حجاب سے بے حجابی تک

ڈاکٹر فریدہ زین
قدرت کے سارے شاہکار کو کائنات کی وسعتوں میں اُجاگر کرکے خود کو حجاب میں رکھا۔ یہ اس رب کائنات کا طرۂ امتیاز ہے جس نے حجاب کو ہر شئے کا مظہر بتایا۔ اپنی ذات کو صفات میں پوشیدہ کیا۔
اللہ نور السموات والارض
اپنے حبیب پاکؐ کو کلمے کے حجاب میں رکھا۔ حدیث کے ذریعہ سمجھایا۔
انا من نوراللہ کل شئی من نور
کل کائنات کو حضورؐ کے نور کا حجاب بخشا۔ انسان کے سینے میں راز کائنات کو حجاب بنایا۔
اس سینے میں کائنات رکھ لی میں نے
کیا ذکر صفات ذات رکھ لی میں نے
ظالم سہی جاہل سہی ناداں سہی
سب کچھ سہی، تیری بات رکھ لی میں نے
عارفوں کے دل میں خود کا حجاب رکھا۔ حقیقت کو معرفت کا معرفت کو طریقت کا اور طریقت کو شریعت کا حجاب بخشا۔ اپنے کلام کو سینوں کا حجاب دیا۔ تقدیر آدم کو لوح محفوظ میں پوشیدہ رکھا۔ نطفے کو مادرِ شکم کا حجاب دیا۔ اعضاء رئیسہ کو گوشت و پوست کے لبادے میں پہناں رکھا۔ خون کو رگوں کی راہ دکھائی۔ پسینے کو مسامات میں، جسم کو لباس میں، آنسوؤں کو آنکھوں میں چھایا، ہنسی کو ہونٹوں میں دیا، احساسات اور جذبات کو قلب میں پنہاں رکھا۔

رات کے سینے میں نور سحر کو رکھا۔ بارش کو بادل کا لبادہ اوڑھایا، معدنیات کے ذخائر کو زمین کی تہوں میں چھپایا۔ موتی کو صدف کا حجاب دیا۔ بیج کو پھل کا لباس بخشا۔
پرند کو پروں میں چھپایا۔ چرند کو کھال سے ڈھانکا۔ پھلوں کو چھلکوں سے آراستہ کیا۔ پگھلتے لاوے کو آتش فشاں میں بند کیا۔ چشموں کو زمین کی تہہ میں جگہ دی۔ فن کو فنکار میں پہناں کیا۔ سیاہی کو قلم کا لباس عطا کیا۔
غرض مشاہدۂ کائنات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ خدا نے حجاب کو فوقیت اور برتری کے ساتھ ساتھ عظمت بھی عطا کی یہ اور بات ہے کہ وہ خود حجاب میں ہے۔
ہزار رنگ کے پردوں میں چھپ کے پھیل گئے
یہ اک ظہور کی ترکیب تھی حجاب نہ تھا۔
(سنیمابؔ)

بنی نوع انسان کے دونوں طبقوں کے لئے حجاب کا حکم رکھا۔ گفتگو کو حجاب سے وابستہ رکھا۔ پھر حجاب نقاب سے جڑ گیا۔ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں والی بات کہہ کر شاعر اپنی حسرت دیدار کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خواہش کرتا تھا۔ نظروں کا تجسس، دل کی بے قراری دیدار کی منتظر ہوجاتی ہے۔ یہ بات یقیناً سچ ہے کہ حسن کا حجاب ہی حسن ہے۔لباس اور حجاب کا گہرا رشتہ ہے۔ مرد و زن کے لئے تر لباس ہی زینت ہے۔ اسی لباس کا قرآن میں حکم ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ دنیا کے سب سے پہلے انسان نے حجاب کے لئے پتوں کا استعمال کیا۔ تھوڑا شعور آیا تو جانوروں کی کھال کو اپنے لئے حجاب بنایا، بھیڑوں کی کھالیں، کپاس کے پودے، ریشم کے کیڑے نے خود کو حجاب کے لئے وقف کردیا۔ اس کے بعد تو سلسلہ چل پڑا۔ لباس زندگی کا اہم حصہ بن گیا۔ اس کو خصوصی اہمیت ہوگئی۔ دلکش رنگوں کو اپنایا۔ ریشمی لباس سے جسم کو آرائش بخشی، دنیا کے ہر خطے کا اپنا ایک لباس بن گیا جو اس کی شخصیت کی پہچان بنا۔ قبیلے والوں نے قدرتی اشیاء کو رنگ دے کر لباس کا استعمال کیا اور حجاب کو قائم رکھا۔ مختلف اوقات میں مختلف النوع ملبوسات جسم کو خوبصورتی بخشنے کا سامان بن گئے۔ موسموں کا اثر بھی لباس نہ پڑا۔ وقت کے بدلتے دھارے نے حجاب کو آخر کار بے حجاب کر ہی دیا۔
وہ لباس جو جسم کو حجاب میں رکھتا ہے، اب اس کا پردہ مکمل اُٹھ گیا جہاں تک حجاب کی بات ہے وہ تو عورت کے حصے میں زیادہ آئی ہے۔

