حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ’’(ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (انسان کو سخت مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا کرنے والی) ایک بلا و آفت کا ذکر کیا، جو اس امت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، یہاں تک کہ کسی شخص کو کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں ملے گی، جہاں وہ (اس آفت و بلا کی صورت میں رونما ہونے والے) ظلم و ستم سے پناہ حاصل کرسکے۔ پھر (جب ظلم و ستم اور ناانصافی کا وہ دور اپنی حد کو پار کرجائے گا تو) اللہ تعالیٰ میری اولاد اور میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو (کہ جو عدل و انصاف اور علم و دانائی میں یکتا ہوگا اور جو مہدی کے لقب سے ملقب ہوگا، امامت کے منصب سے سرفراز کرکے اس دنیا میں) بھیجے گا۔ وہ شخص زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھردے گا، جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی۔ اس سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے (یعنی فرشتے اور انبیاء کی روحیں) اور (تمام) زمین کے رہنے والے بھی راضی و مطمئن ہوں گے (خواہ وہ کسی جنس اور نوع سے تعلق رکھتے ہوں، یہاں تک کہ جنگل کے جانور اور پانی کی مچھلیاں بھی) آسمان اپنے مینہ کے قطروں میں سے کچھ باقی رکھے بغیر کثرت سے (پانی) برسائے گا اور زمین اپنی روئیدگی میں سے کچھ باقی رہے بغیر سب کچھ اُگا دے گی، یہاں تک کہ زندہ لوگ مردوں کی آرزو کرنے لگیں گے۔ وہ شخص (یعنی مہدی علیہ السلام) اس خوشحالی و کامرانی کے ساتھ سات برس یا آٹھ برس یا نو برس زندہ رہے گا‘‘۔ (ابوداؤد)
’’زندہ لوگ مردوں کی آرزو کرنے لگیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے کے لوگ اس قدر پُرمسرت اور خوشحال زندگی گزاریں گے کہ مرے ہوئے لوگوں کے وجود اور حیات کی تمنا کرنے لگیں گے اور کہیں گے کہ کاش وہ لوگ ہمارے زمانہ میں ہوتے تو انھیں بھی اس پُرمسرت زندگی کے دن دیکھنے کو مل جاتے۔ روایت میں سات، آٹھ یا نو برس یعنی کسی ایک مدت کا تعین نہ ہونے سے راوی کو صحیح طورپر یاد نہ ہونے کا اظہار ہوتا ہے، جب کہ ایک حدیث شریف میں صرف سات سال کا ذکر ہے۔