حامد مجاز: شیشوں کا مسیحا

رحمن جامی

حامد مجاز دکن کا وہ بانکا شاعر تھا جو زندہ رہتا تھا ’’جدیدیوں‘‘ کا امام کہلاتا، بے حد ذہین اور بے حد پڑھا لکھا۔ غالبؔ سے لے کر رحمن جامی تک تقریباً سارے اہم شاعروں کو پڑھ کر پی گیا تھا۔ حافظہ اتنا شاندار کہ کسی بھی شاعر کا مجموعہ ایک بار پڑھ لیتا تو اب لگتا کہ ساری کتاب اس کے ذہن میں پرنٹ ہوگئی ہو، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ طالب علمی کے زمانے میں بھی بیت بازی کے مقابلوں میں ہمیشہ اول آتا رہا اور انعامات گھر لاتا رہا اور شروع ہی سے اپنے حافظے کا لوہا منواتا رہا۔ اخبارات بھی پڑھتا تو اہم اہم واقعات کی تاریخ و جغرافیہ بھی اسے یاد رہ جاتے۔

حامد مجاز ایک نہایت شکیل و جمیل شخصیت کا مالک تھا۔ اور ساتھ ہی بے حد خوش لباس بھی، میں یہ بھی دعویٰ کرتا ہوں کہ وہ بے حد خوش طبع و خوش اخلاق بھی تھا۔ دراصل وہ میرے ایک اور انجینئر دوست قادر نادری کے ان دوستوں میں تھا جو انجینئرنگ کالج کے زمانے میں ایک ساتھ بیٹھ کر اسٹڈی کیا کرتے تھے۔ قادر نادری ہی نے حامد مجاز کو مجھ سے ملایا تھا۔ پہلے پہلے تو اکھڑا اکھڑا سا رہا لیکن رفتہ رفتہ اس قدر قریب ہوا کہ مجھے اپنا ہمراز بنالیا۔ بہت اچھا نقاد تھا۔ اس کی انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ اُردو ادب پر گہری نظر تھی، تنقید پر آتا تو کوٹیشن پر کوٹیشن انگریزی کے دینا شروع کردیتا۔ ترقی پسندوں میں فیض احمد فیض اور جدید شعراء میں مغنی تبسم اس کے پسندیدہ شاعر تھے اور کمال یہ تھا کہ مغنی تبسم کی اور فیض کی بے شمار نظمیں حامد مجاز کو اَزبر تھیں۔ اساتذہ کے اشعار پر موقع اور برمحل استعمال کرکے مخاطب کو مرعوب کردینے کا فن حامد مجاز کو آتا تھا۔

قادر نادری انجینئر کی بیٹھکوں میں (ان کے مراد نگر والے گھر کے دیوان خانے میں اکثر و بیشتر سامنا ہونے لگا تو شروع شروع میں خوب مقابلہ آرائی ہوئی اور جب حامد مجاز کو اندازہ ہوا کہ رحمن جامی سے ترکی بہ ترکی والا معاملہ ہے تو پھر وہ میری عزت کرنے لگے وہ ’’تم‘‘ سے سیدھے سیدھے ’’آپ‘‘ پر آگئے پھر میں بھی انہیں ’’آپ‘‘ سے مخاطب کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ قربت بڑھنے لگی اور حامد مجاز براہِ راست میرے گھر ’’الحرا‘‘ (ہل کالونی، مہدی پٹنم) آنے لگے۔ ہماری بیٹھکیں مہدی پٹنم کے چوراہے پر واقع میر کیفے میں ہونے لگیں (جو اب معراج کیفے کہلاتی ہے) ’’میر کیفے‘‘ کا مالک خدا جانے کب سے حامد مجاز اور رحمن جامی کی گفتگو سن رہا تھا۔ کاؤنٹر منشی کے حوالے کرکے ہمارے قریب آیا اور بولا ’’کیا مَیں بھی آپ کی محفل میں شامل ہوسکتا ہوں‘‘۔ ہم نے اس کا استقبال کیا۔ یوں تو روز ہی اس کا سامنا ہوتا تھا اور اس کی صورت بھی آشنا آشنا سی جانی پہچانی سی لگتی تھی، لیکن جب اس نے اپنا مکمل تعارف کروایا تو پتہ چلا کہ وہ مشہور فلم ایکٹر امر ؔہے جو شروع میں کاردار کی فلموں کا ہیرو ہوا کرتا تھا۔ کاردار کی فلم ’’ناٹک‘‘ میں ثریا کا ہیرو) مگر بعد میں کیریکٹر رول ادا کرنے لگا اور خصوصیت اسے دلیپ کمار (مشہور جادوئی اداکار جس کی آج کل کے ہیرو نقل کرکے خوب شہرت کما رہے ہیں جس میں آج کل مشہور ہیرو شاہ رخ خان بھی شامل ہے) کی تقریباً ہر فلم میں امرؔ جزو لاینفک کی طرح موجود ہوا کرتا تھا۔ امرؔ کو اُردو سے بے حد محبت تھی اور بالخصوص اُردو شعر و ادب کا دیوانہ تھا۔ ہماری ’’میر کیفے‘‘ کی محفلوں میں اس کی شمولیت سے بلاشبہ رونق دوبالا ہوگئی اور وہ بھی ہماری نشستوں کا جزولاینفک بن گیا۔ میر کیفے کی ان محفلوں میں حامد مجاز کے ساتھ ساتھ مصلح الدین سعدی، مضطر مجاز، مظہرالزماں خاں کبھی کبھی ڈاکٹر یوسف کمال اور ڈاکٹر خورشید خضر بھی شامل ہوتے رہے۔ اقلیم ادب کے قیام کے بعد ساری نشستیں پروفیسر غنی نعیم کی ایماء پر انوارالعلوم کالج کے ایڈریس ہال میں ہونے لگیں جہاں نئے لکھنے والوں کی عملی تربیت بھی ہوتی۔ ڈاکٹر رحمت یوسف زئی سکریٹری تھے۔

