حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ

خلیفۂ اول، یار غار، صاحب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، جانشینِ حبیب خدا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی فضیلت انبیاء عظام علیہم السلام کے بعد تمام لوگوں میں سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالق کائنات اﷲ رب العزت نے کلام پاک میں کئی مقامات پر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالی عنہ کے متعلق بیان فرمایا ہے، جن میں سے ایک آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ’’اگر تم ان کی مدد نہ کروگے تو بے شک اﷲ تعالیٰ نے ان کو مدد سے نوازا، جب کافروں نے انہیں نکال دیا تھا، وہ دو میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں غار ثور میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے: غمزدہ مت ہو، بے شک اﷲ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، پس اﷲ تعالیٰ نے ان پر اپنی سکونت کو نازل فرمایا اور انہیں ایسے لشکروں کے ذریعہ طاقت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست کردیا، اور اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فرمان تو بلند و بالا ہی ہے، اور اﷲ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔ (سورۂ توبہ، آیت۴۰)
اسی طرح خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی شان میں کچھ اور بھی قرآنی آیات نازل ہوئیں، جن میں سے باعتبار فضیلت سورۂ توبہ کی چالیسویں آیت کے علاوہ دیگر چھ (۶) آیات حسب ذیل ہیں:
ایک: سورۂ زمر آیت نمبر تینتیس (۳۳)، دو: سورۃاللیل میں پانچ آیات، سترہ تا اکیس (۱۷تا ۲۱)، یہ تمام آیتیں اپنی اپنی جگہ بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں۔ شان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے بیان کے لئے مذکورہ سورۂ توبہ کی چالیسویں آیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
مذکورہ آیت مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے بڑی ہی باریکی کے ساتھ کئی مضامین شامل کردیئے، جس کا تعلق نبی آخرالزماں حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان رسالت سے بھی ہے اور شان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے بھی۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ’’ثانی اثنین اذ ہما فی الغار‘‘ ترجمہ: ’’جبکہ وہ دونوں کے دونوں غار ثور میں تھے‘‘۔ مزید ملاحظہ ہو:

وہ دونوں ہجرت کرنے والے جن میں سے ایک حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہیں۔ اذیقول لصاحبہ: جب رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے فرمارہے تھے: لا تحزن ان اﷲ معنا ’’غمزدہ مت ہوؤ بے شک اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کا جو مقام ومرتبہ بیان فرمایا ہے، صحابۂ کرام میں کسی اور کو اس طرح کا مقام و مرتبہ عطا نہیں کیا۔ سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت الحمد ﷲ رب العالمین سے لے کر من الجنۃ والناس تک اگر بغور پڑھاجائے تو یہ بات بالکل عیاں ہوجائے گی کہ صحابۂ کرام کی مجموعی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ ہی وہ واحد شخصیت ہیں، جن پر اﷲ رب العزت نے نص صریح کے ساتھ مہر صداقت لگادی۔ اس بات میں کسی بھی جماعت کے علمائے تفسیر کو کوئی اختلاف نہیں ہے، نہ اہل تفسیر میں اور نہ اہل حدیث میں اور نہ اہل تاریخ میں۔ سب کے پاس یہ بات مسلم و معتبر ہے کہ اذیقول لصاحبہ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی ذات گرامی ہے۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اگر کو ئی شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو وہ اِس نص قرآنی کے انکار کی وجہ سے کافر قرار دیا جائے گا اور اس کے مسلمان ہونے کی کو ئی گنجائش باقی نہیں رہے گی، کیونکہ انکار کی صورت میں اس نے نہ صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کیا، بلکہ اس نے نص قرآنی کا بھی انکار کیا ہے۔

جب صحابیتِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ایمان لانا، قرآن پر ایمان لانا ہے تو سب کو سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کا مقام و مرتبہ اور عزت و تکریم کیا ہے اور صحابی کو صحابی ماننے کا حق امت پر کس نوعیت کا ہے۔
اب جو لوگ اس اہم مسئلہ میں احتیاط سے کام نہیں لیتے، محض سنی سنائی باتوں پر بڑے بڑے صحابۂ عظام پر تنقید کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خبرگیری کرنی چاہئے۔
zubairhashmi7@gmail.com