حضرت خواجہ حیدر علی آتشؔ

ڈاکٹر امیر علی
حضرت خواجہ علی نجش آتشؔ کا شمار دبستانِ دلی اور لکھنو کے سربر آوردہ اور عظیم المرتبت غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنے فکر و فن اور خداداد صلاحیتوں سے اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا ۔ وہ دبستان دلی اور لکھنو کے منفرد اور مایہ ناز شاعر ہیں ۔ انہوں نے زبان کے ایسے دریا بہائے جس سے سارا ہندوستان آج بھی سیراب ہورہا ہے ۔ آتش کی شاعری وقت گزاری یا دل بہلانے کا وسیلہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے اردو زبان و ادب کی بے پناہ خدمات انجام دی ہے ۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں کیف و سرمستی میںڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ آتش کے کلام میں ان کے تخلص کے اعتبار سے گرمی بہت ہے اور تصنع و تکلف نام کو نہیں ہے ۔ ان کی غزلوں میں تر شے ہوئے الفاظ موتیوں کی طرح لڑی میں پروئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی شاعری مرقع معلوم ہوتی ہے۔ آتش نے اپنی شاعری کو اپنے عہد کے مذاق اور مزاج ہی تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی جدت طبع اور تصوف کا سہارا لیکر وہ معنویت پیدا کردی اور اپنے کلام کو پرسوز اور پر اثر بنادیا ہے ۔ اردو کی علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر رشید احمد صدیقی نے غزل کے متعلق کہا تھا کہ ’’غزل اردو شاعری کی آبرو ہے‘‘۔ چونکہ غزل میں محبوب کا ذکر ہوتا ہے ۔ اس بناء پر غزل کا اہم موضوع عشق ہوا اور یہ عشق مجازی بھی ہوسکتا ہے اور حقیقی بھی ۔ مگر غزل کا سب سے اہم عنصر عشق اور اس کی ترجمانی ہے ۔ خواہ وہ عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی ۔ اردو کے سبھی شعراء نے غزل کو اپنایا اور اپنی شعری صلاحیتوں سے بڑے ہی موثر اور پرسوز اشعار کہے ہیں۔ آتش کی شاعری میں انسانی اقدار کی سربلندی ، اخلاقی مسائل ، درد مندی اور علم تصوف کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ آتش نے اپنی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی اور فانی کا تذکرہ بڑے ہی حکیمانہ اور فلسفیانہ انداز میں کیا ہے ۔ چنانچہ آتش اس طرح فرماتے ہیں۔
دہن پر ہیں اُن کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
نہ گور سکندر ، نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
آتش ایک صوفی منش اور بوریا نشین شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی فقیرانہ اور دروشیانہ طرز پر بسر کردی ۔ اُن کے ان اشعار سے فقیرانہ زندگی اور سادگی کی عکاسی ہوتی ہے ۔
منزل فقرِ و فنا جائے ادب ہے غافل
بادشاہ تخت سے یاں اپنے اتر لیتا ہے
کام ہے شیشے سے ہم کو اور نہ ساغر سے غرض
مست رہتے ہیں، شرابِ روح پرور سے غرض
آتشؔ نے اپنی شاعری سے انسان کی عظمت کو اجاگر کیا اور پست ہمتی کی مذمت بھی کی ہے ۔ اُن کے اشعار میں دنیا کی فنا پذیری ، دولت دنیا اور جاہ و حشمت سے کنارہ کشی ، ترک دنیا ، توکل ، معرفت اور قناعت جیسے موضوعات موجود ہیں۔ ہندو موعظمت کے اعلیٰ نمونے آتش کے کلام میں نمایاں ہیں۔ آتش نے ان خیالات کا اظہار اپنی ایک مشہور غزل میں اس طرح کیا ہے ۔
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کے کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہارِ گلستان کی ہے آمد آمد
خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے
توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کیئے ناتواں کیسے کیسے
دل و دیدۂ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
ترے کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش روجواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکر نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے
آتشؔ ایک خوددار اور خدا ترس انسان و شاعر ہیں۔ آتشؔ قلندرانہ طبیعت کے مالک تھے ۔ اُن کی شاعری میں تصوف کی گہری چھاپ موجود ہے۔ نفس کشی اور مسلسل ریاضت نے انہیں صوفی منش اور بوریا نشین شاعر بنادیا تھا جو آخری دم تک قائم رہا ۔ آتش کے کلام میں تصوف کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی اس طرح رقمطراز ہیں۔ تصوف و اخلاق سے متعلق آتش کی شاعری کا یہ حصہ پورے لکھنو اسکول کی آبرو روکھنے کیلئے کافی ہے ۔ یہ نظام فکر شاعر کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے اور اسے اعلیٰ ترین انسانی اقدار سے وابستہ کردیتا ہے جس کی بدولت غزل میں سنجیدہ خیالات کو جگہ ملی ۔ ’’اردو زبان و ادب اور شاعری یوں ہی نہیں فروغ پائی اس کو پروان چڑھانے میں اردو کے سبھی شعراء اور اہل کمالوں نے اپنے خون جگر سے ادب اور شاعری کے باغ کو سینچا جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں اس باغ کے باغبان ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعر پیدا نہیں کئے جاتے بلکہ پیدا ہوجاتے ہیں اور شعراء کو اپنے کلام کو جاویداں بنانے کیلئے سخت محنت اور مشقت درکار ہوتی ہے کیونکہ قدرت بھی ا پنے خزانے یوں ہی نہیں لٹاتی۔ دبستان لکھنو کے نام آور شاعر آتش نے ا پنی خداداد صلاحیتوں سے اردو زبان و ادب اور شاعری میں بڑا نام کمایا اور اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا اور انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے بے شمار اشعار دیئے ہیں جو آج بھی اپنا اثر رکھتے ہیں۔ نمونۂ کلام کچھ اس طرح ہے ۔
کوچۂ دلبر میں بلبل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے
مغرور نہ ہو اپنی جوانی پہ آدمی
پیری نے آسماں کی کمر کو جھکادیا
آخر کار تہ خاک ہے مسکن اُن کا
اہلِ دولت کو بلند آج مکاں کرنے دو
فقیری جس نے کی گویا اسی نے بادشاہی کی
جسے ظلِ ہما کہتے ہیں درویشوں کا کمبل ہے
میرا دیوان ہے ، ائے آتشؔ خزانہ
ہر ایک ہیت اس میں ہے گنج معانی
اپنے شعر میں ہے معنی تہہ دار آتش
وہ سمجھتے ہیں جو کچھ فہم و ذ کا رکھتے ہیں
آتشؔ کا آبائی وطن دلی ہے۔ اُن کے والد بزرگوار نواب شجاع الدولہ کے عہد میں فیض آباد (لکھنو) آگئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی اور یہیں 1778 ء کو آتش کی پیدائش ہوئی ۔ آتش ابھی کمسن ہی تھے کہ ان کے والد بزرگوار کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے آتش کی تعلیم ادھوری رہ گئی ۔ پھر بھی آتش نے اپنی ذاتی کوششوں سے اردو ، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی اور سپاہیوں کی صحبت میں رہ کر تلوار چلانے کے فن میں مہارت حاصل کرلی اور عجیب اتفاق ہے کہ یہی فن اُن کے گزر بسر کا ذریعہ بنا ۔ فیض آباد کے ایک نواب مرزا محمد تقی خان ترقی کے ہاں شمشیر زانوں میں شامل ہوگئے ۔ جب نواب صاحب فیض آباد سے لکھنو آگئے تو آتش بھی ان کے ہمراہ لکھنو آگئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔ فیض آباد میں ہی آتش کو شاعری کا چسکا لگ چکا تھا اور لکھنو آکر مضحفی کے شاگرد ہوئے۔ آتش قلندردانہ مزاج رکھتے تھے اوران کی طبیعت میں قناعت پسندی اور سادگی حد درجے موجود تھی ۔ (80) اسی روپئے ماہانہ تنحواہ پاتے تھے ، پندرہ (15) روپئے گھر والوں کو دیتے تھے اور باقی راہِ حق میں صرف کردیتے۔ کبھی کبھی فاقہ بھی ہوجاتا تھا ۔ آتش کا گھرانہ خواجہ زادوں کا خاندان تھا اور ساتھ ساتھ پیری مریدی کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ اسی لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا اور نہ ہی کسی امیر ، رئیس یا نواب سے مدد طلب کی ۔ لکھنو م یں آتش کے کئی شاگرد ہوئے جن میں امیر زادے بھی تھے مگر کبھی کسی سے بھی مدد نہیں لی ۔ آتش کے قلندرانہ مزاج کے بارے میں ’’آبِ حیات‘‘ کے مصنف محمد حسین آزاد اس طرح رقمطراز ہیں۔ وہ ا یک ٹوٹے ہوئے مکان میں جس پر کچھ چھت کچھ چھپرا سایہ کئے ہوئے تھے اور بوریا بچھا رہتا تھا ، اسی پر ایک لنگ باندھے صبر و قناعت کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے اور اپنی عمر چند روزہ کو اس طرح گزار دیا جیسے کوئی بے نیاز و بے پرواہ فقیر تکیہ میں بیٹھا ہو‘‘۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بھی آتش کی طبیعت میں بانکپن تھا اور وہ ہمیشہ سپاہسیانہ وضع قطع کے ساتھ رہا کرتے تھے ۔ ا یک ڈنڈا ہمیشہ ہاتھ میں رہتا تھا ، گیر و تہبند باندھتے تھے اور پیر میں سلیم شاہی جوتا پہنتے تھے ۔ آتش کو اپنی مدنگی میں دولت ، شہرت اور ثروت کی ہوس کبھی نہیں رہی ۔ وہ اپنی زندگی سادگی اور قناعت پسندگی میں بسر کردی ۔ یہ تھا شائستہ تہذیبی و اخلاقی ورثہ جس کے آتش تنہا وارث تھے ۔ آتش ازل سے ہی عشقِ کا جذبہ اپنے دل میں لیکر پیدا ہوئے تھے ۔ وہ سانس بھی لیتے تو ان کو محسوس ہوتا تھا کہ عشق کی چھری ان کے قلب و جگر میں پیوست ہورہی ہے ۔ آتش کے عشق میں سادگی ، تسلیم و رضا اور ادب و احترام ہے ۔ کبھی بے ادب ہوتے ہیں اور نہ گستاخ ، والہانہ جذبات ، لطافت زبان اور نزاکت الفاظ و بیان آتش کا مخصوص رنگ ہے۔
آتش بڑے خوددار اور خدا ترس انسان تھے۔ آتشؔ نے طویل عمر پائی اور آخری عمر تک فقیرانہ اور قلندرانہ زندگی بسر کی اور زمانے کی بہاروں کو بھی دیکھا اور دنیا کی گرم ہواؤں کو بھی قریب سے دیکھا اور اس کے چر کے بھی سہے، مگر وقت کی گرم ہوائیں ان کے ارادوں کو بدل نہ سکیں اور وہ اپنی دھن میں مگن رہے اور آخری دم تک اردو زبان و ادب اور شاعری سے اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا ۔ وہ دبستان لکھنو کے صف اول کے غزل گو شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ آتش کے شاگردوں ، دوست احباب اور ان کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا اور سبھی لوگ ان کی شخصیت اور شاعری کے دلدادہ تھے اور آتش کا کلام آج بھی موجود ہے۔ آتش کے کلام میں بڑی گیرائی اور گہرائی ہے۔ ان کے اشعار اپنا ایک خاص رنگ رکھتے ہیں اور ان کی شخصیت کا یہی بانکپن اور انفرادیت ہے جو ان کے شعروں میں اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ آخری ایام حیات میں آتش کی صحت ساتھ چھوڑنے لگی اور آنکھوں کی بینائی بھی جاتی رہی اور انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور بمقام لکھنو ہی میں 1263 ھ مطابق 1846 ء کو اپنی جان ، جان آفرین کے سپرد کردی اور اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے اور ’’غربت میں‘‘ ، ’’مینائے آتش‘‘ توڑ ڈالی۔
کہ برسوں پرانی کہانی ہیں ہم
کہ فانی نہیں جاودانی ہیں ہم