حامد مجاز بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے، مگر جب وہ اقلیم ادب کے لائف ممبر بنے تو رحمن جامی کی صحبت میں شاعری بھی شروع کردی اور اتنی دل کو چھولینے والی شاعری کی کہ بس لطف آگیا۔ ان کی ہر نظم کا پہلا سامع راقم الحروف ہی ہوا کرتا، سب سے پہلے وہ مجھے سناتے پھر بعد میں دوسروں کو اس کے بعد چھپنے کیلئے کسی رسالے کو بھیج دیتے ۔ شروع میں ’’شب خون‘‘ اس کا محبوب رسالہ تھا اس میں چھپ کر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔ میرے نزدیک حامد مجاز کا ایک اہم کارنامہ رحمن جامی کے پہلے مجموعہ کلام ’’جامِ انا‘‘ کا انتخاب تھا۔ انہوں نے بڑے اہتمام اور بڑی محبت سے میری بیس، بائیس بیاضیوں سے ایسا کڑا انتخاب کیا کہ اسے ہر کسی نے پسند کیا۔ ان کی شرط یہی تھی کہ میں اس میں مداخلت نہ کروں۔ ان کے اس کڑے انتخاب کا نتیجہ تھا کہ ’’جام انا‘‘ کی شہرت و مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا دوسرا ایڈیشن (دوسرے معلنہ مجموعوں کو روک کر) شائع کرنا پڑا جسے ہندوستان کے مشہور و معروف ادارہ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤز دہلی نے شائع کیا۔ دوسری خاص بات حامد مجاز کی یہ تھی کہ ’’جام انا‘‘ کے انتخاب کی وجہ سے وہ تقریباً ’’حافظِ جامِ انا‘‘ ہوچکے تھے۔ اکثر ہم بھی قادر نادری، حامد مغل، سعید صحرائی، حامد مجاز کے پاس کاچی گوڑہ جاتے وہاں انداز کیفے میں بیٹھک ہوئی۔

مجھے خوشی ہے کہ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’حدود کا پہرہ‘‘ حامد مجاز کی زندگی ہی میں شائع ہوچکا تھا اور مجھے اس بات کا افتخار حاصل ہے کہ ’’حدود کا پہرہ‘‘ میری ہی نگرانی میں شائع ہوا تھا جس میں میرے معاونین میں قدیر انصاری، مرحوم (اللہ اس کو غریق رحمت کرے، اس بے شک میرے شاگردوں میں بڑا افضل و احسن مقام حاصل تھا) اور اس کے ساتھ میرے ایک اور شاگرد پروفیسر جعفر جریؔ بھی تھے۔ اس کے بعد حامد مجاز کا دوسرا مجموعہ کلام ’’شیشوں کا مسیحا‘‘ بھی حامد مجاز کے برادر محترم محمد نذیر احمد حال مقیم امریکہ اور ان کے فرزند ظفر احمد (جو محامد مجاز کی دوسری بیٹی فرحین کے شوہر ہیں) اور حامد مجاز کی بڑی صاحبزادی …… نگار خان (زوجہ عبدالمتین خان) کی ایماء و فرمائش پر میری ہی نگرانی میں حامد مجاز کی رحلت کے بعد شائع ہوا۔ شیشوں کا مسیحا‘‘ کی اشاعت میں جن احباب نے میرا ہاتھ بٹایا۔ ان میں حامد مجاز کے افرادِ خاندان کے علاوہ کشور سلطانہ جو بہت اچھی افسانہ نگار ہیں۔ ’’لمحوں کی قید‘‘ کی مصنفہ ہیں اور ان کے شوہر یوسف سعید سردار جو امریکہ میں قابل آرکیٹیکٹ ہیں اور جو حامد مجاز کے ساتھ لیبیا میں ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کے ساتھ ساتھ لیبیا جاتے ہوئے اور آتے ہوئے ہمسفر بھی رہے۔ ان کے علاوہ رضیہ عارف الدین اور نیر سلطانہ، شکور بھائی (حامد مجاز) کے بڑے بھائی۔ ان سے ہٹ کر پروفیسر غنی نعیم، رفعت صدیقی مرحوم، قدیر انصاری مرحوم، حامد مغل، قادر نادری، سعید صحرائی، ڈاکٹر عائشہ صدیقہ اور شحنہ نگار کے مضامین بھی ’’شیشوں کا مسیحا‘‘ کے آخری صفحات میں شامل ہیں جن سے حامد مجاز کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو اُجاگر کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس ’’کیری کیچر‘‘ کے آخر میں مَیں حامد مجاز ہی کا ایک شعر ان کی روح کی نذر کرتا ہوں۔
میں خوش نظر ہوں مگر اس کے دُور جاتے ہی
نظارے ڈوب گئے رہ گئی نظر تنہا