حکومت اور اپوزیشن کو صدر جمہوریہ کا زریں مشورہ

غضنفر علی خان
صدر جمہوریہ پرنب مکرجی گذشتہ ہفتہ اپنے طریقہ کار سے ہٹ کرحکومت اور اپوزیشن کو مشورہ دیا ہیکہ دورہی مقننہ اور عاملہ ذمہ داروں کو سمجھے اور چند بنیادی اصولوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں ۔ صدر جمہوریہ ایک خاموش طبع سنجیدہ اور باوقار شخصیت ہیں ۔ اپنے طویل سیاسی کیریئر کے دوران انھوں نے کئی دستوری ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور جس پر فائز ہوئے اس کے وقار اور خود اپنے وقار کو برقرار رکھا ہے ۔ ایک طرح سے انھوں نے حکومت کی توسرزنش کی ہیکہ وہ صرف آرڈیننس کے زور پر حکمرانی نہ کرے ۔ اور کسی بھی مسئلہ پر اپنے مقننہ اختیار کا بیجا استعمال نہ کرے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ حکومت بہت کم وقفہ میں 9 آرڈیننس صدر جمہوریہ کے پاس ان کی منظوری کے لئے روانہ کئے ۔ ان میں وہ مسودہ بھی شامل تھا جو اراضی کے حصول سے متعلق تھا ۔ صرف اسی آرڈیننس کے بارے میں صدر جمہوریہ نے حکومت سے بعض وضاحتیں طلب کیں اور حکومت نے یہ کام انجام بھی دیا ۔ بار بار ہر اہم کام کے لئے آرڈیننس کاسہارا لینا خود ہمارے دستور کی اسپرٹ کے خلاف ہے ۔ حکومت آرڈیننس کا سہارا اس لئے بھی لے رہی ہے کہ قاعدہ کے مطابق وہ اپنے کسی مسودہ قانون کو راجیہ سبھا میں منظور نہیں کراسکتی کیونکہ اس ایوان عالیہ میں برسراقتدار این ڈی اے کو اکثریت حاصل نہیں وہ راجیہ سبھا میں اقلیت میں ہے ۔ دونوں ایوانوں کی منظوری کے بغیر کوئی مسودہ قانون کی شکل اختیار نہیں کرسکتا ہے

اور راجیہ سبھا میں یہ صورتحال مزید دو سال برقرار رہے گی یعنی مزید دو برس تک راجیہ سبھا میں این ڈی اے کو اکثریت حاصل نہیں ہوگی اس لئے اس دشواری پر قابو پانے کے لئے ایک راستہ ہے کہ حکومت آرڈیننس جاری کرے جو صدر جمہوریہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ صدر جمہوریہ ہند نے بجا طور پر کہا ہے کہ آرڈیننس صرف ایمرجنسی کی صورتحال میں جاری کیا جاسکتا ہے اور جتنے بھی آرڈیننس صدر جمہوریہ کی منظوری یا دستخط کے لئے روانہ کئے گئے تھے وہ فوری جاری کرنے کے لئے ضروری نہیں تھے ۔ حکومت نے صرف دستور میں موجود ایک گنجائش کا فائدہ اٹھایا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ گویا ملک میں ایسے خدانخواستہ سنگین حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ ہر کام کے لئے آرڈیننس جاری کیا جائے۔

