حضرت شاہ محمد سوداگرؒ

فیض محمد اصغر
سوانح : شاہ لقب ، محمد نام ، صدیقی کنیت ، خان خطاب ، سوداگر تخلص ، مذہبا حنفی مشربا ًچشتی و قادری ۔ ایک بلند پایہ عالم اور صوفی تھے ۔ چوبیسویں پشت میں آپ کا سلسلۂ نسب حضرت ابوبکر صدیقؒ سے ملتا ہے ۔ روحانی علوم میں گہرا عبور حاصل تھا جو آپ کی کتابوں سے مترشح ہے ۔ آپ حضرت میر غلام حسین احمد المعروف بہ مرزا سردار بیگ صاحب قبلہؒ کے خلیفہ تھے ۔ آپ کے والد حضرت شاہ عبدالقادر صدیقی ایک جید عالم اور صوفی متش بزرگ تھے جو کشمیر کے معزز مشائخ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے جد اعلیٰ قاسم شاہ صدیقی کشمیر کے مشہور صاحب تصرف بزرگ گزرے ہیں جو شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ مصاحبین میں شامل رہ کر کشمیر پہونچے اور وہیں کے ہورہے۔ آپ کی پیدائش 6 ربیع الاول 1276 ھ مطابق 1857 ء محلہ نل بازار بمبئی میں ہوئی ۔ آپ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ کم عمری میں حیدرآباد بزمانۂ نظام محبوب علی خاں والی حیدرآباد تشریف لائے ۔ ابتداء میں کشمیری پارچہ جات کی تجارت میں مصروف رہے اور محلہ محبوب شاہی (پیٹلہ برج) میں مقیم رہے۔ آپ کو بچپن ہی سے علمی ذوق بدرجہ اتم رہا۔ علوم عقلیہ اور نقلیہ کے اساتذہ میں قابل ذکر مولانا عبدالرشید صاحب مولوی عبدالکریم صاحب باجوڑی اور استاذ حدیث مولانا عباس علی صاحب نوراللہ مرقدھم ہیں۔ آپ سترہ سال کی عمر میں حضرت مرزا سردار بیگؒ سے بیعت ہوئے، آپؒ نے اذکار و اشغال اور سلوک کی تکمیل اپنے پیر و مرشد سے فرمائی۔
حسب ارشاد شیخ تجارت سے اپنا تعلق منقطع کر کے بہ توجہ تمام تکمیل سلوک میں مصروف رہے اور سخت مجاہدہ اور ریاضتیں کیں اور تیرہ سال تک ترک حیوانات کیا ۔ پیر کی عنایت سے سلوک اسمائے الٰہی و کیانی کو ختم فرمالیا ۔ چنانچہ اپنی ایک غزل کے مقطع میں ارشاد ہوا۔
سوداگری بہ ترک لباسی فروختم
نفعش غلامیٔ شبہ مرزا برآمدہ سوداگرؔ
آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہونے والوں کی تعداد متحدہ ہندوستان میں تین لاکھ سے زائد تھی 1892 ء مطابق 1310 ھ میں حضرت سردار بیگ صاحب قبلہؒ کے وصال کے بعد آپ نے حضرت خواجہ غریب نواز اجمیریؒ کو مکاشفہ میں دیکھا کہ کمال لطف وکرم سے آپ کی طرف متوجہ ہیں اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا حکم دے رہے ہیں چنانچہ آپ کے اس شعر میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
دفعتہً آمد شبے آن شہِ سلطان ہند
گفتِ بیانزد ماشادزِ تو جان ما
سوداگرؔ
چنانچہ آپ اجمیر شریف تشریف لے گئے ۔ خواجہ بزرگؒ نے روحانی فیوض سے نوازا اور آپ کو آپ کے نام شاہ محمد سے مخاطب فرمایا۔
آپ اکثر حضرت خواجہ غریب نواز کے عرس میں شرکت فرماتے جہاں آپ کیلئے آپ کی ایک خاص گدی سماع خانہ میں مخصوص تھی۔ بعد عرس اجمیر شریف آپ دہلی میں حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ حضرت نظام الدین اولیاءؒ حضرت نصیر الدین چراغ دہلی حضرت کمال الدین حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادیؒ اور حضرت مولانا فخرؒ کی بارگاہ میں بھی حاضری دیتے نیز آپ نے متعدد بار حضرت حافظ محمد علیؒ خیرآبادی اور حضرت نظام الدینؒ اورنگ آبادی کی بارگاہوں پر حاضری دی ہے۔ آخر آپ کی خوش بختی کا ستارہ اس درجہ بلند ہوا کہ مکاشفہ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رونق افروزی دو مرتبہ ہوئی ۔ چنانچہ بطور تحدیث نعمت ارشاد فرماتے ہیں۔
