حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی9 تلواریں

محمد ریاض احمد
پاکستان میں فوج نے صوبہ خیبرپختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں ملکی وغیر ملکی عسکریت پسندوں کے صفائی کے لئے جو ’’ضرب عضب‘‘ نامی فوجی کارروائی شروع کی ہے اس کے بارے میں نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں زبردست تجسس پایا جاتا ہے۔ لوگ یہ جاننے کے خواہاں ہیں آخر اس فوجی کارروائی کو ضرب عضب کا نام کیوں دیا گیا؟ دراصل عضب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تلوار کا نام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک صحابی سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوۂ احد سے قبل بطور ہدیہ پیش کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہ الانصاری ؓ کو لڑنے کے لئے عطا فرمائی۔ دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ عضب تلوار جس کے معنی تیز چلنے والی اور تیز دھار تلوار ہے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجی تھی اور پھر آپ نے اسے غزہ احد میں استعمال کیا۔ اس تلوار کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جاں نثاری کے لئے صحابہؓ یہ تلوار دکھایا کرتے تھے۔ یہ مشترک تلوار فی الوقت مصر کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہمیشہ ہتھیاروں سے لیس رہنے کا درس دیا ہے تاکہ دنیا میں کے مظلوموں، کمزوروں، بے بسوں و بے کسوں کو ظالموں کے جبر و استبداد ان کے ظلم و بربریت سے محفوظ رکھا جائے ۔ انسانیت کی بقاء کو یقینی بنایاجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جملہ 9 تلواریں تھیں اور آج بھی وہ تلواریں پوری آب و تاب کے ساتھ محفوظ ہیں۔ ان 9 تلواروں میں ذوالفقار، البتار، الماثور، الرسوب، المخذم، حتف،قلعی، القضیب اور العضب شامل ہیں۔ سب سے پہلے ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار الذوالفقار کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں۔ دنیا کو ان مقدس و متبرک تلواروں سے واقف کروانے میں محمد بن حسن محمد التہامی کا اہم رول رہا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں اور جنگی ساز و سامان (آلات حربی) کے بارے میں انہوں نے ایک مقالہ تحریر کیا تھا، جس کے لئے 1929ء میں انہیں ان تلواروں کی تصاویر لینی پڑیں۔ ان 9 تلواروں میں 8 تلواریں توپ کاپی میوزیم استنبول میں موجود ہیں اور ایک تلوار مصر کی مسجد الحسین بن علی میں بڑے ہی اہتمام کے ساتھ رکھی گئی ہے۔ ان تلواروں کی لمبائی 90 تا 140 سنٹی میٹر بتائی گئی ہے۔

الذوالفقار تلوار کے نام کے ساتھ ہی داماد رسول حضرت علی ؓ ابن ابی طالب کا اسم مبارک زبان پر آ جاتا ہے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ الذوالفقار تلوار دو دھاری ہونے اور اس پر دو نوک والے نقش و نگار کے باعث خاص شہرت رکھتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ کے استعمال میں رہنے کے باعث تاقیامت اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ روایت کے مطابق الذوالفقار جنگ بدر میں مال غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی اور بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے چچازاد بھائی اور داماد حضرت علیؓ کو پیش کیا تھا۔ روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ الذوالفقار آل رسول ؐ میں کئی نسلوں تک رہی۔ حضرت علیؓ نے جنگ احد میں اسی تلوار سے کفار کے پیر اکھاڑ دیئے تھے۔ اب یہ تلوار استنبول میں واقع توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے اور دنیا بھر سے آنے والے سیاح بالخصوص مسلماناس تلوار کی زیارت کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ حضور اکرم ؐ کی تلواروں میں سے ایک البتار تلوار بھی ہے اور اس کے بارے میں مسلمان کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی بہت دلچسپی پائی جاتی ہے۔ البتار دراصل السیف القاطع یعنی کاٹ دینے والی تلوار ہے اور البتار کے معنی ہی کاٹ دینے والی تلوار کے ہوتے ہیں۔ روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ البتار تلوار اصل میں جالوت کی تھی حضرت داؤد ؑ نے اس کا سرقلم کیا تھا۔ اس تلوار پر ایک تصویر بھی ہے جس میں حضرت داؤد ؑ کو جالوت کا سر قلم کرتے ہوئے دکھایاگیا ہے۔ البتار سیف الانبیاء یعنی انبیاء کی تلوار بھی کہلاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر حضرت داؤد، ؑ حضرت سلمان ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ،حضرت ہارون ؑ ، حضرت یسع ؑ، حضرت ذکریا ؑ ، حضرت یحییٰ ؑ،حضرت عیسیٰ ؑ، اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارکہ کندہ ہیں۔ البتار تلوار کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی تلوار سے حضرت عیسیٰ ؑ دجال کا مقابلہ کریں گے۔ اس تلوار پر ایک ایسا نشان بھی ہے جو اردن کے شہر البتراء کے قدیم باشندے اپنی ملکیت کے اشیاء پر بنایا کرتے تھے۔ 101 سنٹی میٹر یمنی البتار تلوار مسلمانوں کو پثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ہوئی یہ۔ تلوار بھی استنبول کے توپ کاجی میوزیم میں موجود ہے۔

