حضرت عتَّابؓ بن اَسِید کو فتح مکہ کے بعد والی مکہ مکرمہ رہنے کااعزاز

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب
حیدرآباد ۔23؍اگسٹ( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رحمۃللعلمین ہیں فتح مکہ کے موقع پر تمام مکہ والوں کو امان کی نوید، باب کعبہ سے قریش کے لئے ارشاد کہ آج تم پرکوئی سرزنش نہیں، حضرت عباسؓ کو ان کے منصب سقایت سے مخصوص فرما دینا، عثمان بن طلحہؓ  کو ہمیشہ کے لئے کعبہ کی کنجی مرحمت فرمانا، حضرت بلالؓ کو بام کعبہ پر چڑھ کر اذان دینے کی عزت بخشنا، بدترین دشمنوں سے بجاے انتقام کے عفو ودرگزر کا سلوک فرمانا، مجرموں پر کرم کے پھول برسانا، صرف چندشریر کفارکو چھوڑ کر مابقی سب کو عام معافی سے نوازنا شان رحمت کے منور پہلو ہیں۔ فتح مکہ کے بعد جن حضرات نے شرف ایمان پایا ان میں ایک نہایت اہم اور نمایاں شخصیت حضرت عتاب بن اسیدؓ کی ہے جنھیں رسول اللہؐ نے والی مکہ مکرمہ مقرر فرماکر دارین کی سعادتوں سے مالامال فرما دیا۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ’1161‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت سلیمان علیہ السلام کے مقدس حالات اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں صحابی رسول اللہؐ حضرت عتَّابؓ بن اسیدؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دیا۔ قراء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوے کہا کہ حضرت عتاب بن اسیدؓ  قلب سلیم کے مالک اور قبول حق کا صحیح جذبہ رکھتے تھے فتح مکہ کے موقع پر انھیں رسول اللہؐ کی دعوت توحید و رسالت کی عظمت اور اسلام کی حقانیت کا پوری طرح احساس و یقین ہو گیا اس لئے بغیر کسی دباو کے وہ بطیب خاطر خود حضور اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف ایمان سے ممتاز ہوے اس وقت ان کی عمر کم و بیش اکیس سال تھی ۔ رسول اللہ ؐ نے قبل ازیں مکہ کے جن چار لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ وہ شرک سے دور اور ایمان و اسلام سے قریب ہیں ان میں سے ایک عتابؓ بن اسید بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ موقع ملتے ہی انھوں نے اسلام سے وابستگی اختیار کر لی۔  ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے بتایا کہ حضرت عتابؓ بن اسید ۸ھ میں مکہ مکرمہ کے والی بناے جانے کے بعد اسی سال لوگوں کو حج کر وایا۔ اگلے برس حضرت ابو بکرؓ صدیق امیر الحج تھے جنھیں رسول اللہؐ نے روانہ فرمایا تھا۔ ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عتابؓ بن اسید کو حضور انورؐ نے طائف سے مراجعت فرمائی کے بعد عامل مکہ مقرر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’ اے عتاب! تم جانتے ہو کہ میں نے تم کو کن لوگوں پر عامل بنایا ہے؟ اگر میں ان کے لئے تم سے بہتر کسی اور کو سمجھتا تو اسی کو ان پر عامل بناتا‘‘۔یہ ارشاد مبارکہ حضرت عتابؓ کے غیر معمولی اور عظیم الشان مقام و مرتبہ اور بے نظیر صلاحیتوں کے متعلق سب سے اعلیٰ سند ہے۔ حضرت عتابؓ بن اسید امیہ بن عبد شمس کی نسل سے تھے اور قریش کی ایک نہایت اہم شاخ سے تعلق رکھتے تھے ان کی کنیت ابو عبد الرحمن تھی والدہ محترمہ کا نام زینب بنت عمرو تھا وہ بھی عبد شمس کے خاندان سے تھیں والد والدہ دونوں طرف سے وہ قریشی تھے۔ حضرت عتابؓ بن اسید عہد رسالت میں والی مکہ رہے انھیں رسول اللہؐ نے دو چادریں مرحمت فرمائی تھی اور ان کے گزارہ کے لئے دو درہم یومیہ کا وظیفہ مقرر فرما دیا تھا۔ حضرت عتابؓ بن اسید حضرت صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں بھی والی مکہ کے منصب پر برقرار رہے اور جس دن حضرت ابو بکرؓ کی وفات شریف ہوئی اسی دن حضرت عتابؓ نے بھی اس دار فانی کو کوچ کیا۔ عمر شریف 25 یا 26سال ہوئی۔ اتنی کم عمری میں حضرت عتابؓ نے اپنے تقویٰ و پرہیزگاری، محبت خدا و رسولؐ اور اپنے فرائض منصبی کا کما حقہٗ ذمہ داریوں کو پورا کرکے ایسے گہرے نقش قائم کئے جس کی مثال نہیں ملتی۔ نماز با جماعت کا خوب شدت سے اہتمام فرماتے کہ لوگوں کو سخت تاکید تھی کہ باجماعت نمازیں ادا کریں۔علم و فضل کے لحاظ سے بھی فائق اور چنندہ لوگوں میں شمار رہتے تھے۔صالحیت ،قناعت و استقامت اور تسلیم و رضا میں یکتاے روزگار تھے۔