حضرت حسیل بن جابرؓ کی غزوہ اُحد میں خاص حالات میں شہادت

آئی ہرک کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی و دیگر کا خطاب
حیدرآباد ۔25 جنوری( پریس نوٹ) صحابہ کرامؓ نے دین حق کے لئے ہر طرح کی قربانی کو اپنا نصب العین بنا لیا تھا مال و متاع، اہل و عیال ہی نہیں راہ حق میں اپنی جان کو قربان کر دینے کا ایمانی اور حقیقی جذبہ انھیں ہر وقت مشتاق شہادت بناے رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کے قلوب کو اس جذبہ مقدس سے معمور فرمادیا تھا ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ دین مبین کی اقامت، استحکام، ترویج، تبلیغ، اشاعت و توسیع کے لئے اس کے بس میں جو کچھ ہے کر گزرے اور ان کی یہ تمنا ہر وقت پوری ہوتی رہی۔ ان عظیم المرتبت صحابہ کرام کی جماعت میں حضرت حسیل بن جابرؓ کا نام نامی شامل ہے جنھوں نے معرکہ احد میں جام شہادت نوش کیا۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۳۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت دائود علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں حضرت حسیل بن جابرؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے کہا کہ حضرت حسیلؓ کبر سنی کے باعث کمزوری ناتوانی کے باوصف حوصلہ و ہمت، راہ خدا میں کوشش، جذبہ خدمت دین اور شوق شہادت رکھتے تھے وہ گونا گوں خصوصیتوں اور اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔ انھوں نے بڑی طویل عمر میں نعمت ایمان پائی۔ رسول اللہؐ کی مدینہ منورہ جلوہ گری کے بعد ہی ان کے شرف یاب اسلام ہونے کا واقعہ ہے۔ڈاکٹر سیدحمید الدین شرفی نے بتایا کہ حضرت حسیلؓ کے جد کا نام جروہ تھا۔وہ یمان کی عرفیت سے مشہور تھے قبیلہ عبد الاشہل کے حلیف تھے چوں کہ وہ یمنی تھے وہاں سے ایک واقعہ کے سبب مدینہ منورہ آگئے تھے اور یہیں بود و باش اختیار کر لی تھی۔ حضرت حسیلؓ بھی بالعموم یمانی کے عرف سے بلاے جاتے تھے۔ حضرت حسیلؓ چوں کہ دراز عمر تھے اس وجہ سے غزوہ احد کے موقع پر انھیں حضرت ثابت بن وقشؓ کے ساتھ ایک بلند مقام پر بٹھا دیا گیا تھا اگر چیکہ کبر سنی کے باعث دونوں کو معرکہ آرائی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا مگر ان حضرات کا ذوق جہاد اور شوق شہادت دیگر مجاہدین سے کسی طرح کم نہ تھا اس وجہ سے ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں حالاں کہ ہمیں میدان جہاد میں ہونا چاہئیے تھا اب ہماری عمریں اتنی کم رہ گئی ہیں کہ آج یا کل کبھی بھی فرشتہ اجل کو دیکھنا پڑے گا، لہٰذا کیوں نہ ہم اپنے ہتھیار لے کر رسول اللہؐ کے ہمراہ ہو جائیں شاید اللہ ہمیں مرتبہ شہادت سے سرفراز کرے اس گفتگو کے بعد دونوں نے اپنی تلواریں اٹھائیں اور جہاد کے لئے میدان میں اترپڑے ان حضرات نے نہایت جوش اور حوصلے کے ساتھ مشرکین کا سامنا کیا ان میں سے ثابتؓ بن وقش تو کفار کے ہاتھوں شہید ہو گئے لیکن حضرت حسیل بن جابرؓ عدم شناخت کی بناء پر خود مسلمانوں کی تلواروں کا نشانہ بن گئے یہ سب کچھ نادانستگی کی بناء پر ہو گیا حالاں کہ ان کے فرزند حضرت حذیفہؓ چلا کر لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ یہ میرے والد ہیں مگر جب وہ شہید ہو گئے تو مسلمانوں نے کہا کہ ہم انھیں پہچانتے نہ تھے جب دیت کی ادائیگی کے لئے حضور انورؐ نے حضرت حذیفہ ؓکو طلب کیا تو انھوں نے اسے مسلمانو ںپر خیرات کر دیا اور ناواقفیت کے باعث حملہ کرنے والوں سے کہا کہ اللہ تمہیں معاف کرے وہ ارحم الراحمین ہے۔ قبل ازیں حضرت حسیلؓ غزوہ بدر میں بھی شریک جہاد ہونے کے ارادے سے مدینہ منورہ کی طرف نکلے تھے مگر کفار قریش نے انہیں محروس کر لیا تھا اور جب تک انھوں نے جنگ میں حصہ نہ لینے کا عہد نہ کیا انھیں رہا نہیں کیا۔ غزوہ احد میں حضرت حسیلؓ کی بالکلیہ انہونی حالات میں شہادت ہو گئی۔ ان کے دونوںفرزندان حضرات حذیفہؓ اور صفوانؓ کو بھی احد میں شرکت کی سعادت ملی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالتؐ میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۱۳۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں تعارفی کلمات کہے اور آخر میں جناب مظہر اکرام حمیدی نے شکریہ ادا کیا۔