حق و انصاف کا حصول کتنا مہنگا ہوگیا

غضنفر علی خان
پچھلے چند دنوں میں بعض اہم عدالتی فیصلے آئے ۔ اتفاق سے یہ تینوں فیصلے ضمانت کے حصول کے لئے تھے اور تینوں فریقین کا تعلق ملک کے بے حد دولت مند ، صاحب ثروت اور رسوخ والے طبقہ سے تھا ۔ ملک کی عدالتوں میں کئی ایسے (لاکھوں کی تعداد میں) مقدمات ہیں ۔ لاکھوں بے بس ، بے سہارا زیر دریافت قیدی ہیں جو جیلوں میں سڑرہے ہیں ۔ انھیں کسی عدالت نے سزا نہیں سنائی ہے ۔ ان کے مقدمات کی سماعت بھی باقی ہے ۔ وہ ایسے کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس روپیہ پیسہ نہیں کہ کسی کامیاب تجربہ کار وکیل کی خدمات حاصل کرسکیں ۔ ان میں سے ایسے بھولے بھالے لوگ بھی ہیں جنھیں اس بات کا بھی علم نہیں کہ وہ سزا یافتہ نہیں ہیں بلکہ وہ زیر دریافت قیدیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ کتنی دردناک بات ہے کہ وہ اپنے حق انصاف سے یا تو بے خبر ہیں یا اگر جانتے بھی ہیں کہ انھیں حق عدل مل سکتا ہے تو وہ عدالتی کارروائی کے لئے اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ غربت و نکبت نے انھیں اپنے حق سے محروم کررکھا ہے ۔ دولت مند طبقہ انصاف حاصل کرسکتا ہے ۔ بڑے سے بڑے وکیل کو مقرر کرسکتا ہے ۔ کیا اس حقیقت سے یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے حق اور اپنے لئے انصاف حاصل کرنا دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت یعنی ہندوستان میں ناممکن ہو کر رہ گیا ہے پھر بھی ہم اپنی پارلیمانی جمہوریت پر ناز کرتے ہیں ۔ اپنے نظام انصاف و عدل پر فخر کرتے ہیں ۔ انصاف وہ ہوتا ہے جس میں ہر کسی کو برابر کا حق حاصل ہوتا ہے ۔

دولت کے بل بوتے پر ضمانت حاصل کرلینا الگ بات ہے اور اپنی مجبوریوں سے سمجھوتہ کرلینا جیسا کہ ملک بھر میں زیر دریافت قیدی کررہے ہیں ایک مختلف چیز ہے ۔ لیکن دونوں کا تعلق نظام انصاف ہی سے ہے جس ملک میں امیر باشندوں اور غریب باشندوں کیساتھ علحدہ علحدہ طریقے کاانصاف ہورہا ہے اس ملک میں حقیقی انصاف نہیں ہورہا ہے ۔ فلم اسٹار سلمان خان کی بات لیجئے ۔ انھوں نے حالت نشہ میں (بلکہ زیادہ بہتر یہ کہنا ہوگا کہ دولت کے نشہ میں) فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے 5 جیتے جاگتے انسانوں کو روند دیا ۔ غریب کی موت بھی آسانی سے نہیں آتی ۔ ان کی کار سے ٹکر کھائے ہوئے افراد شدید زخمی ہوگئے لیکن بچ گئے ۔ البتہ ایک نے مقام واردات پر ہی دم توڑ دیا ۔ گذشتہ 13 سال سے ’’ہٹ اینڈ رن‘‘ کا یہ مقدمہ عدالتو میں چل رہا تھا بالآخر بمبئی کی ایک عدالت نے انھیں (سلمان خان) کو 7 سال کی سزا سنائی جس غریب کو ٹکر دے کر سلمان خان نے مار دیا تھا اسکی مرگ ناگہانی پر تو سلمان خان نے ایک آنسو نہیں بہایا لیکن بمبئی کورٹ کے فیصلہ کے بعد فلمی صنعت کا یہ ’’دبنگ‘‘ روپڑا ۔ اپنے خلاف سزا کے فیصلے پر رونے والے سلمان خان نے کبھی سوچا کہ جس گھر کا فرد ان کی کار کی ٹکر سے مرا ہے اس گھر میں کتنے غم زدہ افراد نے بے تحاشہ آنسو بہائے ہوں گے ۔ غربت اور تنگ دستی نے انھیں اپنی آہنی گرفت میں حادثہ کے وقت بھی لے رکھا تھا اور آج بھی اسی گرفت میں ہیں ۔ اس طویل مقدمہ میں سزا بامشقت کا فیصلہ سننے کے بعد انھوں نے بمبئی ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست آناً فاناً پیش کردی اور صرف 48 گھنٹوں میں انھیں ضمانت بھی مل گئی ۔ ہنسی خوشی سلمان خان اپنے گھر آگئے جہاں زبردست جشن منایا جارہا تھا ۔ خدا جانے لوگ جن میں کئی معروف فلمی اداکار بھی تھے انھیں دھڑلے سے مبارکبادیاں بھی دے رہے تھے ۔ یہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب کار کی ٹکر سے مرنے والے فٹ پاتھی غریب کے گھر سے اس کی نعش اٹھی تھی ۔ یہ سب کے سب غائب تھے انھیں اس بات سے اختلاف تھا کہ بمبئی کورٹ نے کیوں 7 سال کی سزا ان کے ہیرو سنائی ۔ غریب تو روز ہی مرتے ہیں ان کے ماتم میں کوئی پکار کر نہیں روتا ۔ وہ خاک پر سوتے ہیں اور پھر وہیں پیوند خاک ہوجاتے ہیں ۔ عدالتی فیصلے میں سلمان پر قتل کا الزام ثابت ہوا ۔ ان پر نشہ کی حالت میں گاڑی چلانے کا الزام ثابت ہوا لیکن اس کے باوجود بااثر لوگ ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے پر انھیں مبارکباد دے رہے تھے ۔ یہ کیسا انصاف ہے ۔ 13سال کے بعد 7 سال کی قید کی سزا اور صرف 9 گھنٹوں میں ضمانت کا مل جانے میں کوئی تناسب نہیں ۔ وہ دولت مند تھے بہتر رسوخ رکھتے تھے اس لئے جو سزا 13سال پہلے سلمان خان کو ملنی چاہئے تھی وہ 13سال بعد تحت کی عدالت نے دی لیکن انھیں صرف 48 گھنٹوں میں نجات مل گئی ۔ فٹ پاتھ پر صرف غریب و نادار لوگ ہی سویا کرتے ہیں اس لئے کہ زندگی ان پر اتنی نامہربان رہی کہ کبھی چھت نصیب ہی نہ ہوگ ۔ ہندوستان میں بے گھر لوگوں کی تعداد مغربی یوروپ کے کسی بھی خوشحال ملک کی کل آبادی کے برابر ہوگی ۔ یہ بے گھر اس لئے فٹ پاتھ پر نہیں سوتے کہ کوئی اہل ثروت اپنی دولت کے نشہ میں انھیں کچل دے ، یہ مزدور پیشہ محنت کش لوگ ہوتے ہیں انھیں فٹ پاتھ پر ہی نیند آتی ہے ۔

