حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

بیت اللہ شریف جس مبارک شہر میں واقع ہے وہ مکۃ المکرمۃ ہے، جو بلد اللہ الحرام (اللہ کی حرمت والا شہر) سے موسوم ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے گھر بیت اللہ کی تعمیر کے لئے سر زمین مکہ کو منتخب فرمایا، تاکہ یہاں اس کی نسبت سے ایک مکان تعمیر ہو اور سارے عالم سے افراد امت کشاں کشاں عبادت کرنے اور مناسک حج ادا کرنے کے لئے یہاں جمع ہوں۔
مکہ مکرمہ اور اِس مبارک شہر کے رہنے والوں کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی ہے۔ ارشاد ہے: یاد کرو اس وقت کو جب ابراہیم نے دعا کی اے پروردگار! اس شہر کو امن کا گہوارہ بنادے، مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچالے، اے میرے پالنہار! یقیناً انہوں نے بہت سے افرادکو گمراہ کردیا ہے، اب جو کوئی میری بات مانے وہ میرا ہے اور جو نافرمانی کرے بے شک تو بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اے ہمارے رب! بے شک میں نے میری ذریت سے بعض کو اس وادی غیر ذی زرع (سنگلاخ وبے آب وگیاہ وادی) میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس آباد کیا ہے، تاکہ وہ نماز قائم کریں اور تو لوگوںکے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے، اور انہیںپھلوں سے روزی عطافرما تاکہ وہ شکر گزاری کریں (سورۂ ابراہیم۔۳۶،۳۷) اسی طرح اس مبارک شہر کے بارے میں ان کی دعا کے کلمات سورۃ البقرۃ میں بھی مذکور ہیں۔ یہ مبارک شہر اللہ سبحانہ وتعالی کو بھی محبوب ہے اور اللہ کے نبی و رسولا کو بھی۔ اللہ کے رسول سیدنا محمد رسول اللہانے اس کو محبوب ترین بستی اور سب سے زیادہ پسندیدہ اور مرغوب شہر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بے شک تو اللہ سبحانہ کی اس وسیع وعریض کائنات میں سب سے زیادہ بہتر اور اللہ سبحانہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب تر سرزمین ہے، اگر میری قوم کے افراد تجھے چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور نہ کرتے تو کبھی میں تجھے چھوڑ کر نہ جاتا۔ (ترمذی، ج۲، ابواب المناقب فی فضل مکۃ، ص۲۳۰)

آپا نے فرمایا: اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ اور اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے، اگرمجھے تیری قوم یہاں سے جا نے پر مجبور نہ کرتی تو میں تیری سکونت کبھی ترک نہ کرتا۔ اسی مفہوم میں اور ایک حدیث مروی ہے۔ (جامع ترمذی/ ۳۹۲۶) بیت اللہ شریف روئے زمین پر سب سے زیادہ مقدس اور بابرکت اور سب سے زیادہ محترم و معظم مقام ہے، جس کو حق سبحانہ وتعالی نے اپنا مکان ارشاد فرمایا ہے، جو مرکز توحید ہے اور روئے زمین پر اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر ہونے والا سب سے پہلا مکان ہے، ساری کائنات میںبرکت وہدایت کا منبع، ساری انسانیت کی پناہ گاہ اور جائے امن ہے۔ بیت اللہ شریف جس مبارک مسجد میں واقع ہے وہ مسجد حرام ہے، جس کو دنیا کی تمام مساجد پرفضیلت وبرتری حاصل ہے اوردنیا بھر کی مساجد کا رخ مسجد حرام یعنی بیت اللہ شریف کی طرف ہے۔ جس میںایک نماز کا ادا کرنا دیگر مساجد کے مقابلہ میں باعتبار ثواب ایک لاکھ نماز وںکے برابر ہے۔ (رواہ احمد ۳/ ۳۴۳، وابن ماجہ ۱/ ۴۵۱)

ابن ماجہ کی ایک حدیث پاک میں محلہ کی مسجد، جامع مسجد، مسجد نبویا، مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے پر درجہ بدرجہ اجر وثواب کا ذکر فرماتے ہوئے مسجد حرام میں ایک نماز کاثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر بیان فرمایا گیا ہے۔ مسجد حرام سے بیت اللہ اور خاص مسجد حرام مراد ہے یا پورا حرم، اس بارے میں علماء وشارحین کے درمیان اختلاف ہے۔ محقق شارحین میں وہ بھی ہیں جو اس فضیلت اور زائد اجر وثواب کو خاص مسجد حرام کے ساتھ مختص کرتے ہیںاور وہ بھی ہیں جو سارے حرم پر مسجد حرام کا اطلاق کرتے ہیں۔ تقرب الی اللہ کی نعمت قرب کعبہ میں نماز ادا کرنے والوں کا حصہ بنتی ہے، اس لئے احادیث پاک میں وارد فضل وشرف کی بعض شارحین مسجد حرام کے ساتھ تخصیص کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ثواب ان کے لئے ہے، جو مسجد حرام کی جماعت میں شریک ہو کر فرض نماز ادا کریں۔ حدیث پاک میں ذکر کردہ اجر وثواب فرض نماز کی جماعت میں شرکت پر ہے یا نوافل کی ادائیگی پر؟ اس میں بھی علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعضوں کے نزدیک یہ فضیلت فرائض و نوافل سب کو شامل ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ اختصاص صر ف فرض نمازوں کے ساتھ ہے، نوافل کے لئے نہیں۔ علماء احناف کی رائے یہی ہے۔ البتہ حرم مکہ میں دیگر مقامات کے بالمقابل زائد اجر و ثواب کے قائل ہیںاور بتاتے ہیںکہ نماز کے علاوہ دیگر کارہائے خیر کا اجروثواب اور مقامات کے مقابلہ میں حرم پاک میں مضاعف یعنی کئی گنا زیادہ ہونا احادیث پاک سے ثابت ہے، جب کہ مسجد حرام میں نماز ادا کرنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ علماء کرام نے احادیث پاک کی روشنی میں ازمان فاضلہ واماکن فاضلہ میں کی جانے والی نیکیوں پر کئی گنا زائد اجر وثواب ثابت کیا ہے۔ ازمان فاضلہ سے مراد مبارک ایام وشب ہائے مبارکہ اور اشہر مبارکہ جیسے شب قدر، ماہ رمضان، ایام عید وغیرہ ہیں۔ اماکن فاضلہ سے مبارک مقامات جیسے مسجد حرام، حرم پاک، مسجد اقصیٰ، مسجد نبوی، مسجد قباء وغیرہ مراد ہیں۔ علامہ شامی رحمہ اللہ نے مسجد حرام کی فضیلت سے متعلق تتمہ کے عنوان سے متعدد علماء کے اقوال پر مشتمل بڑی نفیس علمی بحث فرمائی ہے۔ (شامی۲/  ۲۰۳)
امام حسن بصری رحمہ اللہ احادیث پاک سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ حرم میں جس طرح ایک نماز کی ادائیگی پر ایک لاکھ نمازوں کا ثواب بتایا گیا ہے، اسی طرح روزہ رکھنے اور صدقہ وخیرات کرنے پر بھی اس کے بقدر اجر وثواب ثابت ہے۔ اس لئے احترام حرم ہر لحظہ اورہر آن ملحوظ خاطر رہے،  یہ وہ سرزمین ہے کہ سر کے بل چلنا ممکن ہو اور سر کے بل چلا جائے تب بھی اس کے احترم کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے