اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل کا تاریخ اسلام اجلاس۔ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب
حیدرآباد ۔16نومبر( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی دعوت حق پر جلد یا کچھ دیر سے لبیک کہنے والے خوش نصیبوں نے رضاے حق کے انعام خاص سے اپنے آپ کو مشرف کر لیا اور رہتی دنیا تک تقدیس و تعظیم اور احترام و اکرام کے مرجع بن گئے ان عظیم المرتبت ہستیوں پر رسول اللہؐ کی عنایات خاص اور توجہات رحمت تھیں انھوں نے قرب و صحبت حبیب کبریاؐ کا ثمرہ عشق و اطاعت حق تعالیٰ، محبت و اتباع ر سول اکرمؐ کی صورت میں پایا اور آسمان ہدایت کے درخشاں ستارے بن گئے۔ انہی اوصاف حمیدہ سے متصف عظیم البرکات ہستیوں میں حضرت حارثؓ بن ہشام کا نام نامی بھی ملتا ہے جن کے لئے حضور اکرمؐ نے بطور خاص دعا کی تھی۔ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۲۱‘ویں تاریخ ا سلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت شمویل علیہ السلام کے مقدس حالات اور دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐحضرت حارث بن ہشام ؓ کے حالات شریفہ پر توسیعی لکچر دیئے۔قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ حضرت حارثؓ بن ہشام اگر چہ فتح عظیم مکہ مکرمہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوے لیکن قبولیت اسلام کے بعد انھوں نے خدا و رسولؐ سے محبت، جذبہ صدق و صفا، ذوق جہاد اور راہ حق میں ایثار و قربانی کے انمٹ نشان قائم کئے۔ غزوہ حنین میں مجاہدانہ طور پر شرکت، دین حق کے لئے مخلصانہ خدمت کے جذبات خیر کی آئینہ دار تھی۔ حضرت حارثؓ بن ہشام بڑے صاحب یقین، مستقل مزاج، حوصلہ مند، جری،فیاض و سخی تھے انھیں رسول اللہؐ سے والہانہ عشق تھا اور حضور انورؐ بھی انھیں بہت عزیز رکھتے۔ ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی نے بتایا کہ حضرت حارثؓ بن ہشام قریش کی شاخ بنو مخزوم سے تعلق رکھتے تھے ان کا نسب نامہ عمرو بن مخزوم سے جاملتا ہے۔ حضرت حارثؓ کی کنیت ابو عبد الرحمن تھی وہ شقی ازلی دشمن دین یعنی ابو جہل کے بھائی تھے اسی کے اصرار پر بدر میں مشرکین مکہ کی طرف سے آئے تھے لیکن موقع ملتے ہی میدان سے دور نکل آے تھے۔ اس ضمن میں حضرت حسانؓ بن ثابت سے ان کا مکابرہ مشہور ہوا۔ غزوہ بدر میں ابو جہل مارا گیا تھا تاہم حضرت حارثؓ بن ہشام قریش کے دبائو ہی میں رہے اور احد میں بھی اہل مکہ کے ساتھ تھے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو ان کے اسلام لانے کا انتظار تھا کیوں کہ ایک مرتبہ جب ان کا ذکر بارگاہ رسالت پناہیؐ میں ہوا تو حضور انورؐ نے ان کی فیاضی اور غرباء پروری کو پسند فرماتے ہوے ان کے اسلام کے متعلق فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ حارثؓ کو توفیق اسلام عطا فرماے چنانچہ فتح مکہ کے وقت وہ دیگر سرداران قریش کے ہمراہ حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہؐ نے انھیں ایک سو اونٹ مرحمت فرمائے اور انھیں مکہ مکرمہ جانے کی اجازت بھی عطا کی تھی البتہ وہ حضور اکرمؐ کی رحلت شریف کے وقت مدینہ منورہ میں تھے اور مذاکرات سقیفہ بنو ساعدہ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت حارثؓ بن ہشام کو میدان جہاد میں مظاہرہ شجاعت اور خدمت دین کی بڑی تمنا تھی عہد رسالت مآب ؐ میں غزوہ حنین میں شرکت کی تھی ما بعد عہد خلیفہ اول میں یہ دلی آرزو پوری ہوئی مختلف معرکوں میں اپنے کمالات حرب کا سکہ بٹھایا اور معرکہ یرموک میں جام شہادت نوش کیا۔ وقت آخر پانی کا ایثار کیا اور تشنہ لب ہی رخصت ہوئے۔