حضرت سراقہ بن مالکؓ کو سفر ہجرت میں امان نامہ عطا ہوا

کسریٰ کے کنگن پانے کی نوید اور قرب و عنایت خاص کا اعزاز، آئی ہرک کا لیکچر
حیدرآباد ۔30 نومبر( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے سارے جہانوں کے لئے رحمت اور ساری انسانیت کے لئے رسول و ہادی اعظم بنا کر مبعوث فرمایا۔ قریش میں سے رسول اللہؐ کی طرف سے جواباً عنایات بیکراں عفو و کرم سے سرفراز ہو کر دامن رحمت سے دائماً و ابستہ ہو جانے والے بے حد و شمار اصحاب میں ایک نہایت نمایاں نام حضرت سراقہؓ بن مالک بن جعشم کا بھی ہے جنھیں سفر ہجرت کے واقعات میں سے ایک واقعہ کے باعث شہرت دوام حاصل ہوئی اور جو ابتداء میںاسلام کے شدید مخالف تھے۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۲۳‘ویں تاریخ ا سلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت شمویل علیہ السلام کے مقدس حالات اور دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت سراقہ بن مالکؓ کے حالات شریفہ پر توسیعی لکچر دیئے۔قرا ٔت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔جناب سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ و معاون ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری مطالعاتی مواد پیش کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا بعدہٗ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۸۶۳‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ ہجرت کے موقع پر حضور انورؐ مکہ مکرمہ سے سوے مدینہ منورہ روانہ ہوے تو قریش نے اعلان کر دیا کہ جو تعاقب کر کے کسی حالت میں حضور اکرمؐ کو واپس مکہ مکرمہ لاے گا اسے ایک سو اونٹ انعام دیا جاے گا۔ اتنے بڑے انعام نے قریش کے تمام تیز رو لوگوں کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچا دی بہت سارے لوگ حصول انعام کے شوق میں اپنے گھروں سے بلند عزائم کے ساتھ نکلے لیکن حضور اقدسؐ کو مکہ والوں کے سپرد کرنا تو دور کی بات، پتہ تک نہ چلا سکے کہ کس راستے سے سفر ہجرت ہوا۔ سب ناکام لوٹے لیکن سراقہ بن مالک نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں، تجربہ اور تیز روی سے اس جگہ تک پہنچ گئے جہاں سے رسول اللہؐ اور حضرت ابو بکر ؓ کا قریب سے مشاہدہ ممکن ہو سکا۔ جب تعاقب کر کے قریب پہنچے تو سراقہ کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ زمین پر آرہے دو بارہ پھر سوار ہو کر پیچھا کیا تو اسی طرح ٹھوکر کھائی اور گر پڑے جب وہ حضور انورؐ کے قریب پہنچے تو انھوں نے رسول اللہؐ کی قراء ت کی آواز سنی یکایک ان کے گھوڑے کے دونوں اگلے پائوں زمین میں دھنس گئے وہ گھوڑے کی پشت سے اتر پڑے۔ پھر جب سراقہ بن مالک اور رسولؐ اللہ کے درمیان ایک یا دو نیزے برابر فاصلہ رہ گیا تو حضور انورؐ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ’’ اے اللہ ہمیں اس کے شر سے جس طرح تو چاہے محفوظ رکھ‘‘۔ تو اسی وقت گھوڑے کے چاروں پائوں زانوں تک دھنس گئے۔ سراقہ التجا ء کرنے لگے کہ اب میں واپس پلٹ جائوں گا اور وعدہ کرتا ہوں کہ جو تعاقب میں آے گا اسے لوٹا دوں گا۔ اس پر رسول اللہؐ نے دعا فرمائی اے اللہ اگر یہ سچ بول رہا ہے تو اس کے گھوڑے کو نجات دے دے اسی وقت گھوڑکے پیر زمین سے باہر نکل آگئے سراقہ بن مالک نے حضور اقدسؐ کی خدمت میں کچھ سامان پیش کیا تو حضور اقدس ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں کوئی حاجت نہیں البتہ تجھے چاہئیے کہ ہمارا معاملہ پوشیدہ رکھے ۔سراقہ نے اس موقع پر ایک امان نامہ کی درخواست کی جو عطا ہوا وہ واپس ہوے اور اہل مکہ سے واقعہ کی تفصیلات اپنے انداز سے بیان کیں جب رسول اللہؐ مکہ مکرمہ فتح فرمایا تو سراقہ اپنے قبیلہ کی کثیر تعداد کے ساتھ خدمت اقدسؐ میں حاضری دی اور شرف اسلام پایا۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ سراقہ بن مالکؓ کا سلسلہ نسب عبد مناہ بن کنانہ مدلجی تک جا ملتا ہے اسی لئے وہ مدلجی سے معروف تھے ان کی کنیت ابو سفیان تھی۔ فتح مکہ کے بعد ایک روایت کے بموجب بمقام جعرانہ جب کہ حضور اقدسؐ حنین و طائف سے مراجعت فرما رہے تھے، خدمت عالیہ میں حاضر ہوے اور امان نامہ پیش کر کے اسلام میں داخل ہوے ۔سراقہ بن مالکؓ جب سے مسلمان ہوے تو پھر ہمیشہ کے لئے خدمت اقدس کے لئے وقف ہو گئے مدینہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی دربار رسالت پناہیؐ میں ہمہ وقت حاضر رہا کرتے۔ انھیں حجۃ الوداع میں ہمراہی کا شرف ملا۔ وہ حضور انورؐ کی عنایات خاص سے سرفراز تھے معاصرین ان کا بڑا لحاظ و اکرام کیا کرتے تھے۔ عہد فاروق اعظمؓ میں جب ایران فتح ہوا تو شاہ ایران کسریٰ کے کنگن، تاج اور کمر بند خود حضرت عمر ؓ نے انھیں پہنایا اور رسول اللہؐ کے ارشاد کی تعمیل کی اور خصور اقدسؐ کی پیشین گوئی کی سچائی اور حقیقت کو ظاہر کیا۔ ان سے کتب احادیث میں ۱۹ حدیثیں مروی ہیں۔ وہ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ۲۴ ھ میں حضرت سراقہ ؓ کی وفات ہوئی۔ اطاعت حق تعالیٰ، عشق رسولؐ اور تعمیل سنت نبویؐ سے ان کی کتاب زندگی عبارت تھی۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہیؐ میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۱۲۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے خیر مقدم کیا اور آخر میں جناب مظہر حمیدی نے شکریہ ادا کیا۔