حضرت ڈاکٹر سید شاہ گیسودراز خسرو حسینی ممتاز مشائخ و ماہر تعلیم

ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
خانوادۂ بندہ نوازؒ کے بارے میں کچھ تحریر کرنے والا ان کے ہزاروں لاکھ مداحوں کی فہرست میں خود کو شامل کرکے فخر و انبساط محسوس کرتا ہے۔ نورِ نگاہ حضرت بندہ نواز حضرت مولانا ڈاکٹر سید شاہ گیسودراز خسرو حسینی علم و عرفان، فہم و فراست، تعلیم و تحقیق، یقین محکم، سعی پیہم، جہد مسلسل، حرارت ایمانی، نور روحانی کی حامل شخصیت ہیں۔ جس کے ایک ایک پہلو پر کئی صفحات قلمبند کئے جاسکتے ہیں۔ یہ تعلیمی نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں کسی مذہبی اور خانقاہی ادارہ نے ایسا عظیم الشان اور فقیدالمثال کارنامہ انجام دیا ہو۔ حضرت خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی کے قیام نے وطن عزیز ہندوستان کو عالمی نقشہ میں ممتاز مقام کا حامل بنادیا ہے۔ نسب کا عروج کہ خانوادہ بندہ نواز سے ربط محکم اور نسبت قوی رکھتے ہیں۔ حضرت سید شاہ محمد محمد الحسینیؒ کے چشم و چراغ ہیں حضرت ڈاکٹر سید محمد گیسودراز حسینی المعروف خسرو حسینی، اعتدال و تناسب کے قدر عنا میں مسکراہٹ بکھیرتے منور چہرے کی پل پل ذہانت فطانت بکھیرتی آنکھیں عشرت فطرہ اور دریا دلی کی بھی قائل ہیں۔ سادگی، سادہ مزاجی، عجز و انکساری، قرب و محبت کے علاقے تلاش کرنے والی گفتگو میں درد سے موانست، ہمدردی اور دردمندی بھی ہے۔ حافظ شیرازی نے فرمایا تھا :
تاصد ہزار خار نمی روید از زمیں
از گلبنے گلے بہ گلستاں نمی آید
لیکن پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالحمید اکبر (گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ شریف) کے گہرے مطالعہ نے ان کی علمی خدمات کی جو تصویر کھینچی ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔
ڈاکٹر محمد عبدالحمید اکبر حضرت خسرو حسینی کی شخصیت کے بارے میں رقمطراز ہیں ’’حضرت سید شاہ محمد محمدالحسینی قبلہ کے وصال کے بعد ان کے خلف اکبر ڈاکٹر سید شاہ گیسودراز خسرو حسینی صاحب تیئسویں سجادہ نشین حضرت خواجہ دکن سیدنا بندہ نواز گیسودراز علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے بزرگوں کے سچے جانشین ثابت ہوئے۔ مقولہ عربی یعنی فرزند اپنے والد کا بھید ہوتے ہیں کے مصداق مکمل توانائی کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہمہ تن مصروف عمل، بلکہ علمی و ثقافتی اُمور کی بجاآوری کے لئے وقف ہوچکے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ کی نسبت باب العلم فاتح خیبر حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ و رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ذات والا صفات سے ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت 10 ستمبر 1945 ء کو حیدرآباد میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گرامر اسکول سے حاصل کی۔ 1965 ء میں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے گریجویشن کی تکمیل کی اور دو سال بعد 1967 ء میں ایم اے عربی میں کامیابی حاصل کی۔ 1975 ء میں میک گل یونیورسٹی کنیڈا سے اسلامک اسٹڈیز اور صوفی ازم میں تخصص کرکے ایم اے کی ڈگریاں حاصل فرمائیں۔ تصوف کے موضوع پر حضرت کے گراں قدر تحقیقی کام پر بیل فورڈ یونیورسٹی امریکہ نے انھیں پی ایچ ڈی (Ph.D) کی اعلیٰ ڈگری تفویض کی۔ 2004 ء میں اس یونیورسٹی نے اسلامک اسٹڈیز (صوفی ازم) پر ان کی خدمات کو تحقیقی کارنامہ قرار دیتے ہوئے ڈی لٹ (ڈاکٹر آف لٹریچر) کی اعلیٰ ترین ڈگری عطا کی۔ تحصیل علوم کے ساتھ ساتھ آپ کی متحرک اور فعال فکری استعداد کو دیگر تعلیمی و صحافتی اداروں سے وابستگی ہی سے اطمینان و آسودگی حاصل ہوتی چنانچہ نصر ایجوکیشن سوسائٹی خیریت آباد حیدرآباد کے بورڈ آف ڈائرکٹرس میں آپ 1985 ء سے شامل ہیں۔ تعلیمات اسلامی کا نقیب سہ ماہی تحقیقی رسالہ ’’اسلامک کلچر‘‘ حیدرآباد (جس کے بانی نظام ہفتم میر عثمان علی خان تھے) کے 1984 ء تا 1986 ء آپ ڈائرکٹر رہے اور 1986 ء سے 1996 ء تک اس رسالے کی مجلس ادارت کے رکن بھی رہے۔ حضرت سید شاہ خسرو حسینی کی ذات میں شامل ان کی متنوع صلاحیتوں نے جہاں کرناٹک وقف بورڈ میں دو سال تک رکن کی حیثیت سے انھیں مصروف رکھا وہیں پر بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں مقبول جامعہ نظامیہ جیسی معتدل افکار و نظریات کی حامل اسلامی یونیورسٹی میں بھی ایک اہم رکن کی حیثیت سے گزشتہ پندرہ سال سے انھیں وابستہ رکھا ہے۔ 2002 ء سے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر نئی دہلی کے مستقبل ممبر ہیں اور 2006 ء سے جمعیۃ العلماء دکن کے بھی آپ رکن ہیں۔ 1991 ء سے کل ہند صوفی کانفرنس کے بانی اور صدرنشین ہیں۔
حضرت سید شاہ خسرو حسینی کی ہمہ پہلو شخصیت کے پیش نظر مختلف اداروں کی جانب سے انعامات اور اعزازات عطا کئے گئے جن میں کے بی این انجینئرنگ کالج، بی بی رضا ڈگری کالج، سیرت النبی اکیڈیمی حیدرآباد، جشن اعتراف خدمات کمیٹی گلبرگہ، اہل سلسلہ چشتیہ نظامیہ، گیسودرازیہ پونے، جشن فیضان بندہ نواز پونے، رحمت عالم کانفرنس ہبلی کے علاوہ زراعت میں ترقی یافتہ کاشت کار کی حیثیت سے نمایاں کامیابی پر ڈسٹرکٹ اگریکلچرل سوسائٹی اور ڈپارٹمنٹ آف اگریکلچر گلبرگہ وغیرہ کے انعامات قابل ذکر ہیں۔ آپ کی دلچسپی اور مصروفیات میں تحقیق، پڑھنا لکھنا، تعمیری طریقہ کار، خاکہ بندی، مصوری اور کھیل وغیرہ ہیں۔ لسانی استعداد و مہارت کے لحاظ سے پڑھنے اور گفتگو کرنے میں انگریزی، عربی، اُردو، فارسی، ہندی اور فرنچ زبانیں شامل ہیں۔ درس و تدریس سے بھی آپ کو شغف رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی کے مسائیہ کالج میں عربی کے لکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1984 ء میں انڈو جرمن سوسائٹی کی دعوت پر آپ نے تصوف کے موضوعات پر گیارہ مختلف توسیعی خطبات دیئے جہاں کے شرکاء نے اس کی کافی پذیرائی کی۔ آپ کے مطبوعہ تصانیف میں دو انگریزی میں ایک اُردو میں ہے۔ انگریزی میں سید محمد الحسینی گیسودراز ان صوفی ازم 1983 ء میں شائع ہوئی تھی۔ اُردو میں آپ کی تصنیف لطیف ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔
اس کتاب میں دو حصے ہیں پہلا حصہ نعت کے موضوع پر نہایت محققانہ مقالہ ہے جو فن نعت و نعت گوئی، خوش الحانی کے اُصول و اداب میں ہے۔ آپ کی نعتوں میں وابستگیٔ رسولؐ اور یادِ نبیؐ سے دل کی بستی روشن و منور نظر آتی ہے۔ مثلاً ان کے چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں :
تیرے بغیر زندگی کیسے بسر کریں گے ہم
تجھ سے ہے زندگی میری تجھ کو نذر کریں گے ہم
بہت یاد خسروؔ ہے آتا مدینہ
نہ چھوٹے کبھی یہ حرم یا محمد ﷺ
دل کی بستی میں کہاں وسعت سما کوئی سکے
ایک ہی تو آپ ہیں جس کو نہاں پایا ہوں میں
بہرحال گلبرگہ شریف کے ادبی منظر نامے کی کوئی تاریخ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کے تذکرہ کے بغیر ادھوری رہے گی۔ (حضرت ڈاکٹر خسرو حسینی بھی اس کی ایک کڑی ہے) تاحال ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ وہ اولین سخن ور ہیں، جنھوں نے اُردو دکنی کی داغ بیل دکن میں ڈالی جو بعد میں وہی شعر و ادب کا ایک تناور درخت بن گیا۔
نیست کعبہ در دکن جذ درگائے گیسودرازؒ
بادشاہ دین و دنیا تا ابد بندہ نوازؒ