آئی ہرک کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی اورپروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کے لیکچرس
حیدرآباد ۔18 مئی( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام کی مبارک زندگیوں کا ہر گوشہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوئہ حسنہ، سیرت طیبہ اور حیات مقدسہ کے انوار سے تابناک اور رہتی دنیا تک انسانیت اور امت مسلمہ کے لئے بالخصوص قابل تقلید اور وسیلہ ہدایت رہے گا۔ صحابہ کی شان و عظمت، فضیلت و علو منزلت کے ضمن میں یہ ارشاد سب سے روشن دلیل ہے کہ وہ مثل نجوم ہیں۔ جس نے ان کی اقتداء کی وہ سعادت پائے گا اور اسے ہدایت کی ضمانت عطا ہو گئی۔ صحابہ کرام کے ہر عمل میں سنت رسول اللہؐ کی پیروی کا کامل نمونہ ملتا ہے۔ یہی خصوصیت ان کے اطاعت حق تعالیٰ اور اتباع حبیب کبریا ؐ کا منور ثبوت ہے۔ ایمان و یقین، عقیدہ راسخ،صدق و صفا، توکل، تسلیم و رضا، پابندیٔ احکام الٰہی، پیرویٔ سنت، تعمیل و فرمانبرداری، تقویٰ و پرہیزگاری، عبادات کا ذوق کامل، قرآن و صاحب قرآنؐ سے سچی وابستگی، اخلاص عمل، صالحیت، ایثار و قربانی، اخوت و مروت ، صبر و استقامت، شجاعت و بہادری، ذوق جہاد و شوق شہادت، علوم دینیہ سے لگائو، مداومت عمل، ریاضت و مجاہدات، تزکیہ نفس، اصلاح باطن، تصفیہ قلب، سادگی و حق پسندی، حق گوئی و خوش معاملگی، عمدہ اخلاق، اعلیٰ کردار، دیانت داری، ایفاے عہد، خدمت خلق اور انسانی ہمدردی جیسی تمام اعلیٰ اخلاقی خوبیاں جس کی بناء پر انسان خالق کونین کے افضال و اکرام کا مستحق بن سکتا ہے اور رسول اللہؐ کی توجہات اور خوشنودی حاصل کر سکتا ہے صحابہ کرام کے اوصاف حمیدہ کا فیضان ہے صالحیت اور پرہیزگاری سے ہمکنار کرنے والے یہ خصائل مسلمانوں کی حقیقی شناخت نبے رہیںذکر صحابہ و صالحین کا مقصدعین یہی ہے۔ کتاب و سنت کی تفسیر و تشریح اور اسوئہ حسنہ رسول اللہؐ کے عملی مظاہر صحابہ کرام کی سیرتوں میں ہویدا ہیں ان پاکباز ہستیوں میں حضرت عمروؓ بن مرہ بھی شامل ہیں جنھوں نے پوری زندگی علم و عمل کے چراغ فروزاں رکھے۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’’1095‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت سلیمان علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں حضرت عمرو بن مرہؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لیکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔جناب سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی جوائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا بعدہٗ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا 836واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے کہا کہ حضرت عمر و ؓ بن مرّہ کو شرف اسلام خاص زمانہ میں حاصل ہوا جب کہ دین حق کے خلاف کفا رو مشرکین میں شدید غیظ و غضب تھا اور وہ ہر طرح اسلام اور مسلمانوں کے درپے آزار تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں قلب سلیم عطا فرمایا تھا اور قبول حق کا جذبہ بدرجہ اتم سرفراز فرمایا تھا جب انہیں دعوت حق کی اطلاع ہوئی تو مخالفین کی عداوتوں کی پرواہ کئے بغیر بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوے ایمان کی دولت سے مالا مال ہوے۔ انہوں نے جن الفاظ کے ساتھ دست اقدس پر شرف ایمان پایا ارباب سیر نے بطور خاص نقل کئے ہیں انھوں نے رسول اللہ ؐ سے عرض کیاتھا کہ میں ان تمام حلال و حرام پر ایمان لاتا ہوں جو آپ اللہ تعالیٰ کے پاس سے لاے ہیںاگر چہ تمام قوم کی جانب سے اس کی مخالفت کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ حضرت عمروؓ بن مرہ نے ایمانی استقامت کے ذریعہ معاندین کو حیرت زدہ کر دیا ان کے عزم حق اور استقلال کے آگے کوئی بھی مخالفت ٹھہر نہ سکی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت عمروؓ بن مرہ قبیلہ جہنہ سے تعلق رکھتے تھے ان کا نسب نامہ چند واسطوں سے قیس بن جہنیہ سے جا ملتا ہے۔ ان کی کنیت ابو مریم تھیں۔ حضرت عمروؓ کو علوم کے حصول سے خاص لگائو تھا بالخصوص قرآنی علوم کے حاصل کرنے میں بڑی کوشش کی حضرت معاذ بن جبلؓ سے قرآن مجید کی تعلیم پائی۔ انھوں نے اپنی ان تمام صلاحیتوں کو خدمت دین اور اشاعت و تبلیغ اسلام کے مقدس کام میں لگا دیا۔ حضرت عمروؓ نے اپنے پورے قبیلہ کو دولت ایمان سے بہرہ مند کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی کاوشیں رسول اللہؐ کی بارگاہ میں بڑی مقبول ہوئیں۔ علم اور عملی مجاہدات کیساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کی سعادتیں بھی ان کا مقدر بنیں۔ دور رسالت مآبؐ اور عہد خلفاے راشدین میں وہ مدینہ منورہ میں رہے بعد میں شام منتقل ہو گئے۔پند و نصائح، رشد و ہدایت اور تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دینے لگے۔ حق گوئی اور نصیحت کے ضمن میں کوئی امتیاز نہ تھا سب کیلئے ان کا درد مند دل خیر خواہی کے جذبوں سے لبریز تھا۔ عبد الملک کے دور میں وفات پائی۔ کتب سیر میں ان کے بعض اشعار بھی ملتے ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالتؐ میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا ’’1095‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں خیرمقدم کیا اور آخر میں جناب مظہر حمیدی نے شکریہ ادا کیا۔