حضرت قاضی سید اعظم علی صوفی …فن اور شخصیت

قاضی فاروق عارفی

ہندوستان کے نقشہ میں حیدرآبا ددکن ایک ایساچمکتا ہوا شہر ہے جہاں پر اولیاء کرام ، علماء ذی احترام ،مشائخ عظام ودانشوران ملت و شعرائے کرام ہر دور میں رونق افروز ہوتے رہے ہیں ۔حیدرآباددکن ساری دنیا میں جس طرح چارمینار کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے اسی طرح اردو زبان وادب کے حوالہ سے بھی ساری دنیا میں پہچانا جاتا ہے کیونکہ حیدرآباد دکن میں اردو ادب کے حوالہ سے جو کام کیا گیا ہے وہ ایک دستاویزی حیثیت رکھتا ہے اردو ادب کے گیسو سنوارنے والے ادیبوں وشاعروں میں حیدرآباددکن کے ماضی وحال سے تعلق رکھنے والے کئی ممتاز علماء کرام ومعروف مشائخ عظام بھی شامل ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجانہ ہوگا کہ اردو ادب کی ترویج واشاعت میں حیدرآباددکن کے علماء کرام ومشائخ عظام ونیز فارغین مدارس دینیہ اور وابستگان سلاسل طریقت واہل خانقاہ کا بہت اہم حصہ ہے۔جس کی زندہ مثالوں میںایک طرف تو ملت کا ایک عالمی ادارہ جامعہ نظامیہ موجود ہے جو تحفظ شریعت کا ایک مضبوط قلعہ ہونے کو ساتھ ساتھ زبان اردو کی بقاء کا مرکز بھی ہے جس کے بانی حضرت حافظ محمد انواراللہ فاروقی علیہ الرحمہ ہیں جوہمدرد ملت ،مصلح قوم،ولی کامل،شیخ الاسلام ہونے کے علاوہ اپنے وقت کے بہترین شاعر وادیب بھی تھے ۔اس ادارہ سے فارغ ہوکر نکلنے والے کئی علماء ،مفتیان،فضلاء،فقہاء،محدثین،حفاظ وغیرہ وغیرہ  دنیا کے گوشہ گوشہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔دوسری طرف حیدرآباددکن کی خانقاہوں اور بزرگان دین کے خانوادوں کی جانب سے ماہانہ وسالانہ اساس پر منعقد ہونے والی محافل ومجالس کے باعث فروغ اردو کی فضا بنی ہوئی ہے ۔ علاوہ ازیںحیدرآباد کی دانش گاہیں اور اسکالرس بھی اپنا اپنا کردار نبھارہے ہیں ۔زمانہ ماضی اور حال میں زبان اردو کی ترقی اور اس کی بقاء میں مصروف اہل علم ودانش اور اہل نسبت افراد کے اسی قافلے کی ایک اہم شخصیت حضرت مولانا الحاج قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظم القادری صاحب کی ہے جو عصری علوم میں سائنس کے گریجویٹ ہونے کیساتھ ساتھ علوم دینیہ اور مشرقی زبانوں :عربی فارسی اور اردو میں مہارت کے باعث بیک وقت کئی پہلووں سے اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتے ہے۔ آپ حیدرآباددکن کے ایک معززسادات علمی مشائخ گھرانے کے چشم وچراغ ہیں آپ کے والد گرامی حضرت مفتی ابوالخیر سید شاہ احمد علی صوفی صفی حسنی حسینی قادریؒ فرزند اکبر وجانشین حضرت صوفی اعظم قطب دکن علیہ الرحمۃ اپنے وقت کے جید عالم دین و صوفی با صفاصحافی اور واعظ سرکار عالی تھے حضرت قاضی صوفی اعظم القادری صاحب کا نسبی تعلق ننہیالی وددھیالی دونوں جانب سے حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ سے ہے چنانچہ والد کی طرف سے (۲۳)ویں پشت میں اور والدہ کی طرف سے (۳۰) ویں پشت میں آپ نجیب الطرفین اولاد غوث اعظم ہیں ۔آپ کے اجدادجو بغداد سے تشریف لائے تھے شمس آباد کے قریب پرگنہ نرکھوڑہ میں آرام فرما ہیں ۔اور شاد نگر سے قبل موضع یلمن نروہ میں آرام فرما حضرت سید جہانگیر پیراں قادری ؒآپ کے ہمجدّ ہیںآپ کا ننہیالی سلسلہ حضرت سید صاحب حسینی ؒبارگاہ واقع قصبہ ٹیکمال ضلع میدک سے ہے جس کے متولی وسجادہ نشین حضرت مولانا سید شاہ احمد نور اللہ حسنی حسینی قادری صاحب ہیں ۔
