اعظم نے یہ جرات کی ہے کہ بھڑوں کے چھتے پر ہاتھ ڈالا ہے۔ آنے والا وقت اسے بہادری کہے گا یا حماقت ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا جسطرح اب اس وقت کے سیاہ و سفید کے مالک مشرف اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں کو آنکھیں پھیرے دیکھ رہے ہیں۔ کل یہی نواز شریف کے ساتھ ہوسکتا ہے۔بازار میں باتیں ہورہی ہیں کہ مارچ میں ڈبل مارچ ہو سکتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ خصوصی عدالت سے مشرف صاحب کو علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت دلائی جائے۔ حکومت اور فوج دونو ن کی عزت اس طرح بچ سکتی ہے۔ میڈیا شور مچائے گا۔ لیکن پنچھی جب اڑ چکا ہوگا تو شور و غل سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور مسائل کی کوئی کمی تو ہے نہیں۔ کوئی نیا معاملہ اٹھا کر جنتا کا رخ کسی اور طرف موڑ ا جا سکتا ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے سندھ میں تو اردو بولنے والوں کے لئے الگ صوبے کامطالبہ کر کے فضا میں کافی ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔آپ کے ہاں تو کئی نئے صوبے بنائے گئے۔ آپ بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہاں نئے صوبے کا قیام زندگی موت کا مسئلہ کیوں نہیں بنتا۔ پاکستان میں نیا صوبہ ہو یا نیا ڈیم ،ایسی بات ہوتے ہی نیام سے تلواریں نکل آتی ہیں۔ جیسے واہگہ بارڈر سے تو تجارت بھی ہو رہی ہے اور بس ریل بھی چلتی ہے لیکن کھوکھرا پار بارڈر کے حوالے سے ہمارے فوجی حکمراں جنرل ضیاء نے بلند آواز میں کہہ دیا تھا۔ یہ میری لاش پر کھلے گا، ہوا بھی یہی کہ ٹرین ان کے جانے کے بعد ہی شروع ہوئی۔ تجارت اب بھی نہیں ہو سکتی۔ الطاف حسین صاحب نے کہا ہے کہ اگر اردو بولنے والوں کو آپ ان کے حقوق نہیں دو گے تو الگ صوبے کا مطالبہ ہو سکتا ہے۔ اس پر پی پی پی کے سرپرست اعلٰی بلاول نے ٹوئیٹرپر پیغام دیا مر سوں مرسوںسندھ نہ دیسوں مر جائیں گے سندھ نہیں دیںگے۔

اس پر الطاف بھائی نے ان کی آسانی کے لئے یہ فارمولہ دیا ہے کہ نام سندھ ہی رکھو پرانے سندھی اپنے صوبے کو سندھ ون کہہ لیں نئے سندھیوں یا اردو بولنے والوں کے صوبے کو سندھ ٹو کا نام دے دیا جائے۔ اخباروں میں ادارئے کالم لکھے جارہے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شو کر رہے ہیں۔ الطاف بھائی کو لندن میں بیٹھے پاکستان کی سیاست کا رخ موڑنے کا کمال آتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن ہونے والے ہیں۔ اس لئے سیاسی پارٹیاں میدان گرم رکھنا چاہتی ہیں۔ کراچی کی سونے کی چڑیا پر سب کی نظریں ہیں۔ پی پی پی کہتی ہے کی کراچی کا مئیر ہمارا ہوگا عمران خان بھی اس کرسی کو حاصل کرنے کی فکر میں ہیں۔ لیکن یہ تخت ہمیشہ ایم کیو ایم کا ہی رہا ہے۔ صرف اس وقت کسی اور کا نصیب بنا ہے جب ایم کیو ایم نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے۔ ابھی ایم کیو ایم ایسے کسی موڈ میں نہیں لگتی۔ شہری حکومت کی حلقہ بندیاں تنازع بنی ہوئی ہیں۔ معاملہ عدالت میں ہے شہر اور گاؤں کے حلقے ایک جیسے بنانے کا الزام ہے۔ آبادی کا تناسب سامنے نہیں رکھا گیا۔ دیکھیں عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800