حمایتؔ اللہ

 (86 ویںجنم دن کے موقع پر)
میرا کالم مجتبیٰ حسین
حیدرآبادی مزاح کی انفرادیت کو واضح کرنے کیلئے میں ایک واقعہ کا اکثر ذکر کرتا ہوں جو چالیس برس پہلے خود میرے ساتھ پیش آیا تھا ۔ نئے پل کے پاس دو ہوٹلیں ہوا کرتی تھیں ‘ تفریح دکن اور ممتاز ہوٹل ۔ ظاہر ہے کہ دونوں کے بیچ خاصی کاروباری رقابت اور مسابقت رہا کرتی تھی ۔ ایک دن میں نے تفریح دکن میں بیٹھ کر چائے منگائی تو  دیکھا کہ پیالی میں مکھی گری ہوئی ہے ۔ میں نے بیرے کو بلاکر ڈانٹا تو اس نے بجائے معذرت کرنے کے مکھی کو بڑے اہتمام کے ساتھ پیالی میں سے نکالا اسے اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور اسے پیالی میں واپس چھوڑتے ہوئے بولا ’’ حضور ! یہ ہمارے ہوٹل کی مکھی نہیں ہے ۔ یہ تو ممتاز ہوٹل کی مکھی ہے ۔ آپ میں مکھی کو ڈانٹنے کی ہمت تو ہے نہیں ۔ سارا غصہ مجھ غریب پر اتارا جارہا ہے ۔ آدمی کی حیثیت جب مکھی اور مچھر سے بھی بدتر ہوجائے تو وہ بیرا بن جاتا ہے ‘‘ ۔ وہ مکھی چاہے جس ہوٹل کی بھی رہی ہو ‘ اسی وقت مرگئی تھی ۔ بعد میں یہ ہوٹلیں  بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں ۔ وہ بیرا اب نہ جانے کہاں ہوگا مگر میں موجود ہوں ۔ یہ واقعہ موجود ہے  اور اس واقعہ میں چھپی ہوئی وہ حسِ مزاح بھی موجود ہے ‘ جو حیدرآبادی مزاح کی بنیادی پہچان ہے ۔ ایک ایسی حسِ مزاج جو ناخوشگواری کو اچانک خوشگواری میں ‘ کثافت کو لطافت میں اور بے رحمی کو ہمدردی میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتی ہے ۔ یہی وہ حسِ مزاح ہے جو حیدرآبادیوں کو اپنے آپ پر ہنسنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے اور سنگینی کو رنگینی میں بدل دیتی ہے ۔
ایک اور پرانی بات سن لیجئے ۔ ایک بار میں نے ایک بزرگ خاتون کے سامنے وٹھل راؤ کے گانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’’ وٹھل راؤ کے گلے میں بڑا سواز اور بڑا درد ہے ‘‘ ۔  خاتون نے بے ساختہ کہا ’’ بیٹا ! یہ وٹھل راؤ کسی اچھے ڈاکٹر سے اپنا علاج کیوں نہیں کراتا ۔ گلے کا درد کوئی اچھی چیز تھوڑا ہی ہوتا ہے ‘‘ ۔
ایک حیدرآبادی ایسی ہی بے ربط اور بے جوڑ باتوں کے درمیان ایک خوبصورت اور خوشگوار تعلق پیدا کر کے ایک ایسا بے ضرر اور معصوم مزاح تخلیق کرتا ہے جو کینہ ‘ بغض ‘ عناد ‘ بدنیتی اور دل آزاری جیسے رکیک جذبوں سے پاک ہوتا ہے اور یہی خصوصیت حیدرآبادی مزاح کی شائستگی اور اس کے اعلیٰ و ارفع ہونے کی دلیل ہے ۔ حیدرآباد پچھلی چار صدیوں سے ہنستا چلا آرہا ہے اور اب جب کہ اکیسویں صدی کے آنے میں دیڑھ مہینہ باقی رہ گیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ یہ اکیسویں صدی میں بھی ہنستا ہوا ہی داخل ہوگا ۔ مگر دو صدیوں کے اس ملاپ کی گھڑی میں میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ حیدرآبادی مزاح کی چار سو سالہ پرانی تاریخ میں پچھلی نصف صدی کا عرصہ اپنے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات ‘ واقعات ‘ حوادث اور عہد جدید کی تیز رفتار تبدیلیوں کے باعث ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ غالبؔ کو بھی 1857ء کے بعد کم و بیش ایسے ہی حالات سے گزرنا پڑا تھا اور اس کے جواب میں غالبؔ نے اپنی شاعری کو پس پشت ڈال کر اپنا جی بہلانے کی غرض سے اپنے دوستوں کو بے تکلف خط لکھنے شروع کردیئے تھے۔ جن میں بسا اوقات وہ اپنا مذاق آپ اُڑاتا ہے اور آج غالب کے یہ خطوط اردو طنز و مزاح کا عظیم سرمایہ سمجھے جاتے ہیں ۔
کرب جب حد سے سوا ہوجاتا ہے اور آفات ارضی و سمادی انسان کے قابو میں نہیں رہتے تو مجبور و بے بس اور ہر طرف سے مایوس انسان اپنے آپ پر قابو پانے کی جستجو میں ایک ایسی ہنسی کی طرف جست لگاتا ہے جو اس کی بے بسی کو ایک راحت ‘ بے سہارگی کو سہارا اور اس کی مجبوری اور اُداسی کو ایک شعوری حوصلہ عطا کرتی ہے اور ہنسی جب یہ رخ اختیار کرتی ہے تواس میں ایک نئی طرحداری ‘ ایک نئی حیتّ اور ایک نئی شان بے نیازی پیدا ہوجاتی ہے ۔
حیدرآباد پچھلی نصف صدی سے ایسی ہی ہنسی ہنستا چلا آرہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج اسے طنز و مزاح کے سب سے بڑے مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔ یہاں تک کہ حیدرآباد کا کوئی  سنجیدہ شاعر جب کسی بیرونی مشاعرے میں کلام سناتا ہے تو لوگ غلط فہمی میں اسے بھی مزاحیہ شاعر سمجھ لیتے ہیں اور ہنسنا شروع کردیتے ہیں ۔
حضرات !  پچھلی نصف صدی کے حیدرآباد کی اس ہنسی کا میں چشم دید گواہ رہا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ہنسی کے اس سفر کو آگے بڑھانے میں حیدرآباد کے سینکڑوں مزاحیہ فنکاروں ‘ اداکاروں ‘ ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ کئی گمنام خوش باشوں اور منچلوں نے حصہ لیا ہے لیکن اس ہنسی کو ایک اجتماعی روپ دینے اور اسے ایک مرکز پر لانے کا سہرا اگر کسی کے سرجاتا ہے تو وہ ہمارے دوست حمایت اللہ کا ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایک لمبی عمر تک اپنے سرپر شادی کا سہرا بندھوانا بھی گوارا نہ کیا حالانکہ ان دنوں ان کے سرپر اچھے خاصے بال ہوا کرتے تھے ۔ آج میں حیدرآباد کے اسی ’’ شیطانِ ظریف ‘‘ کے بارے میں بطور خراج تحسین کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں تاکہ وقت کی ترازو پر جب صدیوں کا حساب کتاب ہونے لگے تو ہماری نصف صدی کے حساب میں کوئی گھپلا نہ ہو ۔
