حضرت خواجہ اجمیریؒ

ڈاکٹر سید بشیر احمد
حضرت خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کا اِسم گرامی معین الدین حسن اور عرف خواجہ غریب نوازؒ ہے۔ آپ علاقہ سیستان کے قصبہ سنجر میں 14 رجب المرجب 537ھ کو تولد ہوئے۔ آپ نے خراساں میں سکونت اختیار فرمائی۔ آپ نے خراسان میں رونما ہونے والے پُرتشدد واقعات سے متاثر ہوکر دُنیاداری سے دُوری اختیار فرمائی اور خود کو اِسلام کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔ ان حالات سے گزرنے کے دو تین سال بعد جب آپ کی عمر پندرہ برس کی تھی، آپ والدین کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ آپ کے والد محترم کے وصال کے بعد آپ کو ایک پات اور ایک چکی ترکہ میں ملی جو آپ کا ذریعہ معاش تھا۔

جس شہر میں آپ کا باغ واقع تھا، اس شہر میں مشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی رہا کرتے تھے۔ حضرت قندوزی پھرتے پھراتے اتفاق سے حضرت معین الدین حسنؒ کے باغ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ حضرت معین الدین حسن نے دوڑکر سلام عرض کیا اور دست بوسی کا شرف حاصل کیا اور اپنے باغ میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے بٹھایا اور ایک انگور کا خوشہ پیش کیا۔ حضرت نے قبول فرمایا اور اپنے پاس سے شیرمال کا ایک ٹکڑا نکال کر چبایا اور حضرت خواجہ معین الدین حسن کے منہ میں ڈال دیا۔ نوالہ حلق سے اُترا اور حضرت معین الدین حسنؒ پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ کا دِل نور سے منور ہوگیا اور یہیں سے آپ کی زندگی میں ایک عظیم تبدیلی آئی۔ آپ نے اپنا باغ چکی اور دیگر سامان فروخت کرکے غرباء میں تقسیم فرمایا اور خدا کی راہ میں جٹ گئے۔

حضرت نے علم شریعت کے حصول کے لئے سمرقند و بخارا جو اُس دور میں علمی مراکز تھے، وہاں حضرت حسام الدین بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ظاہری میں علوم کے علاوہ حفظِ قرآن کی بھی سعادت حاصل کی۔ تحصیل علم سے فارغ ہوکر آپ ارض مغرب کی طرف نکل پڑے، جہاں متعدد بزرگانِ دِین کے مزارات ہیں۔ ان سب کی زیارت کرنے کے بعد آپ نیشاپور کے موضع ہارون پہنچے۔ وہاں پر حضرت شیخ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ سے شرفِ ملاقات حاصل کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔

خلافت سے سرفراز کئے جانے کے بعد آپ ادائی حج کے لئے بیت اللہ گئے۔ راستہ میں متعدد بزرگانِ دِین سے آپ کو ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کی زیارت کے لئے پہنچے۔ اس کے بعد مدینۂ منورہ سے رخصتی حاصل کرکے آپ بغداد کے لئے روانہ ہوگئے۔ قصبہ سنجال میں آپ کو حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ سے ملاقات کا موقع ملا۔ کچھ عرصہ ان کی خدمت میں گزارکر اور ان کی فیض صحبت سے مستفید ہوکر آپ بغداد پہنچے۔ وہاں پر آپ کی ملاقات پیرانِ پیر حضرت غوث الاعظم دستگیر رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی۔ بغداد ہی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور خلافت سے نوازے گئے۔

