کے این واصف
حج 2015 ء اختتام کو پہنچا لیکن ایک لمبے عرصہ کے بعد پھر ایک بار ایک دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جو عموماً مسلمانوں اور خصوصاً اس سال حج کرنے والوں کے ذہنوں پر خوف کے نقوش چھوڑے گا۔ منیٰ سے جمرات جانے والے راستے میں جو بھگدڑ کا واقعہ پیش آیا جس میں تقریباً 800 حجاج جاں بحق اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ 2006 ء میں پیش آئے جمرات کی بھگدڑ کے واقعہ کے بعد امسال پیش آیا بھگدڑ کا واقعہ حج کی تاریخ کا ایک اور بڑا واقعہ ہے جو ہمارے ذہنوںمیں عرصہ تک تازہ رہے گا۔
حج بلاشبہ کرہ ارض پر منعقد ہونے والا سب سے بڑا انسانی اجتماع ہے جہاں دنیا کے کونے کونے سے مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے جمع ہوتے ہیں جن میں امیر ، غریب ، کالے گورے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ ، کم پڑھے لکھے سے ناخواندہ افراد تک شامل ہوتے ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف خطوں ، مختلف زبانوں اور تہذیبوں سے ہوتا ہے ۔ اتنے بڑے اجتماع میں حادثوں کا پیش آنا کوئی غیر فطری بات بھی نہیں ہے لیکن قابل تعریف اور لائق ستائش ہے حج انتظامیہ جو اتنے بڑے اجتماع کو ہر سال کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے لیکن کبھی کبھار اس قسم کے چھوٹے بڑے حادثات پیش آ ہی جاتے ہیں لیکن ہر واقعہ کے بعد اس کی عام یا تحقیقاتی رپورٹ کاجائزہ لیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اس میں حج انتظامیہ یا سیکوریٹی عملے کی لاپرواہی یا کوتاہی کا دخل نہیں بلکہ حجاج کرام کی نادانی یا انتظامیہ کے احکام و ہدایات کو نظر انداز کرنے کی بات سامنے آتی ہے۔ غور کیا جائے تو ہم خود اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ ہمارے اندر حد درجہ خود سری ، مفاد عامہ کے حق میں بنائے گئے قوانین کی عدول حکمی کرنا ہماری فطرت میں شامل ہوگیا ہے ۔ حالانکہ ہم پنجگانہ نماز ایک امام کے تابع رہ کر اللہ ا کبر کی صدا پر رکوع ، سجود اور ساری نماز مکمل کرتے جو ہمارے لئے قیادت کا حکم ماننے یا امام کی اتباع کی تربیت ہے ۔ یہ نمازِ باجماعت کا اجتماع چند افراد پر مشتمل ہو یا سینکڑوں ، ہزاروں یا لاکھوں مصلیوں پر مشتمل ہو۔ امام کی تکبیر اللہ اکبر پر سارے لوگ اپنی نماز مکمل کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے لئے قائد یا جسے ہم نے امام ماناہے اس کے حکم کی تعمیل کا درس ہے ۔
حج ارکان اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ ایک مسلمان کو ادائیگی حج کے درجہ کو پہنچنے تک کم از کم جذبہ ایثار و قربانی ، عجز و انکساری ، اپنے ہم نفسوں کی تکلیف کا خیال رکھنا، خود پرستی سے اجتناب کرنا، صرف اپنے بھلے کی نہ سوچنا، اپنے کسی عمل سے دوسرے انسان کو ضرر نہ پہنچانے جیسی باتوں کا خیال رکھنے کا ادراک ہوجانا چائے ۔ یہ ایک اچھے اور سچے مسلمان کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ہر حاجی کو حج پر روانہ ہونے سے قبل خود احتسابی کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا اس میں یہ بنیادی اخلاقی قدریں موجود ہیں یا نہیں بلکہ بنیادی باتیں اس کے مزاج کا حصہ بنی ہیں کہ نہیں۔
