تلنگانہ/ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
امریکہ میں دو ہفتوں کے قیام کے بعد حیدرآباد واپسی پر یہاں گرمی کی جگہ ہلکی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا تھیں اور بارش کی رم جھم رمضان المبارک کی تیاریاں مساجد میں نماز تراویح کا اہتمام ہورہا تھا ۔ رمضان المبارک کا حیدرآباد میں خصوصی اہتمام کا تذکرہ امریکہ میں مقیم کئی ہندوستانیوں کے زبانی سن کر یہ محسوس ہوا کہ حیدرآباد خاندانوں کو اس مبارک مہینے میں اپنوں سے دور رمضان کی رحمتوں و برکتوں و سعادتوں کے ساتھ سحر و افطار کے روح پرور مناظر کو یاد کر کے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ حیدرآباد سے دور رہنے وا لے تمام شہریوں کو یقینا اس شہر کا رمضان المبارک شدت سے یاد آتا ہے ۔ شکاگو میں قیام کے دوران کئی حیدرآبادی ساتھیوں سے ملاقات ہوئی تو ان کے تاثرات اپنے وطن سے محبت کا مظہر تھے ۔ امریکہ سے حیدرآباد واپسی سے قبل ہی معلوم ہوا تھا کہ تلنگانہ ریاست کا موسم خوشگوار ہوگیا ہے ۔
گرمی سے لوگوں کو راحت مل چکی ہے مگر سیاسی موسم گرم ہے، دن بہ دن گرمی شدت اختیار کرتے جارہی ہے ۔ دونوں ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے سیاستدانوں کے درمیان تنازعات اور رسہ کشی کا درجہ حرارت حکمرانوں کو پریشان کر رکھا ہے ۔ نوٹ برائے ووٹ کیس اور الزامات و جوابی الزامات کے درمیان چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو کو حیدرآباد سے وجئے واڑہ منتقلی کیلئے مجبور ہونا پڑے گا ۔ نوٹ دے کر ووٹ خریدنے کے الزامات میں تلگودیشم اور تلنگانہ راشٹریہ سمیتی جیسے کو تیسا جواب دیتے ہوئے رشوت لینے کے الزام عائد کررہے ہیں ۔ تازہ واقعہ یہ ہے کہ تلگودیشم کے ارکان اسمبلی نے تلنگانہ انسداد و رشوت بیورو میں شکایت درج کرواتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو کے فرزند کے ٹی راما راو نے انہیں پارٹی کی صف میں شامل ہونے یا ٹی آر ایس کی طرفداری کرنے کیلئے نوٹ کی پیشکش کی تھی ۔
تلگودیشم رکن اسمبلی وویک گوڑ اور راجندر ریڈی نے ٹی آر ایس حکومت کے خلاف شکایت درج کرادی ہے اپنی شکایت میں تلنگانہ کے دو وزراء کے نام بتائے ہیں ۔ تلنگانہ میں ہریش راو اور کے ٹی راما راو کا سیاسی کردار پاک رہا ہے ۔ یہ دونوں تلنگانہ کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں ۔ آندھرا پردیش حکومت کی کارکردگی سے انہیں کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے مگر سیاست میں چالاکیاں سازشیں اور ایک دوسرے کا تعاقب کرتے رہنے کی کہانیاں نئی نہیں ہیں ۔ آندھرا پردیش کے سیاستدانوں خاص کر چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کے فون کالس کی ریکارڈنگ کا مسئلہ بھی حکومت آندھرا پردیش کیلئے پریشان کن ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے آندھرا پردیش حکومت کے وزراء کے فونس ٹیپ کرنے کے ثبوت بھی مرکز کو پیش کردیئے گئے ہیں تو اس سے حکومت تلنگانہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ سیاستدانوں کے خلاف فونس ٹیپ کرنے کا کیس سیاسی تماشے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا ۔ اگر چیکہ دونوں ریاستوں کی حکومتوں نے رقم برائے ووٹ کیس میں اپنی اپنی میان سے تلواریں کھینچ لی ہیں ۔ درحقیقت تلنگانہ انسداد رشوت ستانی بیورو نے اس کیس میں چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کے خلاف نوٹس جاری کرنے کی تیاری کی تھی اس نے تلگودیشم ایم ایل اے وینکٹ ویریا کو نوٹس دیدی ہے ۔ انسداد رشوت ستانی بیورو (اے سی بی ) کے ڈائرکٹر جنرل اے کے خان نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو سے اس خصوص میں دو مرتبہ رازدارانہ بات چیت بھی کی ہے لیکن چیف منسٹر آندھرا پردیش پر مرکزی حکومت کا جب تک ہاتھ ہے کیس کا نیا رخ احتیار کرنا ممکن نہیں ۔ کیونکہ چندرا بابو نائیڈو نے بھی جیسا کو تیسا کا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اے پی پولیس کی سی آئی ڈی کو ہدایت دی ہے کہ وہ تلگودیشم حکومت کے وزراء کے ٹیلی فونس کی ریکارڈنگ کرنے کے الزام میں چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کو نوٹس جاری کرنے کیلئے تیار رہے ۔