حضرت، بیرونی ہند کے دورہ کے بعد ہندوستان واپس ہوئے۔ اُس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت بہت بُری تھی اور اِسلامی اقدار سے لوگ دُور ہوگئے تھے۔ ابتداء میں آپ لاہور میں تشریف فرمارہے اور نورِ ہدایت سے لوگوں کے دِلوں کو منور کیا۔ اس کے بعد آپ دہلی تشریف لائے۔ دہلی میں آپ نے چراغ اِسلام کو روشن کیا اور حضرت خواجہ قطب الدین کو اپنا خلیفہ مقرر کرکے ان کو ضروری ہدایات سے سرفراز فرمایا اور دہلی سے اجمیر روانہ ہوئے۔ وہاں پر راجہ پرتھوی راج حکمراں تھا۔آپ نے اجمیر میں مستقل سکونت کا اِرادہ فرمایا اور تبلیغ دِین کا کام شروع کردیا۔ آپ کو وہاں پر شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر عزم مصمم سے کام لیا اور چراغ اِسلام کو روشن فرمایا جس کی روشنی سے سارا اجمیر متاثر ہوا اور لوگ پے درپے جامِ توحید نوش کرنے لگے۔ آپ نے اجمیر میں مستقل قیام کا اِرادہ فرمایا اور شہر سے باہر ایک میدان میں اپنے مریدین اور خدام کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے۔
آپ جس میدان میں تشریف فرما ہوئے تھے، وہاں پر راجہ کے اُونٹ بیٹھا کرتے تھے۔ اُونٹوں کے نگہباں معترض ہوئے اور آپ سے کہا کہ یہ راجہ کے اُونٹوں کی بیٹھک کی جگہ ہے۔ اس لئے فوری وہاں سے ہٹ جانے کا اصرار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کافی بڑی جگہ ہے، آپ کے اُونٹ وہاں بیٹھ سکتے ہیں۔ ہم ایک چھوٹی سی جگہ میں گزارا کرلیں گے، لیکن وہ لوگ نہیں مانے اور ان کے شدید اصرار پر حضرت وہاں سے اپنے مریدین کے ساتھ اُٹھ گئے اور فرمایا کہ ہم تو جاتے ہیں، لیکن یہاں پر راجہ کے اُونٹ ہمیشہ بیٹھے ہی رہیں گے۔

شام کو حسب معمول وہ اُونٹ چرتے میدان میں بیٹھ گئے۔ رات گزر گئی۔ صبح ساربانوں نے جب اُونٹوں کو اُٹھانا چاہا تو اُونٹ نہیں اُٹھے۔ اُونٹوں کو اُٹھانے کی ممکنہ کوشش میں ناکام ہونے کے بعد اُن لوگوں کو خیال آیا کہ حضرت کی بددعا کا اثر ہے، جو اُونٹ اپنی جگہ سے ہل نہیں رہے ہیں۔ چنانچہ آپس میں رائے مشورہ کرکے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معروضہ پیش کیا کہ ان کو معاف کیا جائے اور مویشیوں کو میدان سے اُٹھنے کا حکم دیا جائے۔ آپ نے کمال شفقت سے ان کا معروضہ سنا اور دعاء فرمائی۔ جب وہ لوگ واپس لوٹے تو اُونٹوں کو کھڑا پایا۔ اس کرامت سے وہ لوگ خائف ہوگئے اور وہ لوگ حضرت کے اجمیر میں قیام کو اپنے لئے مستقل خطرہ سمجھنے لگے۔

حضرتؒ اس میدان سے اُٹھنے کے بعد اناساگر تشریف لے گئے اور وہ مقام حضرت کو اپنے قیام کے لئے پسند آیا۔ وہاں پر کئی منادر تھے۔ ان میں ایک مندر بہت بڑا تھا جس میں راجہ اپنے مصاحب کے ساتھ آکر پوجا کیا کرتا تھا۔ ایسے مقام پر لوگوں نے آپ کے قیام کو اپنے لئے نامناسب سمجھا۔ ایک بار آپ کے معتقدین میں سے کسی نے ایک دو چار پرندوں کا شکار کیا اور ان کے کباب تیار کرکے کھانے لگے۔ وہاں پر مقیم برہمنوں کو یہ حرکت بہت گراں گزری اور وہ لوگ مرنے مارنے پر تل گئے۔ حضرت ان حالات کو دیکھ کر ایک لوٹا بھر پانی وضو کے لئے لیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اناساگر خشک ہوگیا ہے۔