محض اپنے کمزور عددی موقف کی وجہ سے حکومت نے آسان راستہ اختیار کیا ۔ غالباً وہ بھول گئی تھی کہ اس وقت صدر جمہوریہ ایک نہایت تجربہ کار قانون داں اور ماہر دستور ہیں جو ہر بات کو خوب سمجھتے ہیں ۔ آرڈیننس کی بنیاد پر حکومتیں نہیں چلتیں ، حکمرانی کے لئے اپوزیشن اور حکمراں جماعت میں ارتباط کا ہونا ضروری ہوتا ہے جس کا موجودہ پارلیمان میں شدید فقدان ہے ۔ اسی لئے پارلیمان کی کارروائی کبھی نہیں کی جاتی ۔ اس سلسلہ میں اپوزیشن کو صدر موصوف نے مشورہ دیا ہے کہ وہ پارلیمان میں سنجیدگی اختیار کرے ۔ پرنب مکرجی سیاست دانوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ، جس نے پارلیمانی وقار کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔ طبعاً بھی صدر موصوف ہمیشہ بردباری سے کام کرتے ہیں ، انہیں یہ دیکھ کر افسوس ہوگا کہ ہماری جمہوریت کا سب سے بڑا بااختیار ادارہ یعنی ہماری پارلیمنٹ نے دستوری اداروں میں وہ اہم اور مثبت رول ادا نہیں کررہی ہے جو اسے ادا کرنا چاہئے ۔ پارلیمنٹ میں لفظی تکرار ، طنز و مزاح کے تیر و نشتر ہر دور میں دیکھے گئے ۔ بعض وقت تو یہ طنز اتنے شدید ہوتے تھے کہ بظاہر ناقابل برداشت دکھائی دیتے تھے ، لیکن ارکان پارلیمنٹ کبھی پارلیمان کے ماحول کو بگڑنے نہیں دیتے تھے ۔ آج یہ صورت نہیں ہے بلکہ ہر اجلاس شور شرابے اور بے فیض بحث و تکرار کی نذر ہوجاتا ہے ۔ اس جانب توجہ کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے اپوزیشن کو بھی نصیحت کی کہ وہ محض شور وغل کے ذریعہ اپنی بات نہیں منواسکتی ہے ۔ درپردہ انہوں نے اپوزیشن کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اپوزیشن ارکان بھی اپنی روش بدلیں ۔ بی جے پی ہی کو پارلیمنٹ کے موجودہ حالت کے لئے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس ابتر صورتحال کے لئے اپوزیشن بھی ذمہ دار ہے ۔ جمہوریت وہ بھی پارلیمانی جمہوریت اپوزیشن اور حکمران پارٹی کے باہمی تعاون سے عبارت ہے جہاں تک بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کا سوال ہے ، بسا اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ اس گروپ میں پارلیمانی طریقہ کار سے بخوبی واقف ارکان کی کمی ہے ۔ خود وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے اور بخت نے یاوری کی تو وزیراعظم بھی بن گئے ۔

حکومت میں شامل اہم وزراء میں بھی یہی صورتحال ہے ۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی ، وزیر پارلیمانی امور وینکیا نائیڈو نے کبھی اتنے بڑے عہدہ کو سنبھالا نہیں تھا ۔ پارلیمانی امور کے وزیر کو تو بے حد احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے ۔ وزیراعظم مودی بے شک 15 سال تک گجرات کے چیف منسٹر رہے لیکن چیف منسٹر کے عہدہ وزارت اعظمی کے منصب میں زمیں آسمان کا فرق ہے ۔ پارلیمنٹ میں مباحث اور معاملات کی نوعیت اور ہوتی ہے جبکہ ریاستی اسمبلیوں میں جداگانہ ہوتی ہے ۔ اس بات سے بھی موجودہ حکومت کو بار بار آرڈیننس کا سہارا لینا پڑرہا ہے ۔ اس وجہ سے صدر جمہوریہ نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو نصیحت کی بلکہ ان کی محتاط اور مہذب انداز میں سرزنش کی کہ وہ اپنے رویہ کو بدلیں ۔ یہ امید بجا طور پر کی جاسکتی ہے کہ صدر جمہوریہ کے مشورے ،ان کی نصیحت پر دونوں فریق کان دھریں گے اور ان پر عمل کریں گے ۔ صدر جمہوریہ ملک کے سربراہ ہیں انھیں جب یہ محسوس ہوا کہ ’’پانی سر سے اونچا ہوا جارہا ہے‘‘ تو انھوں نے متعلقہ فریقین کو مشورہ دیا ۔ لیکن ان کا مقصد ہرگز عاملہ اور مقننہ میں ٹکراؤ نہیں ، بلکہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے کام کرنے کا ہے ۔ صدر موصوف نے اپنے دلی جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے پیش نظر صرف یہی بات ہیکہ حکومت اپنے فرائض اور اپوزیشن اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دے ۔ تصادم اور ٹکراؤ دونوں کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچائیں گے بلکہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ حالات دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لئے کوئی مثبت اور حوصلہ افزا علامت نہیں ہے ۔