حضرت سالمؓ بن عبید حفاظ صحابہ میں ممتاز، عنایات رسالت پناہیؐ سے مشرف

تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی اور پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کے لکچرس
حیدرآباد ۔22؍مارچ( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کرام کو قرآن مجید کے معانی کی تعلیم ہی نہیں فرماتے بلکہ انھیں قرآن پاک کے الفاظ بھی حفظ کرواتے۔ حضور انورؐ کی خاص توجہ سے صحابہ کرام کو کلام اللہ کے معانی اور الفاظ جلد سیکھنے اور یاد کر لینا بہت سہل ہو گیا تھا۔ انھیں قرآن مجید سے اس قدر سچی محبت اور اسے یاد رکھنے کا ایسا ایمانی ذوق تھا کہ ان میں اس بارے میں روح پرور مسابقت عام تھی۔ہر ایک دوسرے سے پہلے اور زیادہ سے زیادہ حفظ کر لینے کا قلب کی گہرائیوں سے آرزومند رہا کرتا بعض عورتوں نے اپنا مہر اپنے شوہروں سے تعلیم قرآن مقرر کر لیا تھا یعنی شوہر بیوی کو قرآن پاک سکھا دے تو وہ اپنے شوہر سے مہر طلب نہیں کرتی۔ صحابہ کرام کی قرآن حکیم سے وابستگی کا یہ حال تھا کہ ان میں سے سینکڑوں نفوس قدسیہ نے تمام امور حیات سے دستکش ہو کر اپنے آپ کو کلام مجید کے لئے وقف کر لیا تھا مسجد نبوی شریف میں قرآن مجید کی تعلیم دینے والوں اور قرآن مجید سیکھنے والوں کی کثرت و ازدحام ایک واقعہ ہے ایک مختصر سے عرصہ میں صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد نے کلام حق تعالیٰ قرآن مجید کو حفظ کر لیا تھا۔ اس جماعت میں خلفاء اربعہ اور اکابر صحابہ کی اکثریت شامل ہے جن کے منجملہ بعض اسماء گرامی روایات میں محفوظ ہوگئے اور بعض نام رہ گئے۔ تاہم حضور انورؐ کا قبائل کی طرف بیک وقت ۷۰ قاریان قرآن کو تعلیم قرآن کریم کے لئے بھیجنا معلوم و مشہور ہے۔ صحابہ کرام کے درمیان حفاظ قرآن کی مبارک جماعت میں حضرت سالمؓ بن عبید کا اسم شریف نمایاں طور پر ملتا ہے۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن، سبزی منڈی اور بعد ظہر جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ 1139ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت دائود علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں حضرت سالم بن عبید ؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔جناب سید محمد علی موسیٰ رضا قادری نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ و معاون ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری مطالعاتی مواد پیش کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا بعدہٗ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۸۷۹‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ڈاکٹرسیدمحمد حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ حضرت سالمؓ بن عبید رسول اللہؐ سے خاص تقرب رکھتے تھے اور حضور اکرمؐ ان پر لطف و کرم فرمایا کرتے۔ حضرت سالمؓ کو قرآن مجید سے گہر انس روحانی تھا اسی ذوق عظیم نے انھیں امتیاز بخشا تھا۔ حضرت سالمؓ زمرئہ قراء میں سے تھے رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن چار شخصوں سے حاصل کرو اور انہیں چار میں ان کا نام بھی ارشاد فرمایا۔ حضرت سالمؓ دراصل حضرت ابو حذیفہؓ کے غلام تھے ان کا تعلق علاقہ اصطخر ملک فارس سے تھا ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ حضرت ابو حذیفہؓ نے بعد میں انھیں متبنیٰ بنا لیا تھا۔حضرت سالمؓ بن عبید کا شمار مہاجرین میں کیا گیا اور حضرت ابو حذیفہؓ کی زوجہ محترمہ (انصاریہ)نے انہیں آزاد کیا تھا اس بناء پر انھیں انصار میں بھی شامل سمجھا گیا۔ فارسی ہونے کے باعث ان کو عجمیوں میں بھی مانا گیا۔ حضرت سالمؓ کو ہجرت کا پہلے موقع ملا حضور انورؐ کے مدینہ رونق افروز ہونے تک وہ جماعت مہاجرین کی امامت بھی کیا کرتے تھے کیوں کہ یہ قرآن زیادہ جانتے تھے۔ ایک دفعہ حضور انورؐ نے ان کی خوبی قرآء ت پر بے پناہ خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوے ارشاد فرمایا کہ ’’ اللہ کا شکر ہے جس نے تم جیسے کو میری امت میں لیا۔‘‘ یہ ارشاد حضرت سالمؓ کے کلاہ فضیلت میں طرہ امتیاز ہے۔ حضرت سالمؓ کو رسول اللہؐ کے ہمراہ غزوات بدر و احد و خندق میں شرکت کا موقع نصیب ہوا اور وہ تمام مشاہد میں ساتھ رہا کرتے تھے۔ حضرت سالمؓ بن عبید عشق الٰہی کی دولت سے مالا مال تھے اور محبت رسول اللہؐ ان کی کتاب حیات کا عنوان جلی تھا تقویٰ و پرہیزگاری ، عبادت و ریاضت میں منفرد تھے علوم نبویہ سے مشرف ہونے کے باعث معاصرین میں مرجع احترام تھے حضرت امیر المومنین فاروق اعظمؓ ان کی اکثر تعریف کرتے۔ حضرت سالمؓ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا وہ رسول اللہؐ کی عنایات خاص سے شرف یاب تھے یہی وجہ ہے حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کے قریب جب خلافت کو مشورہ پر چھوڑ دیا تھا تو فرمایا تھا کہ اگر سالمؓ زندہ ہوتے تو میں اس معاملہ کو مشورہ پر ہر گز نہ چھوڑتا یعنی ان کی راے قبول کرتا۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے بتایا کہ حضرت سالمؓ کو راہ مولیٰ میں جان قربان کرنے اور شہادت کی تمنا تھی چنانچہ جنگ یمامہ میں ان کی یہ آرزو پوری ہوئی۔انھوں نے نہایت شجاعت کے ساتھ جہاد کرتے ہوے جام شہادت نوش کیا۔ اس جنگ میں وہ پرچم اسلام تھامے ہوے تھے جب دونوں ہاتھ کٹ گئے تو علم کو گلے میں دباے جدال کرتے رہے۔ اسی معرکہ میں حضرت ابو حذیفہؓ بھی شہید ہوے تھے۔ حضرت سالمؓ قریش، انصار اور عجمیوں (اہل فارس) میں بھی اپنے علم و فضل اور خدمت دین کے لحاظ سے منفرد تھے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالتؐ میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں تعارفی کلمات کہے اور آخر میں جناب مظہر اکرام حمیدی نے شکریہ ادا کیا۔