حضرت قاضی صوفی اعظم القادری صاحب قبلہ کی ابتدائی تعلیم آپ کے والد محترم کی زیر نگرانی ہوئی ۔ظاہر ہے تربیت کا شخصیت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے اور اسی نہج پر طبیعت پروان چڑھتی ہے۔والد محترم کے وصال کے بعد بھی تعلیمی سلسلہ کو اردو شریف اسکول اور سٹی کالج کے بعد جاری رکھتے ہوے آ پ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے B.Sc کی ڈگری حاصل کی اس دوران اسپورٹس کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوے قومی سطح پر جامعہ عثمانیہ کی نمائندگی کی اور بحیثیت کیپٹین اپنی باسکٹ بال ٹیم کو تاریخ میں پہلی مرتبہ فاتح بنایا ۔عملی زندگی میں قدم رکھا تو سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے آباء واجداد کے مشن یعنی خدمت دین متین کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے کمر بستہ ہوے بندگان خدا کو زبان وقلم کے ذریعہ شاہراہ رشد وہدایت پر گامزن کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
عموماً اللہ پاک اپنے ہر بندے کو کسی نہ کسی خصوصیت سے نوازتا ہے لیکن کچھ شخصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کو اللہ تعالی ایک ساتھ کئی طرح کی خصوصیات سے سرفراز فرماتا ہے ایسی ہی ایک جامع الصفات شخصیت حضرت قاضی اعظم علی صوفی صاحب قبلہ کی ہے۔عالم بھی ہیں صوفی بھی ‘ مفسر بھی مقرر بھی‘ محقق بھی مترجم بھی‘ مصنف بھی مؤلف بھی‘ مصلح بھی مربی بھی‘ بہترین خطیب بھی صاحب طرزادیب بھی‘ دینی ودنیوی معاملات خصوصا امور قضاء ت کے مشیر بھی ‘صحافی اورایک قدیم دینی ماہنامہ کے مدیر بھی‘ قاضی شریعت بھی شیخ طریقت بھی‘  مثنوی مولانا روم کے شارح بھی ہیں اور اتنے سارے کمالات کے باوجود انکسار ومتواضع مزاج ہونے کے باعث دلوں کے فاتح بھی،علم عروض وبلاغت کی نزاکتوں سے آشنا کہنہ مشق سہ لسانی (اردو،عربی فارسی) بہترین نعت گو شاعر بھی اور باکمال تاریخ گوئی کے ماہر بھی ہیں۔ عالِم ایسے کہ تشنگان علم کی پیاس بجھانے میں میں ہر آن تیار ۔مسائل دینیہ کی باریکیوں کو عام فہم آسان انداز میں سمجھاکر مطمئن کردینا آپ کا خاصہ ہے ۔ عام مسائل کی عموماً اور حج وعمرہ کے گنجلک مسائل کی تفہیم میں خصوصاً پچھلے دو دہوں سے بے مثال و بے نظیر ریکارڈرکھتے ہیں جس سے لاکھوں عازمین حج وعمرہ مستفید ہوے اور ہو رہے ہیں ۔
صوفی ایسے کہ تصوف کی باریکیوں کو نہ صرف تقریر وتحریر سے سمجھائیں بلکہ آپکی زندگی عبادت و ریاضت‘ تقوی پرہیزگاری اورقناعت پسندی کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔
مفسر ایسے کہ شہر کی متعدد مساجد میں آپکے دروس تفسیر کا خوب شہرہ ہے خصوصاً جامع مسجد اعظم پورہ میں آپ نے (۲۰) سال میں قرآن کا ایک دور مکمل کیا اور اب دوسرادور جاری ہے ۔مقرر ایسے ہیں کہ اب تک عوامی جلسوں‘ ریڈیو اسٹیشن‘ ٹیلی ویژن پر بے شمار دینی و سماجی موضوعات پر تقریباً ایک لاکھ تقریریں ہوچکی ہیں۔ جس سے کروڑوں لوگ مستفید ہوئے اور ہورہے ہیں۔ فی زمانہ انٹرنیٹ کی وساطت سے YouTube Channel   کے ذریعہ دنیا کے چپے چپے میں رہنے بسنے والے مسلمانان عالم آپ کی ریکارڈ شدہ تقاریر و موضوعاتی لکچرس  ودروس تفسیرکو نہایت ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ محقق ایسے ہیں کہ بے شمار قومی و بین الاقوامی سمینارز میںاپنے تحقیقی مقالہ جات خصوصاً علوم قرآنی‘اسرار شریعت و طریقت اور تصوف و تعلیماتِ اولیاء اللہ کے زیر عنوان ان گنت پیپرس پیش کئے اور اُن میں سے کئی طباعت کے زیور سے بھی آراستہ ہوچکے ہیں۔
مترجم ایسے ہیں کہ انگریزی ‘ عربی‘ فارسی کتابوں کو مہارت کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالنے میں مہارت تامہ حاصل ہے۔ منثور ترجمہ کے ساتھ بعض عربی و فارسی اشعار کا منظوم ترجمہ کرکے ہمہ لسانی مہارت کا ثبوت دیا۔  ترجمہ کردہ کثیر کتب میں قابل ذکر Essays on Islamic Topics  کاانگریزی زبان سے اردو میں بنام ’’مقالات اسلامی‘ ‘  سرالاسرار‘ اوراد قادریہ‘ بشائر الخیرات‘ دلائل الخیرات کا عربی زبان سے اردو میں‘معین الاولیاء‘ زاد الموحدین‘ شاہدالوجود‘ مثنوی شاہد اذکار‘ خصوصاً بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام حضرت حافظ محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ کے کلام ’’شمیم الانوار‘‘ کا فارسی زبان سے ترجمہ بزبانِ اردو فرمایا ۔
مصنف و مولف ایسے کہ تقریباً پچاس کتب مختلف وقیع موضوعات پر طبع ہوکر مقبول عام ہوچکی ہیں۔ جن میں بطور خاص عراق ‘ یمن اور اردن کامقدس سفر نامہ کی تفصیلات پر مشتمل  ’’تجلیات بغداد‘‘ نامی کتاب و نیز ’’عمرہ و حج اور زیارت مدینہ‘‘ کے انگریزی و اردو میں کئی ایڈیشنس شائع ہوچکے ہیں۔ آپ نے ایک تحقیقاتی اکیڈمی بنام ’’سیدالصوفیہ اکیڈمی‘‘ بھی قائم کی ہے جس کے تحت کتب و رسائل کی اشاعت عمل میں لائی جاتی ہے۔
مصلح و مربی ایسے کہ لاکھوں لوگ آپ کے دست مبارک پر اپنی پچھلی زندگی کے گناہوں سے توبہ کرکے تقوٰی پرہیز گاری والی زندگی اختیار کرچکے ہیں۔ اور آپ کے تربیت یافتہ کئی خلفاء اقطاع عالم میں فیضان پھیلا رہے ہیں خاص طور سے عقیدہ و عمل کی اصلاح کے میدان میں آپ کی اور آپ کے وابستگان کی خدمات مثالی ہیں۔ سماج میں مختلف تقاریب کے موقع پر باجا گاجا اور آرکسٹرا  کے ساتھ منعقد ہونے والی تقاریب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے شعور بیدار کرنے میں خود ذاتی طور پر اور کل ہند جمعیۃ المشائخ کے صدر کی حیثیت سے آپ نے اصلاحی قدم اٹھایا۔ جسے جمعیۃ کے سارے ارباب و اراکین و نیز اُن کے متعلقین کی مکمل حمایت حاصل ہوئی۔بہترین خطیب ایسے کہ آپ کی اردو ‘ انگریزی اور عربی زبان میں خطیبانہ شان کا اثر سننے والوں کے علم میں اضافے کا باعث اور دلوں میں انقلاب پیدا کرنے کا محرک بنتا ہے۔ پچھلے زائد از(۳۰)سال سے  BHEL  رامچندر پورم ٹاؤن شپ کی جامع مسجد حضرت کے انمٹ خطیبانہ نقوش کی گواہ ہے علاوہ ازیں عیدگاہ شمس آباد کا احاطہ بھی آپ کے خطابات کی سامع وشاہدہے ۔ آپ کی جانب سے شہر حیدرآباد میں ایک منفرد انگریزی محفل ہر سال "UNIQUE MILAD CONFERENCE”   کے زیر عنوان منعقد ہوا کرتی ہے جس میں از اول تا آخر سارے پروگرام نعت‘ خطابات وغیرہ انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔ اس سے اردو سے ناخواندہ نوجوان نسل کو بہت فائدہ ہوتا ہے جو اردو کے محافل میں شرکت سے کتراتی ہے کیونکہ آج کل چاروں طرف انگریزی زبان کا دور دورہ ہے اسی لئے نئی نسل کو اُسی زبان کے ذریعہ پیغامِ اسلام اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے انوار پہنچانے میں مدد ملتی ہے اور یہ اس جانب انوکھا اور پہلا قدم ہے۔
صاحب طرز ادیب ایسے کہ آپ کے علمی ِوادبی سماجی ومذہبی موضوعات پر زائد از پانچ سو مضامین و مراسلہ جات ملک کے موقر اخبارات ورسائل خاص طور سے حیدرآباددکن سے شائع ہونے والے سارے ہی اخبارات کی زینت بنکر عوام وخواص سے دادِ تحسین حاصل کرچکے ہیں جس میں زبان و بیان کی ایسی مٹھاس ہوتی ہے کہ قاری علم کی گہرائی کے ساتھ زبان کی حلاوت کو محسوس کرتے ہوئے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
مشیر ایسے کہ حکومت وقت کو جب دینی و مذہبی امور میں عمائدین ملت کی مشوروں کی ضرورت پڑی تو حکومتی نمائندوں کی خواہش پر کبھی وقف ایکٹ اور کبھی حج ایکٹ کی ترمیم کے سلسلہ میں درکار اہم اور ضروری تجاویز و مشوروں کو تحریری و زبانی شکل میں حکومت کے حوالے کیا ‘خرد و کلاں اپنے اپنے مسائل و معاملات کی تشفی بخش یکسوئی کے لئے رجوع ہوتے ہیں تو بہترین مشوروں سے نوازتے ہیں خاص طور سے امورِ قضاء ت پر گہری نظر رکھتے ہیں میری والد محترم حضرت قاضی انجم عارفی علیہ الرحمہ سے بھی آپ کے گہرے مراسم تھے۔ صحافی ایسے کہ آپ کے والد گرامیؒ کی جانب سے  (۹۰ )سال قبل جاری کردہ علمی ادبی دینی ماہنامہ رسالہ صوفی اعظم کااپنی ادارت میں از سر نو احیاء کیا اس کے بعدسے تاحال بلا ناغہ اس کی اشاعت جاری ہے جس کے مستقل و غیرمستقل عنوانات کے تحت مضامین کے علاوہ خاص طور سے حالات حاضرہ پر حضرت صوفی صاحب قبلہ کے قلم بے باک سے نکلے بے لاگ تبصرے اور جرأت آمیزاداریے شعور وبیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں اسلئے قارئین رسالۂ مذکورخصوصاً اور عوام الناس عموماً اس کے بے چینی سے منتظر رہتے ہیں ۔قاضی شریعت ایسے کہ خدمت قضائت سے وابستگی کی بناء ہزاروں عقود کی تکمیل فرمائی۔
پیر طریقت ایسے کہ تصوف وطریقت کے سارے سلاسل میں اپنے والد ومرشد حضرت سید الصوفیہ سے اجازت وخلافت علوم ظاہری وباطنی کی امانت کے حامل ہیں اور آپ سے بیعت و نسبت اور ارادت کا شرف رکھنے والے ساری دنیا میں پھیلے ہوے ہیں اور عقیدہ وعمل کی درستگی کے ساتھ اپنے پیروشیخ حضرت قبلہ کی سرپرستی میں شریعت وطریقت کی منازل طے کررہے ہیںونیز بے شمار معتقدین ومتوسلین آپ سے اذکار واوراد کی اجازت حاصل کرکے فیوض وبرکات روحانی سے مالا مال ہورہے ہیں ۔آپ شیخ الدلائل بھی ہیںجسکی وجہ سے لاتعداد عشاقان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اجازت حاصل کرکے ورد دلائل کے ذریعہ تقرب حبیب کبریاء کی برکتوں سے سرفراز ہوے اور ہورہے ہیں ۔