10 ذی الحجہ کو منیٰ میں پیش آئے واقعہ کی ویڈیو اگر آپ دیکھیں تو اس میں صاف نظر آئے گا کہ جمرات کے پل کے قریب ایک بڑی سڑک پر آنے اور واپس ہونے کے راستے میں فرق بنائے رکھنے کیلئے سیکوریٹی عملے نے ایک مضبوط آہنی حفاظتی دیوار (Barricade) بنا رکھی تھی ۔ اب حجاج کا فرض تھا کہ جمرات کی طرف جانے والے حجاج اس حفاظتی دیوار کی ایک جانب ہی چلیں جو ان کیلئے مقرر کی گئی تھی لیکن جب ایک مقام پر ہجوم حد سے زیادہ ہوگیا اور مجمع آگے بڑھنے سے قاصر ہوگیا تو وہاں موجود حجاج کیلئے سانس لینا محال ہوگیا ۔ ہجوم بے چین ہوکر حفاظتی دیوار کی دوسری جانب نظر آرہی خالی سڑک کی طرف بڑھنے کیلئے دباؤ بنانے لگا اور آخر کار کثیر ہجوم کے دباؤ سے وہ حفاظتی دیوار ٹوٹ گئی ۔ ظاہر ہے جب ہجوم کے دباؤ سے وہ حفاظتی دیوار ٹوٹی تو اچانک اگلے حصہ میں موجود لوگ دباؤ سے اپنا توازن کھوکر گر پڑے اور پوری طاقت سے آرہے انسانی ریلے کے پیروں تلے کچلے گئے۔
منیٰ کے میدان میں سیکوریٹی فورسس کی جانب سے خیموں کے نمبر اورممالک کے نام سے علاقے مختص کئے جاتے ہیں اور ہر زمرے کے معلمین کو رمی جمرات کیلئے اوقات مقررہ کی فہرست دے دی جاتی ہے ۔انہیں بتادیا جاتاہے کہ فلاں کیمپ کے حجاج اس وقت سے اس وقت تک رمی جمرات کیلئے جمرات کے پل کی طرف آئیں تاکہ وقت واحد میں دستیاب گنجائش سے زیادہ حجاج نہ جمع ہوجائیں لیکن حجاج حضرات سیکوریٹی فورسس نے رمی جمرات کے اوقات اس لئے مقرر کئے ہیں کہ ایک وقت میں گنجائش سے زائد حجاج جمرات کے پل پر جمع نہ ہوں اور باری باری سے تمام حجاج سہولت کے ساتھ رمی جمرات کرسکیں۔ یہ بات حجاج کرام کو سمجھنا چاہئے کہ وقت کی پابندی ان ہی کے بھلے کیلئے ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ حج کیلئے بیرون ملکوں کے علاوہ داخلی حجاج کی ا یک بہت بڑی تعداد حج پر آتی ہے ۔ یہی لوگ مکہ کے قرب و جوار میں رہتے ہیں یا ایسے بیرونی حجاج جن کے عزیز و اقارب مکہ شہر کے اطراف یا جدہ وغیرہ میں رہتے ہیں، وہ لوگ یہ کرتے ہیںکہ پہلے دن کی رمی سے جلد از جلد فارغ ہوکر منیٰ سے باہر اپنے ٹھکانوں یا عزیز و اقارب سے ملنے کیلئے جانے کی خاطر جلد از جلد رمی جمرات سے فارغ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ داخلی حجاج جن میں بہت سے بغیر اجازت نامہ کے حج پر آتے ہیں، ان کا منیٰ میں اپنا کوئی خیمہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ منع کرنے کے باوجود اپنے ساتھ اپنا Bag وغیرہ لیکر رمی جمرات کیلئے آتے ہیں کیونکہ منیٰ میں ان کو اپنا سامان رکھنے کا کوئی ٹھکانہ نہیںہوتا۔ اس ہجوم میں جہاں لوگوں کا خالی ہاتھ چلنا دشوار ہوتا ہے ، وہاں اپنے سامان کیساتھ داخل ہوجاتے ہیںاور جب دھکم پیل میں Bag ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے تو یہ بہت بڑی آفت کھڑی کردیتاہے یعنی زمین پر گرے ہوئے سامان یا Bags وغیرہ سے ٹھوکر کھا کر گر پڑتے ہیںاور پھر پیچھے آنے والا انسانی ریلا انہیں کچلتے ہوئے آگے بڑھتا ہے ۔ ایک ذرا سی غفلت یا لاپروائی بڑے حادثہ کا سبب بن جاتی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں حج کمیٹیوں کی جانب سے حجاج کی تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن اس تربیت میں مناسک حج ہی سکھائے جاتے ہیں جبکہ انہیں ماحول کے صاف صفائی کا خیال رکھنا، حج سیکوریٹی کی جانب سے نافذ کردہ احکام و ہدایات کا احترام کرنے ، وہاں حکومت سعودی عرب کی جانب سے آویزاں ہدایتی بورڈز وغیرہ پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی تلقین وغیرہ بھی کرنی چاہئے، درس بھی دینا چاہئے۔ انہیں یہ بات بھی بتائی جانی چاہئے کہ وہ اپنے ہم نفسوں کا خیال رکھیں، اپنے کسی عمل سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائیں وغیرہ وغیرہ
