حق نے تم کو نوعِ انساں کا بنایا تھا امام

ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

روئے زمین پر کوئی انسان ایسا نہیں ہے، جسے مشکلوں، رکاوٹوں، تکلیفوں، مصیبتوں، اندیشوں، خدشوں، خطروں اور آزمائشوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو یا کوئی ان سب سے مبرا ہو، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کا مطلوب ہدف جتنا بڑا ہوگا، آزمائش و امتحان کی شدت اسی قدر زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً مال و متاع کمانے کا ہدف ہر انسان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اسی پر ظاہری زندگی کے گزر بسر کا انحصار ہے۔ دولت اکٹھا کرنا انسان کا ایسا محبوب ہدف ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر اولادِ آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہو جائیں، جب کہ اس کے منہ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہ بھر سکے گی‘‘۔ (متفق علیہ)

اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ انسان مالدار بننے کی چاہت کو پورا کرنے کے لئے اپنے آرام اور سکون کو قربان کردیتا ہے اور انسان کو اس دولت کے حصول کے لئے بڑی محنت و مشقت، آزمائشی اَدوار اور ناگہانی واقعات سے گزرنا پڑتا ہے۔ چوں کہ مال و دولت ہر انسان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کی فطرت اس کی طرف مائل رہتی ہے، اسی لئے اس کو مال کہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد حصولِ دولت یا مال و متاع جمع کرنا نہیں، بلکہ انسان کو عبادت الہٰی کے لئے پیدا کیا گیا ہے، جس کی بنیاد ایمان ہے، یعنی انسان کے لئے سب سے عظیم نعمت دولتِ ایمان ہے۔ چوں کہ مال کسی کو بھی مل سکتا ہے، لیکن نورِ ایمان سے ان ہی مبارک ہستیوں کے قلوب منور ہوتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص ہوتی ہے۔ مال سے انسان کا ظاہر سنور سکتا ہے، لیکن ایمان سے انسان کے باطن کا تصفیہ ہوتا ہے۔ مالِ دنیوی خوشحالی کا ذریعہ ہے، جب کہ ایمان دنیوی کامیابی اور اخروی کامرانی کا سبب ہے۔ مال سے انسان گمراہی کا شکار ہوسکتا ہے، جب کہ ایمان انسان کو متقی و پارسا بنا دیتا ہے۔ مال کی محبت کی وجہ سے انسان دنیوی مشاکل و اخروی عذاب میں گرفتار ہوسکتا ہے، جب کہ ایمان کی چاہت سے انسان کو دنیوی و اخروی سرفرازیاں ملتی ہیں۔ مال سے جسمانی سکون مل سکتا ہے، لیکن ایمان سے انسان کو ذہنی، جسمانی، روحانی اور قلبی اطمینان ملتا ہے۔ مال انسان کو دنیاوی مصائب سے نجات دِلا سکتا ہے، لیکن ایمان انسان کو دنیوی آلام اور اخروی عذاب سے بچاتا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ نعمتِ ایمان کے مقابل مال کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔
مال، جو ایمان کے مقابل کمتر ہے اور اس کے حصول کے لئے انسان کو سخت آزمائشی اَدوار سے گزرنا پڑتا ہے، تو ایمان جو مال کے مقابل اعلیٰ و ارفع نعمت ہے، کیا اس کے حصول کے لئے ہمیں کٹھن مراحل سے گزرنا نہیں پڑے گا؟۔ حقیقت کے اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رب کائنات ارشاد فرماتا ہے: ’’کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انھیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہیں ہم ایمان لے آئے اور انھیں آزمایا نہیں جائے گا‘‘ (سورۃ العنکبوت۔۲) یعنی ایمان کے لئے آزمائش ایک دائمی سنت الہٰی ہے۔