میں نے حمایت اللہ کو پہلے پہل 1953ء میں عوامی جمہوری محاذ کے ایک جلوس میں دیگر فنکاروں کے ساتھ لوگوں کا دل بہلاتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے دیکھا تھا ۔ اس وقت تو مجھے ان کا قد بھی خاصا بلند نظر آیا تھا حالانکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے پچاس برسوں میں ان کے قد میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوئی لیکن مجھے غالباً  اس لئے غلط فہمی ہوئی کہ اس وقت وہ ایک لاری پر سوار تھے اور میں شاید بے خیال میں ان کے قد میں لاری کے قد کو بھی شامل کردیا تھا ۔ ماشاء اللہ حمایت اللہ نے ایسا قد پایا ہے کہ جو کوئی بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے احساس کمتری میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ( سوائے قطب مینار کے ) یہی وجہ ہے کہ میں ان سے اسی وقت ملتا ہوں جب وہ بیٹھے ہوئے ہوں ۔ وہ نہ صرف خود مزاح پیدا کرتے ہیں بلکہ جہاں کہیں بھی انہیں کوئی شخص مزاح پیدا کرتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ اس کی اتنی ہمت افزائی کرتے ہیں کہ بعد میں ایک منزل وہ بھی آتی ہے جب یہ شخص اپنے آپ کو خود حمایت اللہ کی ہمت افزائی کرنے کا اہل سمجھ بیٹھتا ہے ۔ یقین نہ آئے تو مجھے دیکھ لیجئے کہ آج میں کس طرح چار لوگوں کے سامنے حمایت اللہ کی ہمت افزائی کررہا ہوں ۔ کوئی فنکار کہیں نظر آجائے ۔ کوئی مزاحیہ واقعہ ‘ صورتحال یا کردار مل جائے تو وہ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر فائن آرٹس اکیڈیمی اور زندہ دلان حیدرآباد کی معرفت عوام تک پہنچا کر اسے حیدرآباد کی مجلسی زندگی کا حصہ بنادیتے ہیں ۔
غالبؔ نے کہا ہے کہ سوپشت سے ان کا پیشہ آبا سپہ گری رہا ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے لمبے عرصے تک جنگیں لڑنے کے باوجود ان کے آبا کی پشتیں نہ صرف پیدا ہوتی رہیں بلکہ ان کی سنچری تک بن گئی اور اگر اتنے خون خرابے کے بعد آخر میں غالبؔ کو ہی پیدا کرنا تھا تو اس کے لئے سپہ گری کے پیشے کو اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ سنا ہے کہ سات پشتوں تک ہمارے حمایت اللہ کے آبا کا بھی پیشہ سپہ گری ہی رہا ہے ۔ ( یہ نہ بیٹھے کہ ان کے آبا کی اس سے پہلے کی پشتیں بے روزگار تھیں ۔ کوئی نہ کوئی کام تو کرتی ہی ہوں گی ۔ کیا کام کرتی تھیں اس کے بارے میں حمایت اللہ کچھ بتانا نہیں چاہتے ) تاہم اتنا ضرور جانتا ہوں کہ حمایت اللہ تک آتے آتے ان کے سپہ گر خاندان میں اصلی تلواروں کی جگہ لکڑی کی تلواروں نے لے لی تھی ۔ چنانچہ کئی برس پہلے میں نے خود حمایت اللہ کو ایک ڈرامے میں لکڑی کی تلوار ہاتھ میں تھامے اور ڈالڈا گھی کے پانچ کیلو والے ڈبے کی مدد سے بنائے گئے ایک خوشنما شاہی تاج کو اپنے سرپر سجائے ‘ جو ان کے کانوں تک آرہا تھا ‘ ایک ظالم و جابر بادشاہ کا لاجواب رول ادا کرتے دیکھا ہے ۔
اگرچہ خاندان کی عزت و ناموس کو برقرار رکھنے کی خاطر بعد میں حمایت اللہ نے یہ لکڑی کی تلوار بھی پھینک دی اور طنز و مزاح کے تیر اور خنجر وغیرہ اٹھالئے کیونکہ یہ اصلی ہتھیاروں سے کہیں زیادہ موثر ہوتے ہیں ۔ حمایت اللہ ایک ایسے چلبلے شخص کا نام ہے جس نے نچلا بیٹھنا سیکھا ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کسی کے جنازے میں شرکت کرنا پڑجائے تو میں میّت اور حماؔیت دونوں سے حتی الامکان دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ تاہم ایک بار ایسا ہوا کہ میّت کو قبر میں اتانے کے بعد آخری دیدار کے لئے جب کفن سرکایا گیا تو مرحوم کے کسی بہی خواہ نے کہا ’’ ذرا چہرہ تو دیکھئے ‘ لگتا ہے مرحوم کسی بات پر مسکرا رہے ہیں ‘‘ ۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ عین اسی وقت حمایت اللہ میرے پیچھے کھڑے ژراف کی طرح اپنی گردن نکالے میّت کا آخری دیدار کرنے میں مصروف ہیں جو ان کے بیان کے مطابق ان کیلئے تو یہ پہلا دیدار ہی تھا ۔ فوراً سرگوشی کے انداز میں میّت کے بہی خواہ سے بولے ’’ جی ہاں ! یقیناً مسکرا رہے ہیں بلکہ اس بات پر خوش ہیں کہ آپ جیسے اوباشوں سے نجات مل گئی ‘‘ اور وہ مسکراہٹ جو ابھی کچھ دیر پہلے تک میت کے ہونٹوں پر سجی ہوئی تھی وہ میرے ہونٹوں پر پھیل گئی ۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ عصمت صرف خواتین کے پاس ہوتی ہے لیکن میرے دوستوں میں حمایت اللہ اکیلے ایسے مرد ہیں جو باعصمت بھی ہیں ۔ میں ان دنوں کی بات کررہا ہوں جب ان کے پاس واقعی عصمت ہوا کرتی تھی ۔ یہ ہردم اس بات کا خیال رکھتے ہیںکہ کہیں کوئی حسینہ ان کی عصمت پر ڈاکہ نہ ڈال دے ۔ ان گنت کلچرل پروگراموں اور ڈراموں میں کئی نازنینوں کے ساتھ کام کرنے کے باوجود انہوں نے ’’کلچر ‘‘ اور ’’ عصمت‘‘ کے بیچ ہمیشہ ایک ’’ لکشمن ریکھا‘‘ قائم رکھی ۔ اوروں کی طرح نہیں کہ پہلے تو کسی فنکارہ کے فن میں دلچسپی لیتے ہیں اور جب راہ و رسم بڑھنے لگتی ہے تو فن کو یکسر بھول کر صرف فنکارہ ہی سے مطلب رکھنے کو ضروری جانتے ہیں ۔ ایک زمانے میں فائن آرٹس اکیڈیمی کے پروگراموں میں یہ جو خواتین آرٹسٹ سرگرمی سے حصہ لیا کرتی تھیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سرپرستوں کو بخوبی اندازہ تھا کہ وہ حمایت اللہ کے ’’محفوظ ہاتھوں ‘‘ میں ہیں ۔ ایسے محفوظ ہاتھ جو کلچر کو تو چھیڑ سکتے ہیں لیکن خواتین کو بالکل نہیں چھیڑ سکتے ۔ بہت عرصے پہلے میں نے ایک بار ان سے کہا تھا ’’ حمایت بھائی ! بے شک خواتین پر لازم ہے کہ وہ اپنی عصمت کی حفاظت کریں لیکن یہ کام آپ نے اپنے ذمے کیوں لے رکھا ہے ‘ انہیں کرنے دیجئے حفاظت ۔ پھر اس حفاظت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ یہ حد پار نہ ہو تو قدرت کا اتنا بڑا کارنامہ ‘ جو روز بہ روز بڑا ہی ہوتا جارہا ہے ‘ کیسے چلے گا ؟ ‘‘
بولے ’’ بچوں کو بڑوں کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیئے ‘‘ ۔