اس سال ہوئی منیٰ کی بھگدڑ میں ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش سمیت جملہ 18 ممالک کے حجاج شہید اور زخمی ہوئے جس میں سب سے بڑی تعداد ایران کے حجاج کی ہے ۔ اسی وجہ سے ایران اس واقعہ کے بعد سعودی عرب پر مسلسل دباؤ بنائے ہوئے ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ منیٰ میں بھگدڑ کا واقعہ ناقص سیکوریٹی انتظامات کا نتیجہ ہے اور وہ اس معاملے کو بین الاقوامی پلیٹ فارم اقوام متحدہ میں اٹھانا چاہ رہا ہے ۔ یعنی وہ اس کو ایک سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوران حج پیش آئے حادثات کی وجوہات اور حقائق کا جائزہ لیکر کوئی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا ہے کہ یہ حادثات سیکوریٹی کی لاپروائی یا غفلت کا نتیجہ تھے۔ ا یک ایسا اجتماع جہاں 20 تا25 لاکھ افراد جمع ہوں اور سب کو ایک ہی طرح کے مناسک ایک ہی وقت ادا کرنے ہوتے ہیں۔ انتظامیہ حجاج کیلئے ہرممکن سہولت فراہم کردیتا ہے ۔ تمام ضروری ہدایات مختلف زبانوں میں بورڈز پر لکھ دی جاتی ہیں ۔ اب یہ حجاج کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں فراہم کی گئی سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے حج کو سہل بنائیں۔ حجاج کی رہنمائی اور حفاظت کیلئے بڑی تعداد میں سرکاری افسران اور سیکوریٹی اہلکار متعین کئے جاتے ہیں۔ اب کسی بھی حکومت کیلئے یہ تو ممکن نہیں کہ ہر چابی کے ساتھ ایک محافظ مقرر کرے۔ لہذا کسی کا حج سیکوریٹی انتظامات کو ناقص بتانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ جہاں تک ایران اس واقعہ پر واویلا مچا رہا ہے ، وہ ایک سیاسی حربہ معلوم ہوتا ہے اور اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں یہ ہر ذی شعور انسان سمجھ سکتا ہے ۔ ادھر اسلام دشمن اور مسلم مخالف طاقتیں ایسے اختلافات کو ہوا دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہی ہیں اور انٹرنیشنل میڈیا بھی آگ پر تیل چھڑکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ منیٰ سانحہ پر میڈیا میں مسلسل تبصرے جاری ہیں۔ حج سیکوریٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن کوئی ٹی وی چینل یا صحافی یہ کیوں نہیں کہتا کہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے حجاج کی متعلقہ حکومتیں یا ذمہ دار کمیٹیاں اس بات کو یقینی کیوں نہیں بناتیں کہ ان کے حجاج روانگی سے قبل ان کی اپنی زبانوں میں حج سے متعلق انہیں مکمل تربیت دی جائے جس میں مناسک حج کے علاوہ اجتماعی زندگی کے آداب ، سماجی زندگی کے بنیادی اسلامی اصول، حج انتظامیہ اور معلمین کی ہدایات کی پابندی وغیرہ جیسی باتیں اچھی طرح ذہن نشین کرائی جائیں۔ ہر ملک کے ذمہ دار اپنے حجاج کو عملی تربیت کیلئے حج پر ڈاکیومنٹری فلم تیار کریں اور انہیں ان کی زبانوں میں بار بار دکھائیں۔ پچھلے وقتوں میں پیش آئے واقعات و حادثات دکھاکر یہ بتائیں کہ حج کے دوران دی گئی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے کیا عواقب و نتائج ہوتے ہیں۔ انہیں خود کو محفوظ رکھنے اور دیگر حجاج کو حادثات سے بچانے کیلئے کونسا طریقہ کار استعمال کرنا چاہئے ، بار بار سمجھائیں۔ یہاں ایک بات سعودی حکومت کے بھی گوش گزار کرنا چاہئے کہ وہ برقراری صحت ، ماحول کی صفائی اور حادثات کی وجہ بننے والے عوامل پر مشتمل ایک مکمل Footage تمام سفارت خانوں کو مہیا کریں تاکہ وہ اس مواد کو استعمال کرتے ہوئے اپنی زبانوں میں ڈاکیومنٹری تیار کرسکیں۔
حج سیکوریٹی انتظامات پر نکتہ چینی کرنے والے میڈیا یا ممالک کو یہ سوچنا چاہئے کہ حجاج کو سمجھانے سکھانے کی ذمہ داری صرف ایک ملک نہیں اٹھاسکتا۔ یہ بات ہر ایک کو ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ حادثات سے خالی اور محفوظ حج کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہر انفرادی حاجی پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ یہ ذمہ داری ہر ملک کی ہے جہاں جہاں سے لوگ فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے ۔ ہم کسی ایک کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے۔