اس نور میں وہ ہوتی ہے جھلک آنکھیں بھی وہاں جاتی ہیں جھپک
اس میں ہے سراپا احمد کا سندر صورت من موہنیا
سوداگرؔ
آپ کو اپنے پیر و مرشد سے کمال عشق تھا ۔ عشق اسمائے الٰہی سے ہے جس پر بآسانی عمل درآمد کیا جاسکتا ہے ۔ صفتِ عشق کو عالم تشبیہ یعنی دنیا ہی میں حاصل کرنا ہے۔ ذات کی کسی صفت کو پالینا ہی دراصل ذات کو پالینا ہے۔ لہذا صفت عشق کو حاصل کرلیا جائے جو سہل اور آسان ہے اور وہ پیر کے عشق سے بآسانی حاصل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے :
وہ سوداگر ہے جس نے نقد جان اپنا لٹادے کر
جمال پاک حق پایا ہے مشکل میر زائی میں
سوداگر
آپ کے علمی تجر اور روحانی استعداد کا انداز قارئین کو آپ کی کتابوں کے مطالعہ سے بخوبی ہو جاتا ہے ۔ تاہم ہم آپ کے ایک مرید مولوی محب حسین محب معلم نسوان (متوفی 5 جمادی الاول 1348 ھ مطابق 1930 ء) کا حوالہ دینا مناسب سمجھیں گے ۔ مولوی محب حسین محب ایک جید عالم اور علمائے ظاہر و باطن سے تھے متعدد کتابیں تصوف پر لکھیں اور قرآن شریف کا منظوم ترجمہ اور تفسیر بنام مثنوی اسرار قرآن پڑھنے سے اور سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ مولوی محب نے 1913 ء میں اپنے پیر و مرشد حضرت سوداگر صاحب کی فرمائش پر مسدس توحید لکھی اس وقت حضرت سوداگر صاحب مسجد عالمگیری محلہ تاڑبن میں قیام فرما تھے اور خانقاہ خواجہ پہاڑی زیر تعمیر تھی ۔ اس مسدس کے دوبند بغرض ملاحظہ پیش کئے جاتے ہیں۔
مگر وہ شاہ محمدؐ ہیں مرشد کامل
کہ جن کے علم دریاضت کا ہے جہاں قائل
گیا نہ تشنہ کوئی در سے آپ کے سائل
حجاب اُٹھ گئے وہ حق سے ہوگیا واصل
خدا کی دید کی گر آپ کو تمنا ہے
تو جاکے دیکھئے مسجد میں کون بیٹھا ہے
وہ تاڑبن میں ہے ایک ٹپکڑا اونچا
ہے کوہ خواجہ کہ خواجہ پہاڑی نام اس کا
وہیں ہیں ایک بزرگ عاشق و دلی خدا
مرید ہو جئے جاکر اگر ہے بخت رسا
خدا کو ڈھونڈیئے عالم کی ہے وہی تو مراد
ملا نہ وہ تو ہوئی ساری زندگی برباد
مزید برآن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نسبت مولانا مفتی نورالضیاء صاحب مرحوم المخاطب بہ نواب  ضیاء یارجنگ نے اپنی جورائے ظاہر فرمائی اس کی نقل کردی جائے کیونکہ مولانائے معز اُن ممتاز ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی تنقیدی نظر بلحاظ کمال علم و فضل نہایت سخت ہوتی ہے اور جب تک انہیں کسی شخص کی علمیت کے متعلق پورا وثوق اور کامل اطمینان حاصل نہ ہو وہ اس کے فضل و کمال کی تصدیق نہیں کرتے ۔ چنانچہ نواب ضیاء یار جنگ نے مولوی مسعود علی صاحب محوی سے فرمایا جس زمانہ میں میں مولوی عباس علی صاحب سے حدیث پڑھتا تھا ۔ شاہ محمد صاحب بھی میرے ہم سبق تھے ۔ اسی زمانہ میں ان کا رجحان فقہ اور حدیث سے زیادہ تصوف کی طرف  تھا۔ اس زمانہ میں جہاں تک میں جانتا ہوں تصوف کے اصولی معلومات جس قدر شاہ محمد صاحب کو حاصل ہیں صوفیوں میں سے کسی اور کو نہیں آپ اگرچہ کہ آزاد منش اور قلندری مزاج رکھتے تھے اس کے باوجود احکام شریعت کی سختی سے پابندی فرماتے تھے اور مریدوں کو بھی اس کی خاص تاکید تھی ۔ سخت علالت میں بھی آپ نے نماز نہیں چھو ڑی اور مجلس سماع میں بھی نماز کے اوقات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ سماع  سے آپ کو خاص دلچسپی تھی ۔ حالت سماع میں ا کثر آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ یہ وجدانی کیفیت اس درجہ شدید ہوگئی اور یہ نوبت پہنچ گئی کہ روح قالب کو چھوڑدے ۔ چنانچہ ایک دفعہ حافظ شیرازیؒ کے اس شعر پر
