حضرت سیدنا عثمان غنی ؄ کی شہادت

مولانا غلام رسول سعیدی

جس وقت شورش پسندوں اور باغیوں نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر عرض کیا: ’’امیر المؤمنین! انصار دروازے پر کھڑے اجازت کے منتظر ہیں‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ جنگ کی اجازت چاہتے ہیں تو انھیں بالکل اجازت نہیں ہے‘‘ (طبقات ابن سعد) اسی دوران حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ کی اجازت مانگی تو فرمایا: ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ مجھ سمیت تمام دنیا کو قتل کردو؟‘‘۔ عرض کیا: ’’نہیں‘‘۔ امیر المؤمنین کے اس فرمان میں اس آیت کی طرف اشارہ تھا کہ ’’جس شخص نے بغیر قصاص کے یا فساد کے لئے کسی شخص کو قتل کیا، گویا اس نے تمام دنیا کے انسانوں کو قتل کردیا‘‘ (سورۃ المائدہ۔۳۲) اس آیت سے استدلال اس وجہ سے تھا کہ باغیوں نے ابھی تک نہ کسی شخص کو قتل کیا تھا اور نہ زمین میں کسی قسم کا فساد کیا تھا، صرف حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ (طبقات ابن سعد)

حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں کے متعلق بیان کر رہے تھے، اتنے میں ایک شخص کا گزر ہوا، جو کپڑا اوڑھے جا رہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’فتنوں کے وقت یہ شخص ہدایت پر ہوگا‘‘۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو ’’وہ حضرت عثمان تھے‘‘ (طبقات ابن سعد) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا بیان کرتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ شخص ان فتنوں میں مظلوم شہید کیا جائے گا‘‘۔ (مشکوۃ (ترمذی) صفحہ۸۶۲)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق یہ یقین تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہوچکی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی کو ان فتنوں سے مطلع کیا تھا اور صبر و استقامت کی تاکید فرمائی تھی (ترمذی، صفحہ۵۳۳) ان حالات میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لمحہ بہ لمحہ اس وقت کے منتظر تھے، جو ان کے لئے مقدر ہوچکا تھا۔

۱۷؍ ذی الحجہ سنہ ۳۵ھ بروز جمعہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تشریف فرما ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: ’’عثمان جلدی کرو، ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عثمان! آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا‘‘۔ (طبقات ابن سعد)
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے اور اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا: ’’اب وقت قریب آپہنچا ہے‘‘۔ پھر آپ نے لباس تبدیل کیا اور تلاوتِ قرآن پاک میں مشغول ہو گئے۔ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد باغیوں نے حملہ کردیا، جس کی مزاحمت کرتے ہوئے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ زخمی ہو گئے۔ باغیوں نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کئی وار کئے، لیکن اسی دوران ایک ازلی شقی نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ حضرت ذوالنورین کی شمع حیات بجھ گئی۔ (اسد الغابہ)
اس جانکاہ حادثہ میں آپ کی اہلیہ محترمہ کی اُنگلیاں بھی کٹ گئی تھیں اور تین دن تک آپ کا جسد مبارک تدفین سے محروم رہا۔ قتل کرنے کے بعد ظالموں نے آپ کا گھر بھی لوٹ لیا۔ تاریخ عالم میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی حکمراں کے خلاف کچھ لوگ باغی ہو جائیں اور اس حکمراں کو اپنی ذات اور اپنی حکومت کے تحفظ کے متعدد وسائل حاصل ہوں، نہ صرف یہ بلکہ جاں نثار رفقاء، ارکانِ دولت اور تمام افواج سب اس کے حامی ہوں، باغیوں کا قلع قمع کرنے کے لئے بے تاب ہوں اور بار بار اس حکمراں سے باغیوں کی سرکوبی کا مطالبہ کر رہے ہوں، لیکن وہ حکمراں محض اس سبب سے ان لوگوں کو باغیوں سے جنگ کی اجازت نہیں دیتا کہ ’’کہیں ایک جان کی بقاء کے لئے سیکڑوں جانیں تلف نہ ہو جائیں‘‘۔ آخری وقت تک آپ کے رفقاء باغیوں سے مقابلہ اور ان کا محاصرہ توڑنے کی اجازت طلب کرتے رہے، لیکن آپ کا صرف ایک ہی جواب تھا کہ ’’میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ (اقتباس)