اور اس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد معلوم ہوا کہ حمایت اللہ نے ڈاکٹر رشید موسوی سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ ان کی شادی کی تقریب میں اشفاق حسین مرحوم نے مجھ سے کہا تھا ’’ مجتبیٰ ! میں اسے حمایت اور رشید موسوی کی شادی نہیں سمجھتا بلکہ اسے مرثیے اور مزاح کا ملاپ تصور کرتا ہوں ‘‘  ۔اُن دنوں ڈاکٹر رشید موسوی کی کتاب ’’دکن میں مرثیہ اور عزاداری ‘‘ کا خاصا چرچا تھا ۔ اشفاق حسین جہاندیدہ اور مردم شناس آدمی تھے ۔ ان کے اس بلیغ تبصرے میں حیدرآبادی مزاح کا یہ نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ اچھا اور سچا مزاح وہی ہوتا ہے جو غموں اور مصائب کو اپنی ذات میں انگیز کرلینے کے بعد پیدا ہوتا ہے ۔ ایک ایسا مزاح جس سے پیدا ہونے و الے قہقہے کی پرتوں کو آپ کھولنے لگیں تو آنکھوں سے ٹپاٹپ آنسو ٹپک پڑیں ۔ بعد میں مرثیہ اور مزاح کے ملاپ کا یہ تجربہ اتنا کامیاب ہوا کہ آج حمایت اللہ نہ صرف ایک فرمابردار مزاح نگار اور مزاح کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں بلکہ اک فرمانبردار شوہر کی حیثیت سے بھی ان کا رتبہ بہت بلند ہے ۔ خدا مرثیہ اور مزاح کے اس ملاپ کو برسوں قائم و دائم رکھے ۔ کہتے ہیں کہ ہر بڑے آدمی کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ( یہ اور بات ہے کہ اس بڑے آدمی کی بربادی کیلئے ایک عورت کے ہاتھ کی نہیں بلکہ کئی عورتوں کے ہاتھوں کی ضرورت پیش آتی ہے ) ۔ ڈاکٹر رشید موسوی خوش قسمت ہیں کہ انہیں حمایت اللہ کو بڑا آدمی بنانے میں اپنے ہاتھوں کوزیادہ زحمت نہیں دینی پڑی کیونکہ یہ شادی اتنی دیر سے ہوئی کہ اس وقت تک حمایت اللہ خود اپنے بل بوتے پر بڑے آدمی بن چکے تھے ۔ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ حمایت اللہ نہ صرف خود ساختہ انسان ہیں بلکہ خود ساختہ شوہر بھی ہیں ۔ آپ چاہیں تو اس میں بے ساختہ کا اضافہ بھی کرسکتے ہیں ۔
پچھلے کچھ برسوں سے حمایت اللہ کی ایک نئی پہچان بھی بن گئی ہے یعنی وہ بعض مقبول ٹیلی ویژن سیریلوں میں ’’ کیریکٹر ایکٹر ‘‘ کا رول انجام دے رہے ہیں ۔ کیریکٹر ایکٹر اس عمر رسیدہ ایکٹر کو کہتے ہیں جس کے کیریکٹر کے بگڑنے کی دور دور تک کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ یوں بھی حمایت اللہ کا کیریکٹر بھری جوانی میں نہیں بگڑا تو اب ستّر برس کی عمر میں کیا بگڑے گا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلموں میں کھری اور نری اداکاری تو کیریکٹر ایکٹر ہی کرتا ہے ۔ ہیرو تو جسمانی وجاہت ‘ اچھل کود اور مار دھاڑ کے بل بوتے پر کام چلالیتا ہے ۔ ہیروئن اپنے عشوہ وغمزہ واوا کے ذریعہ ناظرین کا کلیجہ چھلنی چھلنی کردیتی ہے ۔ لے دے کے کیریکٹر ہی ہوتا ہے جسے اصل اداکاری کے جوہر دکھانے پڑتے ہیں ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہمارے حمایت اللہ پیدائشی اداکار ہیں ۔ لہذا اب ہر جگہ ان کی اداکاری کے چرچے عام ہیں ۔ یہ جہاں بھی جاتے ہیں لوگ انہیں پہچان کر سرگوشی کے انداز میں کچھ نہ کچھ کہنے لگ جاتے ہیں ۔ پچھلے مہینے میں اور حمایت بھائی کامتھ ہوٹل میں کھانا کھارہے تھے کہ تین ٹیبل چھوڑ کر دو نوجوانوں نے ان کے بارے میں گفتگو شروع کردی ۔ ایک نے ان کی اداکاری کی بے پناہ تعریف کی تو دوسرے نے ان کے تازہ سیریل کے فلمی رشتہ داروں یعنی ان کی فلمی بیٹی ‘ ان کے ہونے والے داماد اور سمدھی کو گالیاں دینی شروع کردیں کہ ان بدمعاشوں نے اس بڈھے کا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ میں نے محسوس کیا کہ اس گفتگو کو سن کر ان کا چہرہ لال پیلا ہورہا ہے ۔ میں نے انہیں سمجھایا ’’ حمایت بھائی ! اگر یہ نوجوان آپ کے فلمی رشتہ داروں کو گالیاں دے رہے ہیں تو اس میں آپ کو ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔ یہ آپ کے اصلی رشتہ دار تھوڑے ہی ہیں ‘‘ بولے’’اگر وہ میرے اصلی رشتہ داروں کو گالیاں بھی دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا لیکن ان کی بدتمیری دیکھو کہ مجھے بڈھا کہہ رہے ہیں ۔ ابھی کھانا ختم کر کے انہیں مزہ بتاتا ہوں ‘‘ لیکن مزہ بتانے کی یہ نوبت اس لئے نہیں آئی کہ اتنے میں دوسرے نوجوان نے میری طرف اشارہ کر کے اپنے ساتھی سے پوچھا ’’ مگر اس کے ساتھ یہ دوسرا بڈھا کون ہے ؟ ‘‘ پہلے نوجوان نے کہا ’’ یہ سیریل میں تو کام نہیں کرتا ‘ لگتا ہے اس بڈھے کا بڑا بھائی ہے ‘‘۔ اور جب میں بڈھے کا بڑا بھائی بن گیا تو حمایت اللہ نے اطمینان کا لمباسانس لے کر کہا ’’ بڑے بھائی اب میرا غصہ تو ٹھنڈا ہوگیا ۔ اب آپ کے غصے کی باری ہے ‘‘ ۔اس دن مجھے بزرگوں کی بات رہ رہ کر یاد آئی کہ آدمی کو ہمیشہ اچھی صحبت میں رہنا چاہیئے ۔
ایک بات اور عرض کردوں کہ ان کا مشاہدہ نہایت تیز ہے اور کسی کی نقل اتارنے میں ان کا کوئی ثانی میں نے نہیں دیکھا ۔ بظاہر محفل میں یوں انجان بنے بیٹھے رہتے ہیں جیسے کچھ نہ دیکھ  رہے ہوں جب کہ ان کی نظر ہر ایک کی حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لیتی رہتی ہے جس کا وہ بعد میں Action Replay پیش کرتے رہتے ہیں ۔ سلیمان اریبؔ کے انتقال کے بعد یہ ممبئی گئے تو وہاں سلیمان اریبؔ کی یاد میں منعقدہ ایک تعزیتی نشست میں بھی شرکت کی جس میں یوسف ناظم کو بھی مضمون پڑھنا تھا۔ مگر جیسے ہی یوسف ناظم مائیکرو فون پر آئے بجلی فیل ہوگئی ۔ اب جو یوسف ناظم نے اپنی منحنی آواز میں مضمون پڑھنا شروع کیا تو کسی کو کچھ سنائی نہ دیا ۔ البتہ بیچ بیچ میں ’’ اریب ‘ اریب ‘ اریب ‘‘ کا نام واضح طور پر سنائی دے جاتا تھا کیونکہ تعزیتی جلسہ اریبؔ ہی سے منسوب تھا ۔ ممبئی سے واپس آکر حمایت اللہ نے پورے دس منٹ تک یوسف ناظم کی ناشنیدہ تقریر لوگوں کو سنائی جس کی خوبی یہ تھی کہ ’’ اریب‘‘ کے سوائے کوئی اور لفظ سنائی نہیں دیتا تھا لیکن آواز کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی سمجھ میں آجاتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ بعد میں انہوں نے یہ معمول سا بنالیا تھا کہ ادھر کسی کا انتقال ہوا اور ادھر انہوں نے یوسف ناظم کا مذکورہ تعزیتی مضمون مائیکرو فون کے بغیر سنانا شروع کردیا ۔ بس اتنی سی تبدیلی کے ساتھ کہ اریبؔ کے نام کی جگہ نو مرحوم شخص کا نام بار بار لیا جاتا تھا ۔ حمایت اللہ پریم ‘ محبت ‘ رواداری ‘  یگانگت اور صلح کل کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں ۔ کہیں دو دوستوں میں لڑائی ہوجائے تو یہ فوراً  ان کے بیچ صلح صفائی کرانے کو کود پڑتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دولت رام انہیں حیدرآباد کے زندہ دلوں کے گاندھی جی کہتا ہے ۔ ایک دن میں نے دولت رام سے پوچھا ’’ اگر یہ گاندھی جی ہیں تو انہیں اب تک کسی نے گولی کیوں نہیں ماری ؟ کیونکہ گاندھی اور گولی دونوں ہی لازم و ملزوم ہیں ‘‘۔  بولا ’’ استاد !  ان کا جوگوؔڈسے ہے اس کے پاس پستول خریدنے کے پیسے نہیں ہیں ۔ بے چارہ غریب آدمی ہے ۔ ایک بار تو خود حمایت بھائی سے اس کام کیلئے پیسے مانگ چکا ہے ۔ مگر ہمارے حمایت بھائی بھی تو غریبوں کے گاندھی جی ہیں ۔ آپ گولی کو بیچ میں کیوں لاتے ہیں ۔ کیا اس ملک میں کسی ایک گاندھی کو گولی کھائے بنا جینے کا حق نہیں ہے ‘‘ ۔
حیدرآباد کے سارے فنکار ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور صحیح معنوں میں دوستوں کے دوست ہیں ۔ کسی دوست کی طبیعت خراب ہوجائے یا کوئی دوست مشکل میں گرفتار ہو تو یہ اس وقت تک مشکل کشائی فرماتے رہتے ہیں جب تک کہ دوست کی مشکلات میں کمی اور خود ان کی مشکلات میں اضافہ نہ ہوجائے ۔
حیدرآباد اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں ایک ایسا فنکار موجود ہے جس نے مزاح پیدا کرنے کے سارے حربوں کو اختیار کر رکھا ہے ۔ وہ ایک بہترین اداکار اور بہترین مزاح کار تو ہیں ہی ایک بہترین مزاحیہ شاعر بھی ہیں بلکہ میں تو انہیں دکنی زبان کا آخری مستند مزاحیہ شاعر تسلیم کرتا ہوں ۔ پچھلی نصف صدی کے حیدرآبادی مزاح کو وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اکیسویں  صدی کے دروازے تک لے آئے ہیں ۔ میری دعا ہے کہ وہ مزاح کے اس بے لوث کاروبار کو نہ صرف اکیسویں صدی میں چلاتے رہیں بلکہ ہوسکے تو اسے بائیسویں صدی میں بھی لے جائیں ۔ یوں بھی بائیسویں صدی کے آنے میں اب دن ہی کتنے باقی رہ گئے ہیں ۔ صرف سوبرس ! انسان کے پاس خوش وقتی ہو تو وقت چٹکی بجاتے میں بیت جاتا ہے ۔ خدا کرے حیدرآباد کو یہ خوش وقتی اور خوش ذوقی تاقیامت میسر آتی رہے ۔ ( آمین ثم آمین )
(روزنامہ ’’سیاست‘‘ 21نومبر 1999ء )
(افسوس کہ طنز و مزاح کایہ مایہ ناز فنکار 30 مئی 2017 ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا)