ڈاکٹر محمد سراج الرحمن نقشبندی
حجاج کرام قابل مبارکباد ہیں، جنھیں رب العالمین نے اپنا مہمان بناکر اپنے گھر بلایا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا شرف بخشا۔ حدیث شریف کے مطابق حجاج کرام گناہوں سے اس طرح پاک لوٹتے ہیں، جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوئے ہوں، جب کہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے لئے سخت وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور میں جب لوگوں نے حج کی ادائیگی میں کاہلی برتی تو آپ نے شہروں میں لوگوں کو بھیج کر یہ معلوم کروایا کہ استطاعت کے باوجود جو لوگ حج نہیں کر رہے ہیں، ان پر جزیہ لاگو کیا جائے، اس لئے کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ (سنن بیہقی)
نماز، روزہ اور زکوۃ کے بعد اس عظیم فریضہ (حج) کی تکمیل کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ لوگ امن والے شہر مکہ مکرمہ پہنچ کر خانہ کعبۂ کا دیدار اور طواف کریں، جہاں کے در و دیوار، گلی کوچوں، بازاروں، میدانوں، پہاڑوں اور غاروں سے اسلامی عظمت کی حسین و رنگین داستانیں وابستہ ہیں۔ یہ وہ مقدس شہر ہے، جس کے دامن سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جاں نثاری، سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی گئیں سخت سزائیں، حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی گئیں تکالیف، حضرات خبیب و خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو آگ پر لٹایا جانا، حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شہادت اور حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سر عام گرم ریت پر گھسیٹنا وغیرہ جیسی داستانیں اور قربانیاں وابستہ ہیں۔ بعد ازاں یہی شہر مکہ مکرمہ امن کا گہوارہ بنا، جہاں پُرسکون انداز میں ہم اور آپ حج و عمرہ کے ارکان ادا کرتے ہیں۔ ہمارے اسلاف کی قربانیوں کے نتیجے میں اسلام کا پرچم سارے عالم میں بلند ہوا اور آج دنیا کا سب سے بڑا اجتماع مکہ مکرمہ میں ہوتا ہے اور اس موقع پر ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ کی صدائیں گونجتی ہیں۔
جب حج کا موسم آتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ مزید بڑھ جاتی اور آپﷺ انسانیت کو راہِ ہدایت پر گامزن کرنے اور پیغامِ دین لوگوں تک پہنچانے کے لئے بے چین ہو جاتے۔ آپﷺ کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ انسانیت کو جہنم کی آگ سے بچا لیا جائے۔ جمرات کا منظر ہو یا حجاج کرام کا احرام باندھنا، حجاج کا ہر عمل مساواتِ انسانی کا پیغام دیتا ہے۔ خطبۂ حجۃ الوداع کا بنیادی پہلو یہی ہے کہ اسلام رنگ و نسل، خاندان و برادری، مختلف قبائل کے مشرکانہ اعمال و بت پرستی کو صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں ملکی، نسلی اور علاقائی تفریق کو مٹاکر ہر فرد کو دعوتِ دین کی ذمہ داری سونپنا چاہتا ہے۔ یعنی حج کی سعادت حاصل کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس اہم ذمہ داری پر غور کریں اور اپنی زندگی میں دعوتِ دین کے سلسلے میں مثبت تبدیلی لائیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج دین کی ہر عبادت صرف ایک رسم بن کر رہ گئی ہے، یعنی یہ خانہ پُری اور تکمیلِ حجت کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حج جیسا اہم رکن بھی اس رسم کی کڑی بن گیا ہے اور اس اہم فریضہ میں دنیاداری کا ایک اہم جز بن کر شامل ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے حج کے متوقع فوائد ہمیں نہیں حاصل ہو رہے ہیں۔ اگر ہم حج کی ادائیگی کا صحیح نفع حاصل کرکے اپنے اپنے مقامات کو واپس ہوں تو ہماری زندگی میں ایک عظیم انقلاب آسکتا ہے۔
حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو پیغام دیا تھا، وہ ساری انسانیت کے لئے اولین منشور ہے، جس میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ حق کا یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچایا جائے، جو آج یہاں موجود نہیں ہیں۔ اس طرح ہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو عام کریں اور اپنے اندر دینِ حق کی تبلیغ کی تڑپ پیدا کریں، تاکہ آپﷺ کی خواہش کی تکمیل ہو سکے اور بھٹکی ہوئی انسانیت راہِ حق پر گامزن ہوسکے۔