کے این واصف
ملی کونسل انڈیا کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد منظور عالم گزشتہ جمعرات کو اپنے مختصر دورہ پر ریاض آئے اور یہاں ایک خصوصی اجلاس میں ہندوستان کی سیاسی صورتحال پر ایک جامع جائزہ پیش کیا۔ آل انڈیا ملی کونسل دہلی کی حیثیت مسلم سماجی تنظیموں کے فیڈریشن کی سی ہے ۔ اپنے قیام کے اس طویل عرصہ میں ملی کونسل نے مرکزی حکومت اور قومی سیاسی پارٹیوں میں اپنی ایک اچھی شبیہ بنائی ہے ۔ وہ مرکز میں اپنا اچھا اثر و رسوخ بھی رکھتی ہے ۔ آل انڈیا ملی کونسل دہلی ایک ایسا ادارہ ہے جس کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کی وحدت و شیرازہ بندی اور ہندوستان بھر میں کام کر رہی مسلم سماجی تنظیموں اور مسلمانوں کی رہبری و رہنمائی کرنا ہے۔
ریاض میں ملی کونسل کے معاون کنوینر عبیدالرحمن نے گزشتہ جمعرات کو ڈاکٹر منظور عالم کی ریاض میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خصوصی اجلاس کا اہتمام کیا جس میں ریاض کی مختلف سماجی تنظیموں کے اراکین اور معززان شہر نے شرکت کی ۔ ہندوستان میں ان دنوں ’’عام آدمی پارٹی ‘‘ (آپ) کے نام سے ایک سیاسی انقلاب کی باتیں عام ہیں۔ نیز حالیہ عرصہ میں ہندوستان کی چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات وغیرہ کے پس منظر میں ہندوستان کے بدلتے سیاسی منظر نامے پر سیر حاصل تبصرے کیلئے ڈاکٹر منظور عالم سے اس اجلاس نے خواہش کی ۔ ڈاکٹر منظور نے نومبر / ڈسمبر کے مہینے میں ہندوستان کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن اور اس کے نتائج پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات جسے ہندوستانی میڈیا خصوصاً الکٹرانک میڈیا نے عوام کے ذہنوں پر لادنے کی کوشش کی کہ حالیہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جیت کا سبب نریندر مودی کی انتخابی مہم کا نتیجہ ہے، اس بات میں کوئی حقیقت نہیں۔
اولاً کانگریس اقتدار والی ریاست دہلی اور راجستھان میں بی جے پی کی کامیابی مودی کی مہم ہرگز نہیں۔ دہلی میں عوام کے سامنے ’’عام آدمی پارٹی (AAP) کی شکل میں ایک اچھی شبیہ کے ساتھ نیا سیاسی متبادل آیا جسے عوام نے تجربہ کے طور پر آزمایا۔ دہلی کے عام اور پڑھے لکھے طبقہ کا خیال یہ تھا کہ دہلی میں کانگریس پارٹی کی کارکردگی بہتر سہی لیکن 15 سال بعد ایک صاف و شفاف سیاسی نظام دینے کا وعدہ لیکر جو نئی سیاسی پارٹی AAP آئی ہے کو آزمایا جائے، اس تجسس نے عام آدمی پارٹی کو اقتدار کی کرسی تک پہنچادیا ۔ اگر اقلیتی طبقہ اور سرکاری ملازمین AAP کا ساتھ دیتے تو یہ پارٹی واضخ اکثریت سے دہلی میں حکومت قائم کرسکتی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ AAP کا مطلوبہ اکثریت نہ رکھتے ہوئے حکومت سازی کیلئے تیار ہونا اس کی مجبوری تھی ۔ AAP کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر وہ دہلی میں حکومت بنانے میں پیش قدمی نہ کرے تو سیاسی سازشوں کے ماہر پارٹی میں پھوٹ دلواکر اسے ایام طفلی ہی میں ختم کردیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی عوام اب نہ بی جے پی کو پسند کرتے ہیں نہ کانگریس کی حمایت، وہ اب تبدیلی چاہتی ہیں۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں صرف دہلی ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں عوام کے آگے ایک متبادل آیا تھا ۔
راجستھان اور دہلی کے چیف منسٹروں کی کارکردگی سے عوام نالاں نہیں تھے ۔ مگر مرکز میں کانگریس پارٹی کو پچھلے پانچ سال میں جو بدنامی کے داغ لگے اس کی سزا دہلی اور راجستھان کے چیف منسٹروں کو ملی ورنہ دہلی میں شیلا ڈکشٹ کی 15 سالہ کارکردگی نہ اتنی خراب تھی اور نہ راجستھان میں اشوک گہلوٹ کی پانچ سالہ حکومت میں نمایاں جھول تھے۔ گہلوٹ نے اپنے پانچ سالہ دور میں ریاست کو ہر سطح پر ترقی دی اور ریاست میں امن و امان کی صورتحال پر مکمل قابو رکھا۔ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں ان ریاستوں کے چیف منسٹروں کی اچھی کارکردگی نے انہیں اقتدار میں باقی رکھا بلکہ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان ، نریندر مودی کی طرح جھوٹے دلائل دے کر اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے اور چوہان بی جے پی میں اٹل بہاری واجپائی جیسی اعتدال پسند شخصیت کی شبیہ بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مدھیہ پردیش میں اقتدار میں بندھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب کانگریس کی شکست میں میڈیا کے یکطرفہ اور غیر منصفانہ رویہ کا بھی بڑا دخل رہا ۔ ڈاکٹر منظور نے سابق چیف منسٹر بہار لالو پرساد یادو کے حوالے سے کہا کہ آر ایس ایس نے ہندوستان کے بیوروکریٹس کے ذہنوں کو اپنی طرح کٹر فرقہ پرست بنادیا ہے اور آج ہندوستان میں بی جے پی کی کامیابیاں اسی فرقہ پرست ذہن بیورو کریٹس کی مرہون منت ہیں۔
ڈاکٹر منظور عالم نے کہا کہ عام آدمی پارٹی نے ویسے اب تک مسلم اقلیت کے بارے میں کھل کر اپنا تصور پیش نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملی کونسل انڈیا نے ہندوستانی مسلمانوں کو انتخابات کے موقع پر ہمیشہ ہی صلاح دی کہ وہ اپنے حلقہ میں ایسے امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں جس کی شبیہ اچھی ہو یا دیگر امیدواروں سے بہتر ہو اور اپنے حق رائے کے استعمال سے کبھی غفلت نہ برتیں۔ ڈاکٹر منظور نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کا کام غیر جانبدارانہ انداز میں رجحان سازی ہونا چاہئے ۔ مگر حالیہ عرصہ میں ہندوستانی میڈیا ایک غیر منصفانہ اور جانبدارانہ رویہ اپنایا ہوا ہے جس سے سارے اخبارات اور ٹی وی چیانلس کے چہرے بھی بے نقاب ہوگئے ہیں۔ یہ ملک کے جمہوری نظام اور سالمیت کیلئے ایک خطرہ بھی ہے ۔
عوام کو میڈیا کی باتیں سن کر ان پر یقین کرنے سے قبل اس میں کتنی سچائی ہے، جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔آج میڈیا کی جانبداری کی حد یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل ، مسلم اداروں کی کارکردگی ، ان کی رپورٹس اور پریس کانفرنس اور جلسے ، جلوسوں میں شرکت نہیں کرتے یا اگر شرکت کریں تو اس کی رپورٹنگ نہیں کرتے یا کچھ اخبار بالکل غیر اہم جگہ پر چھوٹی سی خبر لگادیتے ہیں۔اجلاس کا آغاز شبیر احمد ندوی کی قرأت کلام پاک سے ہوا ۔ عبیدالرحمن نے خیر مقدم کیا ۔ ڈاکٹر منظور عالم نے اپنے خطاب کے بعد حاضرین کے سوالوں کے جواب بھی دیئے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملی کونسل انڈیا اگلے ماہ ملک گیر سطح پر ’’اتحاد ملت کاروان‘‘ کا اہتمام کرے گی جو سارے ملک کا دورہ کر کے اقلیتوں میں اتحاد کا پیغام پہنچائے گی ۔ ایک مقامی ریسٹورنٹ کے ہال میں منعقدہ اس اجلاس کا اختتام عبیدالرحمن کے ہدیہ تشکر پر ہوا۔