حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ

مولانا حبیب عبد الرحمن بن حامد الحامد

جب اسلام کی شعاعیں مکہ مکرمہ سے دنیا کو منور کرنے لگیں تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی مکہ جاکر دولت ایمان سے مالا مال ہو گئے۔ آپ کی والدہ رباب اور والد حضرت حسیل (یمان) رضی اللہ تعالی عنہما کو بھی درجہ صحابیت ملا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جب یہ باپ اور بیٹا مکہ سے مدینہ آرہے تھے تو کفار نے ان کو پکڑلیا اور پوچھا: ’’کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘۔ آپ نے کہا: ’’ہم اپنے وطن جا رہے ہیں‘‘۔ کفار نے پوچھا: ’’تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد کے لئے تو نہیں جا رہے ہو؟‘‘۔ انھوں نے نفی میں جواب دیا۔ ان لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اس وقت مجھے ایک ایک آدمی کی سخت ضرورت ہے، لیکن تم لوگ اپنے وعدہ پر قائم رہو‘‘۔ اس طرح غزوہ بدر کی شرکت سے محروم رہے، تاہم غزوہ احد میں دونوں باپ بیٹے شریک جنگ رہے۔ باپ چوں کہ معمر تھے، اس لئے حضرت رفاعہ بن وقش انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ان کو ایک قلعہ کی نگرانی میں رکھا گیا۔
جب جنگ شروع ہوئی تو یہ دونوں یعنی حضرت حسیل اور حضرت رفاعہ نے ایک دوسرے پر طنز کرتے ہوئے تلواریں لے کر میدان جنگ میں کود پڑے۔ حضرت رفاعہ تو کفار مکہ کے ہاتھوں شہید ہوئے، لیکن حضرت یمان کو مسلمانوں نے غلطی سے شہید کردیا، حالانکہ حضرت حذیفہ چلاتے رہے کہ یہ میرے باپ ہیں، لیکن افراتفری میں شہید ہو گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت دی، مگر حضرت حذیفہ نے اس کو مسلمانوں میں تقسیم کردی۔
غزوہ احزاب (جنگ خندق) میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اعلان فرمایا کہ ’’جنت میں میرا قرب کون چاہتا ہے؟‘‘۔ تین مرتبہ آپﷺ نے آواز دی، مگر کوئی جواب نہ ملا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’حذیفہ بن یمان کہاں ہیں؟‘‘۔ عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میں حاضر ہوں‘‘۔ حکم ہوا کہ ’’دشمن کے کیمپ میں جاؤ، خبردار! تلوار اور تیر نہ چلانا، صرف ان کی گفتگو سن کر مجھے اطلاع دینا‘‘۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں خندق پھلانگ کر دشمنوں کے کیمپ میں جاکر دیکھا کہ ابوسفیان بن حرب سپہ سالار لشکر اپنے پیٹ کا زخم آگ سے سینک رہا ہے اور اس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’اب یہ جگہ ٹھہرنے کے قابل نہیں رہی، اس لئے کہ ہواؤں جھکڑ چلنے لگے، خیمے اکھڑنے لگے، چولھے سے ہانڈیاں گرنے لگیں، جانور سردی سے مرنے لگے۔ غذا کی قلت ہے، دس ہزار لوگوں کے لئے روزانہ بندوبست کرنا معمولی بات نہیں ہے‘‘۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ ساری باتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیں۔ جنگ احزاب کے علاوہ بیعت رضوان اور فتح مکہ میں بھی آپ شریک رہے۔ خدمت گزاری زندگی کا مقصد تھا، وضوء کے لئے پانی کا بندوبست کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی کھانا کھانے کا موقع ملتا تو جب تک آپﷺ شروع نہ کرتے، آپ بھی خاموش بیٹھے رہتے۔
اسی دوران چند دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت سے غیر حاضر رہنے پر والدہ کی طرف سے ڈانٹ پڑی تو فوراً نماز مغرب میں شامل ہوئے اور بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’کون؟‘‘۔ عرض کیا: ’’یارسول اللہ! آپ کا غلام حذیفہ ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اور آپ کی والدہ کو دعائیں دیں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد آپ عراق چلے گئے اور نصیبین کی ایک عورت سے شادی کرلی، پھر مدائن کی طرف چلے گئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی بہت قدر کرتے، اپنے دور خلافت میں نواح دجلہ کا مہتمم بنادیا اور آپ نے پوری    ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام نبھایا، اس طرح حضرت فاروق اعظم آپ کی کار کردگی سے بہت خوش ہوئے۔ سنہ ۱۸ہجری میں حضرت فاروق اعظم نے حکم دیا کہ نہاوند پر فوج کشی کے لئے کوفہ سے مجاہدین کو لے کر حضرت نعمان بن مقرن کی مدد کو پہنچو اور حضرت نعمان بن مقرن کو لکھا کہ ’’اگر میدان کارزار میں نعمان بن مقرن کو کچھ ہو جائے تو سپہ سالار حضرت حذیفہ بن یمان ہوں گے‘‘۔ چنانچہ معرکہ کارزار میں حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ تعالی عنہ کا گھوڑا پھسل گیا اور آپ پر تیروں کی بوچھار ہونے لگی، اس طرح آپ شہید ہو گئے۔ حضرت حذیفہ  رضی اللہ تعالی عنہ نے سپہ سالاری کے فرائض حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیئے۔ اسی دوران ایک آتشکدہ کے ذمہ دار نے دو صندوق مال اور جواہرات وغیرہ آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے مال خمس کے ساتھ وہ صندوق بھی حضرت فاروق اعظم کے پاس روانہ کردیا، لیکن امیر المؤمنین نے بیت المال میں اسے جمع کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے پھر حضرت حذیفہؓ کی خدمت میں اس حکم کے ساتھ روانہ کیا کہ اس کو فروخت کرکے مجاہدین میں رقم تقسیم کردی جائے۔ چنانچہ وہ مال چار کروڑ میں فروخت ہوا۔ بعد ازاں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو مدائن کی گورنری پر مامور کیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی سادگی سے گزارتے۔ جب آپ مدینہ منورہ واپس پہنچے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ’’میرے بھائی، میرے بھائی کہتے ہوئے آپ سے لپٹ گئے‘‘۔
سنہ ۳۵ہجری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے چالیس روز بعد آپ اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ سو سے زائد احادیث کے آپ راوی ہیں۔