سرحد پر ہندوستانی سپاہی کی نعش کے ساتھ بے حرمتی اور دہشت گردوں کی جانب سے نعش کو مسخ کرنے کا بدلہ لینے اور دیش کے دشمنوں کو سبق سکھانے کے بجائے اپنے ہی شہریوں کو دہشت گرد کا لیبل لگاکر گولیوں سے چھلنی کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا حکومت کی یہی بہادری ہے کہ سرحد پار دشمن کی کارروائی کا ہندوستانیوں کی موت سے بدلہ لیا جائے۔ بدلہ کا جنون کچھ اس طرح سوار تھا کہ کہانی بھی جو تیار کی گئی ، وہ پولیس اور اے ٹی ایس کی کارروائی کے برعکس ہے۔ کب تک ماؤسٹ ، دہشت گرد اور ملک دشمن کے نام پر نہتے افراد کے خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔ سرحد پر پاکستان کی جانب سے مسلسل فائرنگ اور شلباری ہورہی ہے، بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں واقع ہورہی ہیں، ایسے میں دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کے بجائے صورتحال سے ملک کی توجہ ہٹانے مدھیہ پردیش کی شیوراج سنگھ چوہان کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے زیر دریافت قیدیوں کے انکاؤنٹر کا اسکرپٹ تیار کیا۔ اس طرح کی کارروائیوں کیلئے آسان نشانہ نکسلائٹس ، قبائل اور مسلمان ہیں۔ ظاہر ہے کہ نریندر مو دی حکومت کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے شیوراج سنگھ چوہان سے زیادہ بااعتماد چیف منسٹر نہیں مل سکتا تھا۔ ویسے بھی ان کے پاس بھوپال جیل میں سیمی کے نام پر زیر دریافت قیدی موجود تھے، جنہیں نشانہ بنانا آسان تھا۔ سیمی کے ان 8 مبینہ کارکنوں کو جس طرح ’’فرضی انکاؤنٹر‘‘ میں ہلاک کیا اسے سوائے برسر اقتدار محاذ کے کوئی اور سیاسی جماعت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں قبول کرنے تیار نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت کی پیش کردہ تھیوری ناقابل قبول ہے کیونکہ انکاونٹر کے فرضی ہونے پر دلالت کرتے ہوئے جو ویڈیو منظر عام پر آئے ہیں، اس سے حکومت کا جھوٹ بے نقاب ہوگیا۔ مبصرین کا احساس ہے کہ سرحد کی صورتحال سے نمٹنے میں ناکام بی جے پی حکومت کو کسی طرح عوام کی توجہ ہٹانا تھا۔ بی جے پی جس وقت اپوزیشن میں بھی تو اس نے ایک فوجی کے سر کے بدلے 10 سر لانے کا مطالبہ کیا تھا ۔ لیکن اب جبکہ اقتدار ہاتھ میں ہے، ایک سپاہی کے سر کا بدلہ سرحد پار دہشت گردوں سے لینے کے بجائے اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر اسی وقت اس طرح کے ڈرامہ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بعض قومی نیوز چینلس نے انکاؤنٹر کو فرضی ثابت کرتے ہوئے ثبوت پیش کئے تو انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔ مودی نواز ٹی وی چیانلس چیخ چیخ کر زیر دریافت قیدیوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں مصروف تھے ۔ صورتحال تو یہ ہوگئی کہ حکومت کی تابعداری سے انکار پر ملک دشمنی کا لیبل۔ اس طرح بی جے پی نے حب الوطنی اور وطن پرستی سرٹیفکٹس جاری کرنے کی دکان کھول لی ہے۔
اس کے معیار پر اترنے والے وطن پرست ورنہ وطن کے غدار۔ اس طرح قومی میڈیا میں موجود غیر جانبدار صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ایک چینل نے انکاؤنٹر انجام دینے والی اے ٹی ایس سربراہ کا بیان پیش کردیا جس میں انہوں نے تمام زیر دریافت قیدیوں کے نہتے ہونے کا اعتراف کیا ہے جبکہ مقامی پولیس نے فائرنگ کے تبادلہ کا دعویٰ کیا تھا ۔ قانون کے مطابق جب تک عدالت میں جرم ثابت نہ ہوں کوئی بھی شخص ملزم رہتا ہے لیکن اخبارات اور ٹی وی چینلس نے دہشت گرد کا لیبل لگادیا۔ ایک صحافی جنہیں دھمکیاں دی گئیں ، انہوں نے مکہ مسجد ، مالیگاؤں اور اجمیر دھماکوں کے ملزمین سوامی اسیمانند ، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت کے بارے میں میڈیا کے دوہرے معیار کو بے نقاب کیا ۔ میڈیا نے کبھی بھی ان تینوں کو ملزم کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کے نام کے ساتھ خبریں نشر کی گئیں۔ جب کبھی سرحد پار سے کوئی کارروائی ہو تو وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے بیانات آتے ہیں کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔ آخر منہ توڑ جواب کا مطلب کیا ہے ؟ اور اس کے لئے کونسا مہورت نکالا گیا ہے؟ نریندر مودی نے کہا کہ وزیر دفاع کہنے سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے ہیں تو پھر فوجیوں اور شہریوں کی جانوں کے اتلاف پر خاموشی کیوں ؟ وزیر دفاع اپنی بہادری کے جوہر کیوں نہیں دکھاتے؟ کسی بھی شخص کو کسی ممنوعہ تنظیم سے جوڑ دینا آسان ہے لیکن عدالت میں ثابت کرنا مشکل ہے۔ بی جے پی کو ہر معاملہ میں کانگریس سے اختلاف ہے لیکن سیمی پر امتناع کے مسئلہ پر وہ کانگریس کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ بی جے پی چونکہ حکومت میں ہے، فائلوں کی جانچ کے ذریعہ یہ پتہ کیوں نہیں لگاتی کہ آخر سیمی اور اس کی سرگرمیاں کیا تھیں جن کی بنیاد پر پابندی عائد کی گئی۔ سیمی پر عائد کردہ کتنے الزامات عدالتوں میں درست ثابت ہوئے۔ آخر سیمی کا وجود باقی کہاں ہے ؟ سیمی کی طرح انڈین مجاہدین نامی تنظیم کا بھی کافی چرچہ رہا اور اس کے نام پر کئی گرفتاریاں اور کارروائیاں کی گئیں۔ آج تک بھی کسی کو پتہ نہیں کہ انڈین مجاہدین کا ہیڈکوارٹر کہاں ہے اور اس کے عہدیدار کون ہیں؟ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے احمد سعید ملیح آبادی نے راجیہ سبھا میں حکومت کو چیلنج کیا تھا کہ وہ انڈین مجاہدین کا پتہ بتائے تاکہ وہ جاکر انہیں قومی دھارے میں شامل کرائیں گے۔ انہوں نے پتہ بتانے پر انعام کا بھی اعلان کیا تھا ۔ ان کا استدلال تھا کہ اگر کسی نے اپنے ساتھ لفظ انڈین رکھا ہے تو وہ ہرگز ملک دشمن نہیں ہوسکتا۔ حرکت الجہاد اسلامی (HUJI) کے نام سے بھی ملک کے کئی علاقوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کی مثالیں موجود ہیں۔
زیر دریافت قیدیوں کی ہلاکت کو بہادری ظاہر کرنے والے سرحد پر اس طرح کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے ؟ دراندازی کے ذریعہ جب شہریوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے آپ مقبوضہ کشمیر کو واپس لینے کی کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ افسوس کہ دشمن کے خلاف کارروائی کے بجائے اپنے ہی شہریوں کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی جارہی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ پاکستانی دہشت گرد اجمل قصاب سے تو حکومت کو ہمدردی رہی لیکن اپنے شہریوں سے نہیں۔ ممبئی حملہ میں قصاب کو زندہ گرفتار کر کے قانون کے مطابق مقدمہ چلایا گیا۔ دہشت گرد کو ہندوستانی وکیل فراہم کرتے ہوئے بے قصور ثابت کرنے کا موقع دیا گیا۔ طویل عرصہ تک جاری عدالتی کارروائی کے دوران دہشت گرد کی مہمان نوازی کی گئی لیکن اپنے شہریوں کو جرم ثابت ہوئے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
دشمن ملک اور پھر دہشت گرد سے نرم رویہ جبکہ ہندوستانیوں سے نفرت آخر کیوں ؟ اجمل قصاب کو ساری دنیا نے دہشت گرد حملہ میں ملوث دیکھا تھا لیکن یہاں کے زیر دریافت قیدیوں کا عدالتی فیصلہ ابھی باقی ہے۔ شاید حکومت کو یقین تھا کہ دیگر معاملات کی طرح یہ نوجوان بھی بے قصور ثابت ہوں گے۔ قصاب کو قانونی امداد فراہم کرنے والی حکومت اور اسے بے قصور ثابت کرنے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل کو کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن بھوپال انکاؤنٹر پر سوال اٹھانے والوں کو ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے ۔ اگر انکاؤنٹر کی سچائی پر اتنا بھروسہ ہے تو پھر سپریم کورٹ کے برسر خدمت جج سے تحقیقات کیوں نہیں ؟ شیوراج سنگھ چوہان نے ابتداء میں تحقیقات سے انکار کیا، تاہم جب انکاؤنٹر کے فرضی ہونے کے ثبوت مسلسل منظر عام پر آنے لگے تو ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے ذریعہ تحقیقات کا اعلان کیا گیا۔ این آئی اے کو انکاؤنٹر کی نہیں بلکہ جیل سے فراری کے معاملہ کی جانچ سپرد کی گئی ہے ۔ جیل سے فراری کا جھوٹا اسکرپٹ کس نے تیار کیا تھا ، اسے غیر جانبدار تحقیقات کے ذریعہ ہی بے نقاب کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا کئی گھنٹے بعد اعلان کیا گیا ، اسی طرح بھوپال میں جیل سے فراری کا دعویٰ پہلے ہوا اور پھر چند گھنٹوں میں انکاؤنٹر۔ 8 زیر دریافت قیدی ، جیل سے 8 کیلو میٹر فاصلہ اور 8 گھنٹے میں انکاؤنٹر ۔ کیا 8 کا ہندسہ شیوراج سنگھ چوہان حکومت کیلئے نیک شگون کی علامت تو نہیں؟ کیا حکومت ابھی بھی پتھر کے دور میں تصور کر رہی ہے کہ اس کی جھوٹی کہانیوں کو عوام تسلیم کرلیں گے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں دنیا کے کسی بھی حصہ سے کسی کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکتی ہے لیکن بھوپال جیل کے سی سی ٹی وی کیمرے اچانک ناکارہ کیسے ہوگئے ۔ ہائی سیکوریٹی جیل ہے یا اولڈ ایج ہوم ؟ دراصل شیوراج سنگھ چوہان نے اپنے سیاسی آقاؤں اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو دیپاولی کے تحفے کے طور پر پیش کیا۔
کشمیر اور سرحد کی صورتحال سے توجہ ہٹانے میں بی جے پی کسی حد تک کامیاب ہوچکی ہے۔ کشمیر میںگزشتہ 4 ماہ سے عام زندگی مفلوج ہے اور کئی علاقوں میں حکومت کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ گزشتہ 4 ماہ سے فاقہ کشی کا شکار افراد کی امداد کے سلسلہ میں حکومت کو کوئی فکر نہیں۔ کسی طرح سرحد کی صورتحال سے نمٹنے میں بھی حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ مودی دور حکومت میں صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ اب آر ایس ایس کے قائدین گائے کو انسان کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کی زندہ مثال بھوپال انکاؤنٹر ہے۔ دہلی میں ایک سابق فوجی کی خودکشی پر پرسہ دینے کیلئے پہنچنے والے چیف منسٹر اور اپوزیشن قائد کو گرفتار کرلیا گیا ۔ اس طرح جمہوریت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ اگر متعلقہ چیف منسٹر پرسہ نہیں دے گا تو کون جائے گا؟ آر ایس ایس نے مسلم پرسنل لا کے حق میں جاری مہم کو نشانہ بناتے ہوئے شرانگیزی کی تجویز پیش کردی ہے۔ پارٹی کے نظریہ ساز ویدیا نے کہا کہ اگر پرسنل لا عزیز ہے تو پھر مسلمانوں اور قبائل کو رائے دہی کے حق سے محروم کردیا جائے۔ جہاں تک شریعت اور حق رائے دہی کا سوال ہے، مسلمانوں سے کوئی طاقت انہیں چھین نہیں سکتی۔ جو کوئی بھی اس طرح کے باتیں کر رہے ہیں، ان کی صحیح جگہ پاگل خانہ ہے۔ ملک کے وزیراعظم سے لیکر عام شہری تک دستور کے پابند ہیں جس میں ہر کسی کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔ سبرامنیم سوامی نے حق رائے دہی سے محروم کرنے کیلئے عدالت میں درخواست پیش کی تھی جو ابھی تک زیر التواء ہے۔ بھوپال انکاؤنٹر پر کچھ دن تک بے چینی اور احتجاج کے بعد سناٹا ہوجائے گا، جس طرح تلنگانہ میں آلیر انکاونٹر کے بعد ہوا تھا۔ دستور نے کسی بھی مسئلہ پر احتجاج کا حق دیا ہے اور اس حق استعمال کے ذریعہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔ فرضی انکاؤنٹر صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ماؤسٹ اور قبائل بھی اس کا شکار ہیں۔ لہذا تمام انصاف پسند گروپس کو متحدہ طور پر ایجی ٹیشن کے ذریعہ حکومت پر دباؤ اور عوام میں شعور بیدار کرنا ہوگا ورنہ عارضی نوعیت کے احتجاج اور خاموشی سے دوبارہ اس طرح کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ اترپردیش کے شاعر حیدر علوی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
قاتلو تم کیا سمجھتے ہو کہ ڈر جائیں گے
حوصلہ ہم میں ہے آندھی سے بھی ٹکرائیں گے