اب چلتے ہیں الماثور تلوار کی طرف یہ تلوار ماثور الفجر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس تلوار کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ حضور اکرم ؐ کو اپنے اباجان حضرت عبداللہ سے وراثت میں ملی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے تشریف مدینہ منورہ ہجرت کئے اس وقت الماثور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی بعد میں دیگر سامان حربی کے ساتھ یہ تلوار بھی حضرت نبی کریم ؐ نے حضرت علیؓ کو منتقل کردی۔ الماثور کا دستہ سونے کا ہے اور اطراف سے مڑا ہوا بھی ہے۔ اس دستے پر زمرد اور فیروز جڑے ہوئے ہیں۔ 99 سنٹی میٹر بھی الماثور پر عبداللہ بن عبدالمطلب کندہ ہے۔ حضور ؐ کے 9 تلواروں میں سے ایک تلوار الدسوب بھی ہے اس کے معنی اندر گھس جانے والی تلوار کے ہیں یہ سب سے لمبی تلوار ہے جس کی لمبائی 140 سنٹی میٹر ہے اور نسل درنسل آپ ؐ تک پہنچی۔ اس تلوارپر سنہرے دائرے بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ میان پر بھی سنہرے دائرے پائے جاتے ہیں۔

تلوار پر جو سنہرے دائرے بنے ہوئے ہیں ان پر حضرت امام جعفر صادق ؓ کا اسم پاک کندہ ہے۔ اسے بھی آپ ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک اور تلوار المخذم ہے اس کے معنی بھی کاٹ دینے والی ہے۔ المخذم تلوار کے بارے میں دو روایات ہیں ایک روایت یہ ہے کہ حضور اکرم ؐ نے یہ تلوار حضرت علی ؓ کو خود عنایت فرمائی تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ شامیوں کے ساتھ مصر میں حضرت علی ؓ کو یہ مال غنیمت کے طور پر ملی تھی۔ 97 سنٹی میٹر لمبائی کی حامل اس تلوار پر حضرت امام زین العابدین کا نام کندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ المخذم تلوار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی ؓ اور پھر آپ کے فرزندان تک منتقل ہوتی رہی۔ اس تلوار کا مشاہدہ بھی استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں کیا جاسکتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ پاکستان اپنے میزائلوں کے نام حتف I حتف II وغیرہ رکھتاہے۔ حتف بھی دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تلوار کا نام ہے۔ حتف کے معنی مارنا ہے۔ اسے حتف السیف یعنی مار دینے والی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس بنی اسرائیل کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل چلی آرہی تھی۔ یہ تلوار بھی ہمارے نبی ؐ کو یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیت میں حاصل ہوئی۔ روایتوں میں آیا ہے کہ حتف کو حضرت داود ؑ نے خود تیار کیا تھا کیونکہ اللہ عزوجل نے انہیں فولادی سازو سامان اور ہتھیار بنانے میں غیر معمولی مہارت عطاکی تھی۔ اگرچہ یہ تلوار البتار کی طرح ہے لیکن حجم میں بڑی ہے اس کی لمبائی 112 سنٹی میٹر اور چوڑائی8 سنٹی میٹر ہے۔ حضور اکرم ؐ کی تلواروں میں سے ایک ’’القلعی‘‘ نامی تلوار ہے۔

اس کے نام سے ایسا لگتا ہے کہ اس کا تعلق شام ہندوستان یا چین کے کسی سرحدی علاقہ سے ہو۔ 100 سنٹی میٹر لمبی یہ تلوار بھی آپ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں دیکھ سکتے ہیں۔ تلوار قلعی بھی یہودیوں کے قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ہوئی۔ اکثر محققین، اس تلوار کے نام کے بارے میں کہتے ہیں کہ قلعی ایک قسم کی دھات ہے جو دیگر دھاتی اشیاء کو چمکانے یاان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے مکہ مکرمہ میں جب چاہ زم زم، زمزم لگوایا تھا یہ تلوار وہاں دستیاب ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قلعی تلوار کو وہاں نبی اسماعیل کے سسرالی قبیلہ نے دفن کیا تھا۔ اس تلوار پر عربی میں یہ تحریر کنندہ ہے ’’یہ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کی تلوار ہے‘‘ تلوار بلیٹ کے باعث دوسرے تلواروں سے بالکل جدا گانہ ہے۔ حضور ؐ کی ایک اور تلوار القضیب ہے عربی میں اس کے معنی کٹی ہوئی شاخ یا بناء سدھائی ہوئی اونٹنی کے ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بہت پتلی اور کم چوڑائی والی ہے۔ اگرچہ یہ تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہی ضرور لیکن کسی غزوہ میں استعمال نہیں ہوئی۔ اس تلوار پر چاندی سے ’’لاالہٰ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘، لکھا ہوا ہے۔ یہ تلوار ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں موجود رہی ۔ روایتوں میں آیا ہے کہ اسے فاطمیوں کے دور میں استعمال کیا گیا۔ یہ تلوار بھی استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں موجود ہے۔ بہرحال اکثر لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں اور دیگر سامان حربی کے بارے میں واقف نہیںہے۔ آپ ؐ نے اپنے پاس جو بھی ہتھیار رکھا اس سے مسلم حکمرانوں کو یہ پیام ملتا ہے کہ اپنے دفاعی ذخائر کو ہمیشہ عصری اسلحہ سے بھرا رکھنا چاہئے کیونکہ جس کے پاس عصری ٹکنالوجی اور اسلحہ ہوں گے اس سے دنیا کی دیگر طاقتیں خائف رہیں گی۔ ورنہ اپنے حکم کی غلام بنالیں گی۔
mariyaz2002@yahoo.com