بوئے خوشِ تو ہر کہ زبادِ صبا شنید
از یارِ آشنا خبرِ آشنا شنید
آپ پر کئی گھنٹہ بے خودی کا عالم طاری رہا۔ اسی طرح ایک مو قع پر کبیر داس کے اس شعر پر
حد حد کر کے سب گئے بے حد گیا نہ کوئے
بے حد کے میدان میں رہا کبیرا سوئے
آپ پر ایک عجیب استغراتی کیفیت طاری ہوگئی ۔ سالک پر فرض ہے کہ وجہ تنقید سے صرف نظر کر کے وجہ اطلاق پر نظر رکھی جائے صحیح فرمایا حضرت مولانا روم نے
اللہ اللہ کُن کہ اللہ می شومی
این سخن حق  است واللہ می شوی
آپ اردو اور فارسی کے صاحب دیوان شاعر تھے۔ اردو فارسی اور عربی کے علاوہ آپ نے ہندی زبان میں بھی اکتساب کیا تھا ۔ آپ کا دیوان حقائق اور معارف سے پر ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ غزل کا کوئی مقطع ایسا نہیں جس میں اپنے پیرو  مرشد حضرت سردار بیگ صاحب قبلہ ؒ سے عقیدت کا اظہار نہ کیا گیا ہو۔ 1892 ء میں حضرت سردار بیگ قبلہؒ کے وصال کے بعد آپ ہر مہینہ کی 13 تاریخ کو درگاہ حضرت سردار بیگ قبلہ کی مجلس میں شریک رہتے تھے اور پھر ہر ماہ کی 14 تاریخ کو اپنے پیر کی محبت اور عقیدت کے تحت اپنی خانقاہ موقوعہ محبوب شاہی پیٹلہ برج حیدرآباد میں اپنے پیر و مرشد کی ماہانہ فاتحہ کی مجلس منعقد فرماتے تھے ۔ 1908 ء میں آپ کا مکان خانقاہ اور کتب خانہ موقوعہ محبوب شاہی طغیانی رود موسیٰ میں بہہ گئے تو آپ محلہ تاڑبن حیدرآباد میں واقع ایک پہاڑی پر جس پر ایک عالم گیری (اورنگ زیب عالم گیر) مسجد واقع ہے قیام فرمایا اور پھر ایک عالیشان خانقاہ تعمیر کرائی جس کا نام حضرت غریب نوازؒ کی نسبت سے خواجہ پہاڑی رکھا اور ہر ماہ کی 14 تاریخ کو اپنے پیر و مرشد کی ماہانہ فاتحہ کی مجلس خواجہ پہاڑی پر شروع کی جو آج بھی بفضل تعالی جاری ہے اور معتقدین حاضری دیتے ہیں۔ چونکہ آپ ا پنے پیرو مرشد کی عقیدت میں ہر ماہ کی14 تاریخ کو فاتحہ کی مجلس حین حیات منعقد فرماتے تھے، اس عقیدت نے یہ اعجاز دکھایا کہ نوے سال کی عمر میں رمضان کی چودہویں شب 1366 ھ (مطابق یکم اگست 1947 ء ) آپ واصل بحق ہوئے  اور چودہ رمضان کو خواجہ پہاڑی پر آپ کے حجرۂ خاص میں آٖ کی تدفین عمل میں آئی ۔ اس طرح آپ کی ماہانہ فاتحہ کی مجلس چودہ تاریخ ہی برقرار ہے آپ کی سالانہ عرس کی تاریخ 13 اور 14 شوال مقرر ہے اس لئے کہ آپ بہ احترام ماہ صیام مجلس سماع رمضان میں موقوف رکھتے تھے ۔ آپ نے فن تصوف پر متعدد کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ ملک کی زبان اردو ہونے کے رشتہ سے یہ سب کتابیں اردو میں تحریر ہوئیں ۔ البتہ سب سے پہلی تصنیف الوجوب فارسی زبان ہے جس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے ۔ کتب کی تفصل حسب ذیل ہے۔
(1) الوجوب  (2) وجدۃ الوجو د  (3) اعیان ثابتہ (4) فناد بقا (5) محود اثبات (6) غیبت و غیریت (7) نون و قلم (8) پیر و مرید (9) خطرات (10) نفخات رحمانی (11) القلب (12) صحو و سکر (13) قبض و بسیط (14) غیب و حضور (15) نفس (16) شرح فصوص الحکم
اس سال حضرت کا سالانہ عرس شریف 13 شوال 11 جولائی اور 14 شوال 20 جولائی کو مقرر ہے ۔ اس دو روزہ تقریب کا بڑے پیمانہ پر کیا جاتا ہے۔