حلب اور مسلم دنیا

شام میں بشارالاسد حکومت اور اس کی حلیف روس حکومت کی کارروائیوں نے ساری دنیا کی سادہ آنکھ کو نم کردیا ہے۔ یہ جرائم اتنے سنگین ہیں کہ اس پر کوئی سوال نہ اٹھایا جانا بھی اس سے زیادہ مجرمانہ غفلت ہے۔ شام کے شہر حلب کو کھنڈر میں تبدیل کرنے والوں نے یہاں انسانی جانوں کو بری طرح تلف کرنے کیلئے کلورین گیس کا استعمال کیا، اندھادھند بمباری کی، اس میں یارل بم برسانا بھی شامل ہے۔ شامی شہریوں کو فاقہ کشی کیلئے مجبور کرنے، مریضوں کو دواخانوں کے بستروں پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جانا، خواتین کی عصمت ریزی کو جنگی ہتھیار بنانا یہ سب جرائم جب دنیا کھلی آنکھ سے دیکھ رہی ہے شام کی حکومت اور اس کے حلیف ملک کے خلاف عالمی کارروائیوں کیلئے مردہ دلی کا مظاہرہ ہورہا ہے تو یہ ایک افسوسناک المیہ ہے۔ حلب کی صورتحال پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جب کوئی انسان یا فرد یا تنظیم اور ادارہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر ہو، مجرمانہ کارروائیوں کی مذمت کرنے سے بھی پس و پیش کرتا ہو تو پھر اس انسانی دنیا کا سب سے بدترین واقعہ قرار پائے گا۔ حکومت شام نے اپنے ہی شہریوں کو بیدخل کرنے کیلئے فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ انصاف اور انسانی رحم کیلئے کوئی جگہ نہ ہونا ایک بدترین حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں انصاف کا دوہرا معیار مغربی جمہوریتوں کے شہریوں کے نزدیک کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ہے تو ان کا یہ موقف بھی انسانی حقوق کیلئے ان کی تڑپ ایک دکھاوا اور عارضی ردعمل کے سواء کچھ نہیں ہوسکتا۔ دنیا کے کسی اور ملک میں شام جیسے حالات پیدا ہوتے تو ان عالمی جمہوریتوں کا موقف اور رویہ مختلف ہوتا۔ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں نے شام کے معاملہ کو ایک ناکام پالیسی کا شکار بنادیا ہے۔ حلب سے اپنے ہی شہریوں کا تخلیہ کرانے کیلئے فوجی طاقت کا استعمال کرنے والے صدر شام بشارالاسد اس ملک پر کتنے دن اقتدار پر رہ سکیں گے یہ خود وہ واقف نہیں ہیں۔ شام کے صدر کی  حیثیت سے انہوں نے اس حکمران کی تاریخ میں سیاہ باب کو رقم کردیا ہے۔ ان کا مستقبل حلب میں اٹھنے والے دھویں کی طرح ہے کیونکہ دواخانوں میں زیرعلاج مریضوں، کمزوروں اور بچوں پر بمباری کرکے اگر کوئی طاقتور حکمراں خود کو فاتح سمجھ لے تو اس کی یہ سنگین غلطی ہے۔ روس کو حامی بتا کر شام میں پیدا ہوئے تنازعہ کا سیاسی  حل نکالنے کیلئے فوجی طاقت کا استعمال یکسر طور پر عالمی جنگی اصولوں کے مغائر سمجھا جائے تو عالمی تنظیموں اور مغربی دنیا کی طاقتور جمہوریتوں کو بشارالاسد حکومت کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی مانع حائل نہیں ہوگا۔ امریکہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ مل کر شام کی کیفیت اور تباہی پر ہنوز حکمت عملیاں بنانے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ شام میں امن و سکون اور انسانی جانوں کے تحفظ کا واحد راستہ اقتدار کی تبدیلی ہے۔ شام کے عوام کو مشکلات اور مصائب سے چھٹکارا دلانے کیلئے ٹھوس فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ شام میں 6 سال قبل جس بحران کو جنم دیا گیا تھا اس کو دور کرنے کیلئے اقتدار نے سمجھداری سے کام نہیں لیا بلکہ اپنی طاقت کے غلط استعمال کو ہی اقتدار کی برقراری کا ہتھیار سمجھ لیا گیا نتیجہ میں آج شام کے کئی علاقے قبرستان کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ کسی بھی ملک اور علاقہ میں خانہ جنگی ایک طویل عرصہ تک لڑی جاتی ہے تو شدید اور خطرناک تباہی بھی لاتی ہے۔ یہ ایک سب سے بڑی انسانی تباہی ہے۔ شام میں یہ معصوم لوگ اقتدار کے حصول کیلئے باہم تصادم ہونے والی دو طاقتوں کی زیادتیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ بشارالاسد حکومت کی سفاکانہ اور تباہ کن کارروائیوں کو فوری روکنے کیلئے بدقسمتی سے عالمی اداروں نے اپنا فریضہ ادا نہیں کیا ہے۔ کوئی بھی حکمراں عوامی بغاوت کے سامنے زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکتا۔ آج بشارالاسد کو ملنے والی خفیہ اور اعلانیہ فوجی حمایت نے انہیں انسانی تباہی کا لائسنس دیدیا ہے۔ حلب میں رونما ہونے والی صورتحال کو فراموش کرکے کوئی عالمی طاقت زیادہ دیر تک جبر و استبداد کو نظرانداز کرے تو اس تباہی کی بدنامی کے داغ سے ان کے دامن بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ شام میں داعش، ایرانی ملیشیا  اور حزب اللہ کا رول شامی عوام کیلئے تباہ کن بن چکا ہے تو مسلم دنیا کو جہنم زار بنانے والی سازشی طاقتوں کے کام مزید آسان ہوں گے۔ شام میں جو کچھ ہورہا ہے یہ ساری مسلم دنیا کیلئے خطرناک حالات کا پیش خیمہ ہے۔ بہرحال شام میں انسانیت سوز سلوک کو فوری ترک کرنے کیلئے انسانی ہمدرد تنظیموں اور حکمرانوں کو فوری آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان دشمن طاقتیں حلب میں کامیاب ہوجائیں تو دیگر مسلم و عرب ممالک کی کیفیت بھی بدل دی جائے گی لہٰذا عالم اسلام کی بڑی طاقتوں کو ہوش میں آنا ہوگا۔
مالیاتی بحران کے پانچ ہفتے
آر بی آئی نے پرانے اعلیٰ اقدار کے نوٹوں کی 8 نومبر کے بعد سے بینکوں میں جمع ہونے والی رقم کا ڈیٹا بتاتے ہوئے تشویش کا اظہار بھی کیا ہیکہ اس کے اندازہ کے مطابق 15.44 لاکھ کروڑ روپئے کی پرانی کرنسی جمع ہونی چاہئے تھی لیکن گذشتہ پانچ ہفتوں یعنی 10 ڈسمبر تک صرف 12.44 لاکھ کروڑ روپئے پرانے نوٹ جمع کئے گئے ہیں۔ اس کا مطلب مزید 3 لاکھ کروڑ روپئے کے پرانے نوٹ کالادھن رکھنے والوں کے پاس ہیں یا مالیاتی طور پر ذخیرہ اندوزی کرنے والوں نے اسے تلف کردیا ہے۔ اس ساری دوڑدھوپ کے باوجود آر بی آئی اور حکومت نے کالے دھن کو قابو میں کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھا ہے تو یہ عام شہریوں کو ناحق مصائب میں تبدیل  کردینے والے عمل کے سواء کچھ نہیں کہلائے گا۔ محکمہ انکم ٹیکس نے اپنی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گذشتہ پانچ ہفتوں کے دوران رقم اور زیورات کی شکل میں 393 کروڑ روپئے ضبط کئے اور بینک اکاؤنٹس میں ڈپازٹ کردہ غیرمحسوب دولت کا جائزہ لینے کیلئے 3000 نوٹس بھی جاری کی ہیں۔ 8 نومبر کے بعد سے مالیاتی بدعنوانیوں کی روک تھام کرنے والے اداروں نے اصل خاطیوں اور قانون توڑنے والوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی، جن کے پاس غیرمحسوب دولت تھی۔ انہوں نے کسی طرح اسے حساب کتاب میں لانے میں کامیابی حاصل کی۔ مشکلات کا سامنا کرنے والے عام شہریوں کے حق میں بینکوں اور اے ٹی ایمس کی طویل قطاریں ہی آرہی ہیں۔ حکومت نے مالیاتی اداروں سے جو ہنگامی خدمات حاصل کی ہیں اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ نئے نوٹوں کی بینکوں کو سربراہی کو یقینی بنائے تو  عوام کو ہر روز ہونے والی پریشانی سے نجات ملے گی۔ طویل مدتی یا مختصر مدتی جو بھی مالیاتی منصوبہ بنایا جاتا ہے اگر اس سے عام آدمی ہی پریشان ہوتا ہے تو پھر حکومت کی مالیاتی پالیسیاں ملک کے معاشی مستقبل کیلئے ایک معلق صورتحال کو جنم دیں گی۔ آج کی مالیاتی کیفیت اسی کا آئینہ معلوم ہوتی ہے۔