سوجاتا ہے فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا
یہ دولت مند افراد کے لئے حصول انصاف کے سہل ہونے کی مثال تمل ناڈو کی چیف منسٹر جئے للیتا سے ملتی ہے موصوفہ کو بھی کرناٹک ہائی کورٹ نے غیر متناسب اثاثہ جات کی پاداش میں سزا سنائی تھی ۔ لیکن کچھ ماہ قید میں رہنے کے بعد پچھلے ہفتہ انھیں بھی کورٹ نے الزام سے بری کردیا ۔ کہا جاتا ہے کہ نہایت مہنگے اور قابل وکلا کی ایک ٹیم جس میں کئی وکلاء نے 24 گھنٹوں ان کی پیروی کی تیاری کیا کرتے تھے ۔ تمل ناڈو میں بھی ہزاروں زیر دریافت قیدی ہیں جنھیں ضمانت میسر نہیں ہوتی ۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے جبکہ تمل ناڈو کے 20 مزدوروں کو آندھرا پردیش کے علاقہ میں صندل کی لکڑی کاٹنے کے جرم میں آندھرا پولیس نے گولی مار کر ختم کردیا کیونکہ وہ مزدور تھے ان کے پاس کوئی وسیلہ نہ تھا ۔ آج بھی ان 20 مزدوروں کی موت کا افسوس ہے ۔ گولی تو ان لوگوں کو مارنی چاہئے تھی جو ان مزدوروں سے صندل کی لکڑی کی کٹائی کررہے تھے ۔ لیکن ان تک تمل ناڈو یای آندھرا پردیش کے سیاستدانوں کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے ۔ کسی کو تو مارنا تھا لہذا 20 مزذوروں کو ہلاک کرکے حکومت نے اس کو کارنامہ قرار دے رہی ہے ۔ یہ مزدور یہ غریب بے نوا طبقہ آج تک انصاف نہ پاسکا ۔ ہمیشہ ہی استحصال کا شکار رہا ۔

تو عادل و قادر ہے مگر تیرے جہاں میں
ہے کم بہت بندہ مزدور کی اوقات
انصاف و ضمانت پر رہائی صرف دولت مندوں کے بس کی بات ہے۔ اس کا ثبوت ستیم کمپنی کے سزا یافتہ اعلی عہدہ دار راجو اور ان کے ساتھ دینے والے تمام ملزمین کو ضمانت ملنے سے بھی ملتا ہے ۔ حالانکہ ایک عرصہ تک میڈیا نے بڑے زور و شور سے کہا تھا کہ ستیم کمپنی کا اسکینڈل کروڑہا روپے کا ہے اور اس میں کسی کو بچایا نہیں جاسکے گا ۔ دولت سب کچھ کردیتی ہے شاید یہ کہنا درست نہ ہو لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ دولت بہت کچھ کراسکتی ہے ۔ جن 3 واقعات کو بیان کیا گیا ہے وہ ان لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کو خود اپنی دولت کا صحیح اندازہ نہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہرچیز خریدی جاسکتی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہر چیز فروخت ہوتی ہو لیکن دولت کی قوت خرید کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