اردو کی بقا اور فروغ کے سلسلہ میں ایک عرصہ دراز سے انجمنیں کام کررہی ہیں ۔ ہندوستان کے مختلف مقامات میں بھی ایسے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے تاکہ اردو جیسی مقبول و دلنشین زبان پھلتی پھولتی رہے اور اس کا دامن اسکی چاشنی ولذت سے ہمکنار رہے ۔ حیدرآباد میں پولیس ایکشن سے قبل بھی انجمنیں قائم کی گئیں اور اس طرح اردو زبان کو فروغ ہوتا رہا ۔ اور پھر پولیس ایکشن کے بعد بھی سلسلہ قائم رہا ۔ اردو تنظیمیں اپنے اپنے انداز میں موثر کام کرتی رہیں اس مقصد کیلئے محبان اردو ، شاعروں اور ادیبوں کا بھرپور تعاون بھی حاصل رہتا تھا ۔ مشاہدہ میں یہ بات بھی آتی ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں نے بھی اس زبان کو پالا پوسا ۔ آج کئی ہندو گھرانوں میں اردو مادری زبان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ حیدرآباد کے کایستھ گھرانے میں بھی اردو مادری زبان کی حیثیت سے مقبول ہے ۔ اس گھرانے میں کئی شاعر و ادیب موجود تھے جنہوں نے اردو کو زندہ رکھنے میں اپنا خون جگر بھی دیا ۔ آج بھی کایستھ گھرانے میں اردو بہت مقبول ہے ۔ حیدرآباد کی ادبی و شعری تنظیموں نے اسکی بقا و فروغ کیلئے ایک عرصہ سے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں ۔ ان ہی چند تنظیموں میں بزم جوہر کا نام بہت معتبر حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ ادبی بزم مجاہد آزادی اور مجاہد اردو مولانا محمد علی جوہر کے نام سے منسوب کرتے ہوئے 1962میں قائم کی گئی جس کے اغراض و مقاصد میں اردو کی بقا اور اس کے جائز مقام کا حصول تھا ۔ اس بزم کے پہلے صدر باقر منظور تھے ، جن کا دور بھی ادب کیلئے ایک سنہرا دور تھا ۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کو سنوارنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کردیں ۔ اس کے بعد جناب عبدالغفار رفیق صدر رہے ۔ انھوں نے اس بزم کے زیر اہتمام کئی جلسوں اور شاعروں کا انعقاد عمل میں لایا اور اردو زبان و شاعری کو ایک زندگی بخشی ۔ بعد ازاں ممتاز شاعر جناب افضل تسلیم نے اس بزم کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالی اور انھوں نے بھی اس کے اغراض و مقاصد کو عمل میں لانے کیلئے مسلسل جد وجہد کی ۔
افضل تسلیم کے بعد آج تک حیدرآباد کی ایک نامور تاریخ داں اور شعلہ بیان مقرر مولانا عبدالرحمن الحامد صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ، جن کی خصوصی دلچسپی و ادب دوستی قابل تحسین و لائق ستائش ہے ۔ اس موڑ پر خصوصیت سے ممتاز شاعر و محسن اردو ڈاکٹر راہی پر نظر جاتی ہے ، جو بزم جوہر کے آغاز سے آج تک اس کے جنرل سکریٹری ہیں ۔ ایک طویل مدت تک جنرل سکریٹری کے عہدہ پر فائز رہنا اور پھر اس عہدہ کے ساتھ صحیح انصاف کرتے ہوئے اسکی بقا و فروغ میں مسلسل جد وجہد کرنا ماہانہ پابندی کے ساتھ تو ادبی اجلاس و مشاعرہ کا انعقاد عمل میں لانا ، اپنے اسلاف کے کارناموں کو ملت کے نوجوانوں تک پہنچانا ، اردو مسائل پر حکومتی سطح پر نمائندگی کرنا ، یقیناً ایک مجاہد اردوکا ہی کام ہوسکتا ہے ۔ اور اسی نقطہ نظر سے ڈاکٹر راہی کا ادبی سفر ، بڑی اہمیت و عظمت کا حامل ہے کہ انھوں نے ہر اعتبار سے اردو کے چمن کی اپنے خون جگر سے آبیاری کی ہے ، جو دور حاضر کا ایک طرہ امتیاز بھی ہے ۔ ڈاکٹر رہی معتمد بزم جوہر ایک ملنسار ، سادہ لوح ، ایک محسن اردو اور ممتاز شاعر کی حیثیت سے اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ ہر مہینہ بزم کے زیر اہتمام ادبی اجلاس و مشاعرے مختلف عنوانات پر منعقد کئے جاتے ہیں ۔ سیرت النبیﷺ پر جلسوں کا انعقاد اور سیرت امام حسینؓ ودیگر خلفائے راشدین کی سیرت کو اجاگر کرنے میں بزم جوہر ہمیشہ آگے رہا ہے ۔ خصوصاً بزم کو سالانہ جلسہ و مشاعرہ بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے تاکہ اس میں مولانا محمد علی جوہر کی خدمات سے ہماری نئی نسل واقف ہو ۔ مجاہد آزادی کی حیثیت سے مولانا محمد علی جوہر کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا ۔ بزم جوہر کے زیر اہتمام جلسے وار مشاعرے اردو گھر مغل پورہ ، اردو ہال حمایت نگر اور مسدوسی ہاوز مغل پورہ میں منعقد کئے جاتے ہیں ۔ حیدرآباد و اضلاع کے شعراء بھی بزم جوہر کے جلسوں اور مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں ۔ جو بزم جوہر اور ڈاکٹر راہی سے گہری وابستگی کا ثبوت ہے ۔ ہر مکتب خیال کا شاعر و ادیب اس تنظیم کو سراہتا ہے ۔ آخر میں دعا ہے کہ بزم جوہر کا سفر یونہی خوشگوار ماحول میں جاری رہے اور اس بزم کے دیرینہ جنرل سکریٹری ڈاکٹر راہی کو اپنی ادبی خدمات سے محبان اردو ، شعراء وادباء کی نظروں میں بلند مقام حاصل ہوتا رہے ۔ آخر میں راقم الحروف کا درج ذیل شعر محبان اردو سے اس طرح کی اپیل کرتا ہے کہ
طوفاں میں ہے کشتی اردو کی ، سب مل کے نکالیں آؤ اسے
اس وقت کوئی بھی سازش ہو اے دوست یہ تیرا کام نہیں