یہ دیکھ کر لوگ راجہ کے پاس دوڑے اور سارا ماجرا سنایا۔ راجہ نے سپاہیوں کا ایک دستہ اُن لوگوں کے ہمراہ روانہ کیا۔ لوگ غیظ و غضب کی حالت میں لاٹھیاں وغیرہ لئے حضرت کے پاس پہنچے۔ اُس وقت حضرت نماز میں مشغول تھے۔ آپ کے مریدین وغیرہ اُن لوگوں کو دیکھ کر خائف ہوگئے۔ حضرت نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک مٹھی مٹی ہاتھ میں لے کر اُس پر آیت الکرسی پڑھی اور مجمع کی طرف پھینکا۔ مجمع کے ہاتھ پیر شل ہوگئے۔ یہ دیکھ کر عالمِ بدحواسی میں وہ لوگ بھاگ گئے۔ وہ لوگ عالمِ اضطراب میں بھاگتے ہوئے اور بڑی مندر کے بڑے سردار سے روروکر واقعات بیان کئے اور مدد کی درخواست کی۔

وہ سردار اُن لوگوں کے ہمراہ حضرت کے پاس پہنچا۔ حضرت نے جب اُس کی طرف دیکھا تو اُس کی حالت بدل گئی اور وہ روتا ہوا آپ کے قدموں میں گرا اور مشرف بہ اِسلام ہوگیا۔ اس طرح جن لوگوں کی سرپرستی شادی دیو نام نامی سحر کام کررہا تھا اور اپنی کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد اس کے ساتھی سخت برہم ہوگئے اور حضرت کے مقابلہ کے لئے اُس دَور کے ساحروں میں فوقیت رکھنے والے راجہ جے پال سحرکارک راجہ نے طلب کیا اور حضرت کے خلاف محاذ بندی کی۔
جے پال ہرن کی کھال پر بیٹھا ہوا میں اُڑتے ہوئے حضرت کی قیام گاہ کے قریب پہنچا۔ حضرت نے تازہ وضو بناکر اپنے گرد ایک بڑا دائرہ کھینچا۔ اجے پال کی ساری کوششیں اور تدبیریں ناکام ہوگئیں اور حضرت نے جو دائرہ کھینچا تھا، وہ اُس کے اندر قدم بھی نہیں رکھ سکا۔ اپنی اس ناکامی پر اس نے اپنے جادو کے اثر سے بے شمار سانپ حضرت کی طرف روانہ کئے، لیکن وہ سانپ حضرت کے کھینچے ہوئے دائرے تک پہنچ کر غائب ہوگئے۔ اس تدبیر کی ناکامی کے بعد اس نے اپنے جادو کا ایک نیا شعبدہ دکھایا۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ ہر طرف آگ برس رہی ہے، لیکن ایک شعلہ بھی دائرے کے اندر آنہ سکا۔

کچھ ہی دیر کے بعد جادوگر جے پال ہوا میں اُڑنے لگا۔ حضرت نے اپنے خادم سے فرمایا کہ وہ حضرت کے پاپوش کو فضاء میں اُچھال دے۔ جیسے ہی پاپوش ہوا میں اُڑنے لگا، وہ پے درپے جے پال کے سر پر برسنا شروع کردی اور وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑا اور حضرت کے قدم بوس ہوکر مشرف بہ اِسلام ہوگیا۔ جے پال کا اِسلام قبول کرنا تھا کہ کثیر تعداد میں لوگ مشرف بہ اِسلام ہونا شروع ہوگئے۔
اس واقعہ سے راجہ رائے پیتھوراؤ بڑا غضب ناک ہوا اور حضرت کی شان میں حضرت کے غائبانہ میں سخت کلام کرنے لگا۔ حضرت کی بددعاؤں کا اثر یہ ہوا کہ رب العزت کے غضب کا اُس کو سامنا کرنا پڑا اور سلطان شہاب الدین غوری نے اُس پر چڑھائی کی اور اُس کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو گرفتار کرکے قتل کردیا گیا۔حضرت کے بے شمار مرید تھے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے جانشین مقرر ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک دہلی میں واقع ہے۔