حضرت مولانا خواجہ شریف کا سانحہ ارتحال

جامعہ نظامیہ میں نماز جنازہ اور محبوب نگر تدفین
حیدرآباد۔14ڈسمبر(سیاست نیوز) حضرت العلامہ مولانا استاذ المحدثین خواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ و بانی و مہتمم المعھد الدینیہ العربیہ شاہ علی بنڈہ اسری دواخانہ میں دوران علاج دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ مولانا کے سانحۂ ارتحال کی اطلاع کے ساتھ ہی علمی حلقوں میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی اور یہ خبر دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے لگی جس کے نتیجہ میں ان کے مکان واقع خلوت مبارک پر پرسہ دینے والوں کا ہجوم ہوگیا۔ شہر حیدرآباد کی معزز و معتبر ترین علمی شخصیتوں میں شمار کئے جانے والے شیخ الحدیث انتہائی سادہ لوح اور نرم گو شخصیت کے مالک تھے اور دنیا کے بیشتر تمام ممالک میں حضرت العلامہ خواجہ شریف صاحب کے شاگردوں ‘ مریدوں اور معتقدین کی بڑی تعداد موجود ہے۔حضرت شیخ الحدیث کے ہم عصر علماء میں موجودہ دور میں کوئی عالم نہیں ہے بلکہ ان کے سانحۂ ارتحال سے علم دین کی دنیا کا جو نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن حضرت کے علمی فیض کا سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں جو اشاعت علوم دینیہ و احادیث کا کام انجام دیا ہے وہ ناقابل تسخیر کارنامہ ہے۔مولانا نے اپنی زندگی میں جو علمی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان میں کئی اہم کتب احادیث شریفہ و شرح و ترجمہ کے کام کے علاوہ قصیدہ بردۂ شریف کی شرح بھی شامل ہے لیکن یہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ حضرت محدث دکن عبداللہ شاہ نقشبندی ؒکی تالیف ’’ زجاجۃ المصابیح‘‘ کا بھی ترجمہ کیا جو کہ برصغیر کے علمی حلقوں میں معروف ہے۔ انہو ںنے اپنی زندگی میں کئی نعتیں ‘ منقبتیں اور قصائد بھی تحریر کئے جو کہ عربی و اردو زبان میں مولانا خواجہ شریف کو ارباب جامعہ نظامیہ میں حضرت حکیم محمد حسین صاحب ؒ مرحوم شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ کے بعد علوم الحدیث پر عبور رکھنے والی اہم ترین شخصیت قرار دیتے تھے ۔ ماہرین علوم الحدیث کا کہنا ہے کہ مولانا کو رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ ازبر تھی اور جب وہ علم الحدیث کا درس دیتے تو وہ اپنے شاگردوں کو تصور کی دنیا میں نبیٔ پاک ﷺ کے دور میں لے جاتے جس کے سبب ان کے شاگرد علوم دین سے رغبت اور حب رسول ﷺ میں ڈوبنے لگتے جو کہ حضرت کی خاص بات تھی۔ مولانا خواجہ شریف اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ کے تاحیات معتمد رہے ۔ ان کی تصانیف و تالیفات میں علم غیب سے متعلق ’’ مرجع الغیب‘‘ ثروت القاری شرح بخاری ‘ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے علاوہ دیگر کتب شامل ہیں۔ مولانا نے بانیٔ جامعہ نظامیہ حضرت شیخ الاسلام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ کی اردو تصنیف الکلام المرفوع کا بھی عربی ترجمہ کیا۔ مولانا حضرت خواجہ شریف صاحب ؒ کو دنیا عاشقان رسول ﷺ میں ایک تڑپ رکھنے والے عاشق رسولﷺ کی حیثیت سے جانتی تھی جن کی زندگی عملی حیات کا نمونہ رہی ۔ شیخ الحدیث کا شجرۂ نسب بی بی حلیمہ سعدیہ سے ملتا ہے اور وہ شیخ الشیوخ حضرت علامہ طاہر القادری ؒ کے خلیفہ مجاز تھے ۔ مولانا خواجہ شریف صاحب کی گرانقدر علمی خدمات اور ان کی عملی زندگی کا ہر کوئی معترف رہا ہے کیونکہ لمحہ آخر تک بھی مولانا کی علمی خدمات کا سلسلہ جاری رہاہے اور وہ ذکراللہ میں مصروف رہے۔ مولانا 1966 سے سرزمین دکن کی عظیم جامعہ جامعہ نظامیہ سے وابستہ رہے اور اس دوران وہ کئی منصب پر فائز رہے لیکن انہیں درس علوم حدیث اور درس بخاری میں جو کمال حاصل تھا اس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی۔ مولانا کی نماز جنازہ بعد نماز عشاء احاطہ ٔ جامعہ نظامیہ میں ادا کی گئی اور تدفین ان کے آبائی قبرستان احاطۂ درگاہ حضرت سید سکندر علی درویش ؒ پوٹلا پلی رنگاریڈی گوڑہ ضلع محبوب نگر میں عمل میں آئے گی۔ مولانا کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک فرزند مولانا ولی اللہ شریف صاحب ادریس مولوی کامل جامعہ نظامیہ اور 7 دختران شامل ہیں۔