چوں کہ ایمان کوئی ایسی نعمت نہیں، جو صرف زبانی ادعا سے حاصل ہو جائے گی، بلکہ اس بیش بہا نعمت کے حصول کے لئے انسان کو ابتلا و آزمائش کے شدید امتحان سے گزرنا پڑے گا۔ جس کا عملی نمونہ ہمیں حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کتاب حیات میں ملتا ہے، جس کا ہر ورق ابتلا و آزمائش اور جذبۂ ایثار و قربانی سے مملو ہے۔ رب قدیر ارشاد فرماتا ہے: ’’اور یاد کرو جب آزمایا ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے چند باتوں سے تو انھیں پورے طورپر بجالائے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۱۲۴) یعنی رب کائنات جو بھی گراں قدر ذمہ داری آپ کے تفویض کی، آپ نے اسے بحسن و خوبی اور بہتر طریقے سے انجام دیا۔ نمرود سے مناظرہ کرنا ہو، نارِ نمرود میں ڈالے جانے کا واقعہ ہو، قوم کی ہٹ دھرمی کے باعث وطن عزیز سے ہجرت کرکے ملک شام کو روانہ ہونا ہو، طویل عرصہ تک اولاد کی آرزو و تمنا کرنا ہو، خشک اور بے آب و گیاہ وادی میں اہل و عیال کو چھوڑنا ہو، لخت جگر کی عظیم قربانی پیش کرنا ہو، ہر کٹھن و دشوار کن مرحلہ کو آپ نے استقامت ایمانی کے ساتھ سرکیا تو رب ذوالجلال نے آپ کو خوش خبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’بے شک میں بنانے والا ہوں تمھیں تمام انسانوں کا پیشوا‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۲۴)
چنانچہ آج بھی دنیا کی تین بڑی اقوام (یعنی مسلمان اور یہود و نصاریٰ) حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور ہادی مانتی ہیں۔ جیسے ہی آپ کو یہ نوید سنائی گئی، آپ نے اپنی اولاد کی بابت دریافت کیا تو رب کائنات نے جواباً ارشاد فرمایا: ’’میرا وعدہ ظالموں تک نہیں پہنچتا‘‘ یعنی اس منصب امامت کے حقدار وہی لوگ ہوں گے، جو سنتِ ابراہیمی پر عمل پیرا ہوں گے، جو لوگ سنت ابراہیمی سے اعراض کرتے ہوئے اپنے آپ پر ظلم کریں گے، وہ امامت کے حقدار نہیں رہیں گے۔

آج مسلمان دنیا کے ہر خطے میں بے چینی، ناکامی، کسمپرسی اور غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے، چوں کہ ہم نے جذبۂ ایثار و قربانی سے پہلو تہی کرلی ہے اور ظلم کے دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ دنیا کی دو روزہ زندگی کو سنوارنے کے لئے شرعی حدود کی پامالی کرکے اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل موبائل، انٹرنیٹ اور جدید ٹکنالوجی کا بے مقصد استعمال کرکے قیمتی وقت ضائع کر رہی ہے۔ بعض نوجوان لڑکے جہیز کی خطیر رقم حاصل کرنے کے لئے لڑکیوں کو طلاق دے کر ظلم کر رہے ہیں۔ بعض لڑکیاں اپنی من پسند زندگی گزارنے کی غرض سے لڑکوں سے خلع لے کر ظلم کر رہی ہیں۔ سرپرست اپنے ماتحتوں کی بروقت اسلامی خطوط پر تربیت نہ کرکے ظلم کر رہے ہیں۔ چھوٹے اپنے بزرگوں کا احترام نہ کرکے اور ان کے تجربات سے نہ سیکھ کر ظلم کر رہے ہیں۔ شادی خانے والے محل نما شادی خانے تعمیر کرکے اور تاجرین انتہائی قیمتی لباس فروخت کرکے عوام الناس کو اسراف کی دعوت دے کر ظلم کر رہے ہیں۔ اہل منصب و اختیار اپنے اثر و رسوخ کا غلط اور اپنے مفاد کے لئے استعمال کرکے ظلم کر رہے ہیں۔ اہل ثروت اپنے پیسہ کا بے دریغ اور غلط کاموں میں استعمال کرکے ظلم کر رہے ہیں۔ غریب اپنی غربت کا غلط فائدہ اُٹھاکر ظلم کر رہے ہیں۔ نااہل لوگ علماء و صوفیہ کا لباس زیب تن کرکے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرکے ظلم کر رہے ہیں۔ الغرض کونسا ایسا ظلم ہے، جس سے آج ہمارا مسلم معاشرہ محفوظ و مامون ہے؟۔ یہی وجہ ہے کہ جس قوم کو خالق کائنات نے امامت کا منصب عطا کیا تھا، وہ آج محکوم نظر آرہی ہے۔
دنیا میں سوائے مسلمانوں کے آج ہر قوم کی عزت ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ لہذا ہمیں صمیم قلب اور حسن نیت کے ساتھ اپنی ناکامیوں کا تدارک کرنا پڑے گا اور سیرت حضرت سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام سے ہمیں جو جذبۂ ایثار و قربانی کا درس ملتا ہے، اس جانب نہ صرف فوری توجہ کرنی ہوگی، بلکہ عملی اقدامات بھی کرنے پڑیں گے۔
خالقِ کونین کا اپنے خلیل کو آزمائشی ادوار سے گزارنے کا واحد مقصد یہی تھا کہ دنیا کو اس حقیقت کا پتہ چل جائے کہ مقاماتِ رفیعہ تک رسائی حاصل کرنا صرف زبانی دعووں سے ممکن نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے شدید امتحانات سے گزرنا پڑے گا۔ لہذا جب تک ہمارے اندر ہر معاملے میں تن آسانی اور نفسانی خواہشات کو قربان کرنے کا جذبہ نہیں پیدا ہوگا، اس وقت تک نہ ہم دنیا کی امامت کا حق ادا کرسکیں گے اور نہ ہی عزت و وقار کی زندگی گزار سکیں گے۔