عورت بہ معنی پردہ حجاب کی زیادہ مستحق قرار دی گئی ہے۔ایک وقت تھا گھر کے دروازوں پر چلمنیں پڑی رہتی، مبادا خواتین کی جھلک نہ دکھائی دے، سواریوں کے لئے پردے لگائے جاتے، بازاروں میں خرید و فروخت کے لئے جانا ہو تو دوکان کے دونوں جانب چادریں تان دی جاتیں۔ یہاں تک کہ گھر کی چھتوں پر چڑھنا ہو تو پہلے آواز دی جاتی ’’گوشہ ہو گوشہ ہو‘‘۔ علاوہ اس کے بعض گھروں میں زنانی دروازے کے سامنے دیوار کھڑی کردی جاتی تاکہ دروازہ کھلنے پر سارا گھر نمایاں نہ ہوجائے۔ حجاب کے لئے سارے احتیاط کے طریقے اپنائے جاتے۔ چادروں اور برقعوں سے جسم کو چھپایا جاتا۔ نیلگوں سرمگیں غزالی نیم باز آنکھیں نقاب کے اندر دیدار شوق بھڑکائیں۔یہاں تک کہ چوڑیوں کی کھنک بھی سنانے کی اجازت نہ ہوئی کہ یہ دل میں ہلچل مچاتی ہے اور آواز کی مدھو مسحورکن لہریں سینے میں ارتعاش پیدا نہ کریں، اس کا بھی خیال رکھا جاتااور آج …… پیکر حسن و ادا محفلوں میں جلوہ گر ہوگئے۔ بازاروں میں دلفریب نظارہ بن کر جھاگئے۔ ہر محفل ہر مجلس ہر مقام پری وشوں کا جلوہ گاہ بن گیااور تو اور مقابلہ حسن نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ بے حجابی کے ساتھ ساتھ بے حیائی کی انتہاء بھی ہوگئی۔ کپڑوں کے دام بڑھ گئے، مگر کپڑے گھٹ گئے۔ حسن معصوم دلنواز نہ رہا بلکہ آرائش حسن نے ایمان کو بھی خرید لیا۔

مرد اور عورت کا فرق لباس نے مٹادیا۔ کہاں تو وہ شلوار سوٹ اور ساڑی کے ملبوس میں دوشیزگی پاکیزہ کا ردا اوڑھے ہوئے تھی اور کہاں جینس، شارٹ، ٹاپس، چست ملبوسات نے غیرت مند نگاہوں کو شرمندہ ہونے پر مجبور کردیا۔نئی اور پرانی تہذیب کے ٹکراؤ نے ذہن کو مشرقی اقدار سے دُور بہت دُور کردیا۔ فلموں اور ٹی وی کے شوق اور جنون نے نسوانیت کو داغ دار کردیا۔کہاں گئے وہ جلترنگ جو بند کمروں میں بجتے رہتے تھے، اب کھوکھلے اور بے باک قہقہے کانوں کو شرمندہ سماعت کررہے ہیں۔ ہر کوئی خودنمائی پر تُلا ہے۔ نہاں کو عیاں کے پَر مل گئے۔ شرم و حیا کو آزادی اور بے حیائی نے نگل لیا۔ رات کے اندھیروں کی خاموشی دَم توڑ گئی۔

دن کے اُجالے ہر کام پر حاوی ہوگئے۔ نہ فکر فردا نہ ذکر امروز۔ بس حال ہی حال آج جو ہے وہی ہمارا ہے، کل کی کس کو خبر، ملے نہ ملے۔ دامن حیاء کا تار تار ہوجانا، برہنگی کو دعوت دینا، بے باکیوں کو مشغلہ بنانا، بے حجابی کو آراستہ کرنا، سبھی بُت گر بن گئے، بت شکن کوئی نہ رہا۔ پندار حسن مٹ گیا۔ جلوے بکھرگئے۔ تشنگی کا کہیں ذکر نہیں، پیاس جو بجھ گئی۔ دیدار کے سارے تقاضے سر جھکا کہ سوگئے۔ حیران و پریشان نگاہیں تعاقب کی محتاج نہیں رہیں۔ گلیاں کوچے بازار ہر جگہ بے پردہ بے جاب حسن اپنی رنگینی بکھیرنے لگا ہے۔ بازو عریاں ہوئے، ٹانگیں برہنہ ہوئیں ، دنیا لذت دید میں کھوگئی۔

خاموش ادائیں، جھکی جھکی نظریں، مسکراتے ہونٹ، شرم کے غازے سے چھلکتے عارض، سرخ و سفید رنگ کو سیاہ نقاب میں چھپائے دست نازک سارے کے سارے بھرے ہوئے فسانے ہوگئے۔ اب نکلا بدن، قیامت خیز ادائیں، ہیجان انگیز لباس، ناظرین کو محو حیرت کررہی ہیں۔ نہ گرمی شوق باقی رہا نہ جستجوئے ضیاء اب ان کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ خلوتوں کا سحرانگیز طلسم اب جلوتوں کی رونق بن گیا۔ ایسا کیوں ہوا۔ کس سے سوال کریں، کون جواب دے گا۔ ایک حمام میں سبھی … ہماری لاپرواہیاں، کوتاہیاں، نادانیاں، خاموشیاں ان کا کیا جواب دیں۔ ہم خود بھول گئے ہمارے ججاب کو۔کوئی تو مصلحت تھی ہوگی، اس خالق اکبر کی جس نے حجاب کا انداز سمجھایا۔ قدرت کے سارے جلوے کسی نہ کسی حجاب میں مستور ہے۔ اسی میں حسن بھی ہے اور راز بھی۔ کاش! ہم سمجھ سکتے۔ کاش!……