سید یعقوب شمیم
اگرچہ انسانیت کے ارتقاء میں تمدنی تغیر ناگزیر ہے لیکن کلچر یا تہذیب کے جو معیار زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام نے پیش کئے تھے اور جن کے عملی نمونے پچھلے ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں شدہ شدہ دیکھنے کو ملتے رہے ہیں وہ آج بھی صاحب بصیرت افراد کے لئے غیر معمولی کشش رکھتے ہیں ۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ گاندھی جی جب کبھی مثالی حکومت کا ذکر کیا کرتے تھے تو ان کی نگاہیں ’’رام راج‘‘ کے ساتھ ساتھ دور خلافت راشدہ پر بھی پڑتی تھیں ۔قیام یوروپ کے دوران اقبال نے جو دوسری بات بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی وہ یہ تھی کہ اہل یوروپ اور خصوصاً برطانیہ بالخصوص مسلم ممالک کے ساتھ ناروا سلوک کررہا تھا تو وہ دوسری طرف دس قدامت پسند دانشوروں نے اسے پسماندگی کے اندھیروں میں ڈھکیل دیا تھا ۔ افغانستان کو یوروپ والوں نے تقلید و جہالت اور رسوم پرستی کی لعنت میں جکڑ رکھا تھا ۔ اس کے علاوہ مصر اور سوڈان پر بھی انگریز اقتدار نے باقاعدہ تسلط کی صورت اختیار کرلی تھی ۔ الجیریا اور تیونس فرانس کے زیر نگیں تھے مجموعہ الجزائر کے مسلم ممالک ولندیزی (ڈچ) کی نوآبادیات بن کر رہ گئے تھے اور یہی وہ صورت حال تھی جس نے اقبال کے دردمند دل کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ جب تک ان ممالک کے مابین اتحاد قائم نہیں ہوگا ان کی یوروپ کی غلامی سے آزاد ہونے کی صورت نہیں اور اتحاد کے لئے ضروری تھا ان منتشر اکائیوں کو ایک قدر مشترک کے تحت مجتمع کیا جائے اور ظاہر ہے کہ ان ممالک کے لئے قدر مشترک یا روحانی رشتہ سوائے اسلام کے ہمہ گیر تصور انسانیت کے کچھ اور نہیں ہوسکتا تھا ۔ اور انہی عوامل نے فکر اقبال میں ایک نمایاں ارتقائی تبدیلی پیدا کی ۔ جس کے نتیجہ میں ان کی شاعری کے ایک دور کا آغاز ہوا اور انھوں نے قوم پرستی کے تنگ نظر اور محدود یوروپی تصور سے متنفر ہو کر اخوت انسانی کے اصول پر مبنی ایک بین الاقوامی معاشرے کے قیام کے تصور کو اپنی شاعری اور فکر کا اساسی موضوع قرار دیا ۔
یوروپ سے واپسی کے بعد اقبال نے خیالات میں وطن کے بارے میں جو وسعت پیدا ہوئی وہ دراصل وطنیت کے خلاف نہیں تھی بلکہ وطن پرستی کے اس یوروپی سیاسی اور انتہا پسندانہ تصور کے خلاف تھی جو اقوام عالم میں رقابت کے جذبات کی نشو ونما کرتا ہے ۔ اقبال کے مطابق یوروپ کا یہ سیاسی تصور وطنیت نہ صرف کمزور کا گھر غارت کرتا ہے بلکہ اس سے مخلوق خدا بھی تقسیم ہوجاتی ہے ۔ جس کے نتیجہ میں اس مثالی معاشرہ کا قیام ناممکن ہوجاتاہے جو اقبال کے نزدیک انسانیت کے ایک اعلی نصب العین کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کے مجموعہ کلام ’’بانگ درا‘‘ میں شامل نظم وطنیت ان کے اس فکری رجحان کی غماز ہے ۔
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزورکا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قومیت اسلام سے مراد دراصل وہ ہمہ گیر تصور انسانیت ہے جواسلام کی وساطت سے اخوت انسانی کی اصول پر مبنی ایک بین الاقوامی معاشرے کے قیام کے آج سے چودہ سو سال قبل دنیا کے سامنے عملی طور پر پیش کیا گیا تھا ۔ لیکن جہاں تک حب وطن اور وطن کی محبت کے فطری جذبہ کا تعلق ہے اقبال نے اس کو کبھی اسلام کے مغائر قرار نہیں دیا بلکہ وطنیت کے اس سیاسی تصور کو اسلام کی ضد قرار دیا ہے جس سے انسانی معاشرے میں مذکورہ صد خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں اہل مغرب نے وطن کے سیاسی تصور کو ایک آخری نصب العین سمجھ رکھا ہے جو ان کے نزدیک ایک ناپسندیدہ بات ہے لیکن اگر وطنیت کے جذبہ کے ساتھ سیاسی تصور وابستہ نہ ہو تو تصور وطن کے تصور اسلام سے ٹکرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
مغربی استعماریت اور استحصال پر تنقید کرتے ہوئے اقبال نے اپنی ایک اور غزل جو مارچ 1907ء میں لکھی گئی تھی کہتے ہیں مغربی ملوکیت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک اسی تاجرانہ ملوکیت ہے جس میں کمزور اقوام کو اس لئے مطیع و مغلوب بنایا جاتا ہے تاکہ تجارت کے ذریعہ ان سے ناجائز فائدے اٹھائے جائیں ۔ غلام اقوام کو خام اشیاء کی پیداوار اور افزائش میں لگا کر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی محنت سے حاصل ہونے والے ثمر کواپنی صناعی سے مصنوعات میں تبدیل کرکے اس کو منہ مانگے داموں پر انہی غلاموں کے ہاتھوں فروخت کریں ۔ مغربی عوام نے خدا کی بستیوں کو بس خرید و فروخت کی دکان سمجھ رکھا ہے اور انسانی ہمدردی اور انسانی وقار ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتے ۔
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہوگا