حضرت امام حسین ؓ کی شہادت

حضرت امام حسین ؓ کی شہادت
کائینات کی افضل ترین ہستی کے نواسے حضرت امام حسین ؓ نے اسلام کے تحفظ کے لئے رہتی دنیا تک یہ آفاقی پیغام دیا کہ ظالم کے ظلم و زور کا بلند حوصلے سے مقابلہ کریں۔ امام حسینؓ کا کردار نہ صرف عالم اسلام کیلئے بلکہ بنی نوع انسان کیلئے ایک مثالی کردار ہے۔ اس کردار اور شہادت نے ساری دنیا کو راہ استقامت کی روشنی دی ہے۔ فی زمانہ جدید، مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں بعض لوگ یزیدی افکار پر عمل پیرا ہیں اور خود کو اسلام کے ذمہ دار ٹھیکدار سمجھتے ہیں۔ ان کی حرکتیں انسانیت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے اسلام کی مسخ شدہ تصویر دنیا کے سامنے لاکر سارے عالم اسلام کو تنقیدوں اور مسائل کا شکار بنارہے ہیں۔ اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے اور مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے والی طاقتیں ان ہی لوگوں کی کارستانیوں کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ ان طاقتوں کو ناکام بنانے کیلئے امت مسلمہ کو حضرت سیدنا امام حسینؓ کی تعلیمات اور کردار کو مدنظر رکھ کر متحد ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کا عملی زندگی میں جو کردار ہونا چاہئے اس سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ نتیجہ میں ساری دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کو آج یزیدی قوت کی حامل طاقتوں نے اپنے نکتہ نظر سے بدنام کرنا شروع کیا ہے۔ ہندوستان میں فرقہ پرستوں نے کئی چالیں چلی ہیں، جس کی وجہ سے آج ہندوستانی مسلمانوں کو حضرت امام حسینؓ کی مثالی زندگی اور کردار کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی غلط تشہیر اور تصویر پیش کرکے جن طاقتوں نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے، انہیں ناکام بنانے کیلئے واقعہ کربلا اور امام حسینؓ کی شہادت کی روشنی میں اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کریں تو بلاشبہ ان گمراہ کن طاقتوں کو بے نقاب کرکے اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر پیش کی جاسکتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہیکہ ہر سال یوم شہادت کے موقع پر ساری دنیا میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کو مسلمان یاد کرتے ہیں۔ عزاداری اور ماتم کے ذریعہ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ایک دوسرے سے بغض، حسد اور کینہ رکھتے ہیں۔ ان کے اندر اتحاد کی کمی نے دشمنان اسلام کا کام آسان کردیا ہے۔ عالم عرب ہو یا عالم اسلام آج ان کے اہم حکمراں طاقتیں صیہونی طاقتوں کے آگے خود کو گروی رکھ چکی ہیں جن کی پالیسیوں نے ہی یہودی و صیہونی طاقتوں کو مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی کھلی جھوٹ دیدی ہے۔ ہندوستان میں تقریباً 30 کروڑ مسلمان ہونے کے باوجود یہاں اتحاد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ مسلکی اور عقیدہ کے جھگڑوں میں مبتلاء مسلمان آج فرقہ پرستوں کا شکار ہوچکا ہے۔ 1400 سال پہلے حق و باطل کی معرکہ آرائی آج کے امت مسلمہ کیلئے ایک مشعل راہ اور درس ہے۔ یہ معرکہ آرائی آج بھی جاری ہے۔ اگر آج کا مسلمان اسوہ حسینی پر چلے گا اور حسینی کردار کے مطابق عمل کرے گا تو پھر یقینا اسلام دشمن طاقتوں کے قدم اکھڑ جائیں گے مگر دیکھا یہ جاتا ہیکہ مسلمانوں کی دنیا خواب غفلت کا شکار ہے۔ جیسے جیسے علمی شعور آرہا ہے اور ترقی کی راہیں کھل رہی ہیں مگر مسلمان کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں۔ اگر مسلمان اپنے اندر امام حسینؓ کی محبت کا چراغ روشن کریں تو پھر شاعر کے بقول مسلماں بیدار ہوجائیں تو دشمن طاقتیں دم توڑ دیں گی۔ ’’انسان کو بیدار تو ہولینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین‘‘ اس جذبہ کو فروغ دینے کیلئے یقینا انسان کا بیدار ہونا ضروری ہے لیکن ترقی اور عیش پرستی نے بعض لوگوں کو یزید افکار پر عمل پیرا کردیا ہے۔ اول تو ان طاقتوں کو ناکام بنانا ہے جو خود کو اسلام کا ٹھیکدار سمجھ کر جگہ جگہ اپنی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کررہے ہیں۔ اب امت مسلمہ کو ان طاقتوں سے چوکنا رہ کر فرقہ پرستوں، صیہونی و یہودی ٹولوں کی سازشوں کو ناکام بنانے اور استعماری طاقتوں کی لگائی گئی آگ کو بجھانے کا کام صرف اور صرف متحد ہوکر ہی کرسکتے ہیں۔ اسلام کا روشن و تابندہ چمکتا چہرہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے سخت محنت اور اتحاد کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
سوشیل میڈیا اور حکمراں طاقت
سوشیل میڈیا کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے میں جب ملک کا حکمراں اور اس کی پارٹی سرگرم دیکھی جاتی ہے تو یہ ایک افسوسناک واقعہ قرار پاتا ہے۔ سوشیل میڈیا کے مودی حامی گروپس نے جس طرح کی طوفانی بدتمیزی کا مظاہرہ شروع کیا ہے وہ آگے چل کر ہندوستانی معاشرہ کو تباہ کن حالات سے دوچار کردے گا۔ ایک حکمراں اور سیاسی پارٹی کی جانب سے سوشیل میڈیا کے غلط استعمال اور حکومت کے مخالفین کو دھمکیاں دینے جیسے پیامات پوسٹس کرنے کے واقعات پر سیاسی حلقوں میں تنقیدیں ہورہی ہیں۔ صحافیوں کو خوف زدہ کرنے والے مودی حامی سوشیل میڈیا گروپس کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے ایک ٹیلیویژن چیانل کے صحافی نے وزیراعظم مودی کو کھلا مکتوب لکھ کر درست تنبہہکی ہے۔ بی جے پی حکومت کی عدم کارکردگی پر ایک عام آدمی کو سوال اٹھانے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن وزیراعظم عوام کے خادم ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنے حامیوں کے ذریعہ سوشیل میڈیا کا سہارا لے کر ایک طرح کا خوف کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔ حال ہی میں بنگلور کی کنڑ صحافی گوری لنکیش کے قتل پر مودی حامی شخص نے سوشیل میڈیا پر ایک پیام پوسٹ کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ’’ایک کتیا کتے کی موت کیا مری سارے پلے ایک سُر میں بلبلارہے ہیں‘‘۔ اس طرح کی زبان استعمال کرتے ہوئے سوشیل میڈیا کے ذریعہ ایک ایسی بنیاد قائم کی جارہی ہے جو ہندوستانی جمہوری معاشرہ کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ این ڈی ٹی وی کے صحافی رویش کمار نے وزیراعظم مودی کے نام کھلا مکتوب لکھ کر سچائی کو سامنے لایا ہے۔ صحافی کا کردار جرأتمندانہ اور حوصلہ افزاء ہوتا ہے۔ صحافی گوری لنکیش کے قتل کے ذریعہ شعبہ صحافت کو خوفزدہ کرنے کی کوشش افسوسناک تبدیلی ہے۔ اگر سوشیل میڈیا کے ذریعہ حکمراں طبقہ بحران پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے ایک دن اسے ہی سوشیل میڈیا کی بدروح کا شکار ہونا پڑے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ مرکزی قیادت سیاسی طاقت کے ذریعہ خوف و ہراس پیدا کرنے کا ایک ماسٹر پلان تیار کرچکی ہے۔ لہٰذا تمام امن پسند، جمہوریت نواز شہریوں، اداروں، ذمہ داروں کو اسی طرح کی سوشیل میڈیا مہم کو ناکام بنانے میں اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