حکومت آندھرا پردیش کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس حکومت تلنگانہ کی تمام کرتوتوں کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکومت کے درمیان جاری اس ڈرامہ کا اسکرین پلے مرکزی وزارت داخلہ کی ٹیم جائزہ لینے والی ہے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ دونوں تلگو ریاست کے درمیان پیدا ہونے والے اس بحران پر اپنی ر ائے ظاہر کرنے سے گریز کررہے ہیں تو اس کا مطلب صاف ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کو ان کی تائید حاصل ہے آندھرا پردیش ری آرگنائزیشن قانون کی دفعہ 8 کا اطلاق عمل میںلاتے ہوئے اگر مرکز نے گورنر کوتلنگانہ میں لا اینڈ آرڈر پر کنٹرول حاصل کرنے کی ہدایت دی تھی اس سے نیا سیاسی بحران پیدا ہوگا۔ دونوں ریاستوں کے چیف منسٹر کے درمیان جاری لفظی جنگ کا لطف لینے والی کانگریس پارٹی نے دونوں چیف منسٹروں کے چندر شیکھر راو‘ این چندرا بابو نائیڈو پر شدید تنقید کی کہ دونوں ہی پارٹیوں نے اس کے لیڈروں کو انحراف کی ترغیب دی تھی اب وہ خود اس کیس میں پھنس گئے ہیں۔ ایم ایل سی الیکشن سے قبل کانگریس قائدین کو سیاسی سنیاس قرار دینے والے چیف منسٹر تلنگانہ کو بہت جلد سیاسی سنیاس کا دور دیکھنے کا موقع ملے گا ۔ کانگریس کی یہ برہمی اقتدار سے دوری کے صدمہ کا مظہر ہے ۔ ایک طرف دونوں ریاستوں کی حکومتوں کو ایک مسئلہ پر باہم متصادم دیکھا جارہا ہے تو دوسری طرف اخبارات خاص کر تلگو الیکٹرانک میڈیا میںچوبیس گھنٹے لوگوں کو انفارمیشن دینے اور غلط کاموں کی نشاندہی کرنے میں مصروف دکھایا جارہا ہے لیکن تلگو میڈیا کی ان شرارتوں کے باوجود اصل مسائل حل ہونے کی بجائے یہ بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ نئی حکومتوں نے حال ہی میں اپنا ایک سال پورا کیا ہے انہیں عوام سے کئے گئے انتخابی وعدوں کو پورا کرنا ہے ۔ حکمرانی کے فرائض انجام دینے کیلئے معاملات میں سدھار کی ضرورت ہونی ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری سے راہ فرار ہونے کیلئے ایسے ڈرامے شروع کردیئے ہیں ان دونوں حکمرانوں کو نہ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی سنائی دیتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حکمرانوں کی سوچ یہ ہو کہ اقتدار کا سارا مزہ وہ خود لوٹ لیں تو دیگر کو اعتراض ہوگا ہی انکی مداح سرائی کی خبروں کو ترجیح دینے والا تلگو میڈیا بھی عوام کو گمراہ کررہا ہے ۔ آپ ذرا توجہ دیں کہ تلنگانہ میں روزگار فراہم کرنے کا وعدہ ہنوز پورا نہیں ہوا ہے ۔ تلنگانہ کے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی فکر ہورہی ہے جشن تلنگانہ منانے والی حکومت نے آ:ندہ ماہ 25 ہزار نوکریاں دینے کا وعدہ کیا ہے مگر اس پر اب تک کوئی پیشرفت نظر نہیں آئی حالیہ تعلیمی نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کے نوجوان 16 سے 18 سال تک لاکھوں روپئے خرچ کر کے وہ صرف اس امید پر تعلیم حاصل کر تے ہیں کہ انہیں کوئی با عزت روزگار ملے گا مگر حکمرانوں کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں بچوں کو اسکول انتظامیہ کی منہ مانگی فیس دے کر پڑھانیو الے والدین کو اپنے مستقبل کے سہاروں کو از خود 18 سال کی تعلیمی کوششوں کے بعد بے روزگاری کا شکار ہونا پڑے تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے ۔ حکومتوں کی اس کھینچا تانی کے ماحول میں طلباء نے اپنے نئے تعلیمی سال کا آغاز کردیا ہے اس امید کے ساتھ کہ پڑھ لکھ کر انہیں اچھا روزگار ملے گا ۔ حکومت ان کے مستقبل کو روشن بنانے کے منصوبے تیار کرے گی مگر حکومتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
kbaig92@gmail.com