کے این واصف
سعودی عرب میں مقیم غیر ملکیوں کیلئے ایک طرف تو یہاں اپنے قیام کے سلسلے کو قائم رکھنے کیلئے جو دشواریاں پیدا ہورہی ہیں، اس کا تفصیلی جائزہ ہم نے پچھلے ہفتہ کے کالم میں پیش کیا تھا ۔ بہت ساری اسامیوں کا مقامی افراد کیلئے مختص کیا جانا اور نقل کفانے کے سلسلے میں پابندیوں میں اضافہ کیا جانا و غیرہ یہ یہاں برسرکار خارجی باشندوں کو شدید پریشانیوں میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ اس پر سے ہر روز کوئی نہ کوئی پریشان کن اطلاع سامنے آتی ہے ۔ ایک نئی اطلاع یہ ہے کہ نجی اداروں کے غیر ملکی ملازموں سے ایک ہفتہ بعد ماہانہ 400 ریال کی وصولی شروع کردی جائے گی ۔ یہ وصولی 2018 ء کے قومی بجٹ کے تحت ہوگی ۔ وزارت خزانہ نے ٹوئیٹر کے اکاؤنٹ پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ نجی اداروںکے غیر ملکی کارکنان سے وصولی کی جانے والی رقم سعودی عملے کے تقرر پرآنے والے اخراجات میں صرف کی جائے گی ۔ ایسی نجی کمپنی جس میں غیرملکی کارکنان کی تعداد سعودی ملازمین کی تعداد سے زیادہ ہوگی ، اس سے فی غیر ملکی کارکن ماہانہ 400 ریال جائیں گے جبکہ سعودی کارکنان سے غیر ملکی ملازمین کی تعداد کم ہونے کی صورت میں فی غیر ملکی کارکن ماہانہ 300 ریال لئے جائیں گے ۔ 2019 ء کے دوران ایسی کمپنی سے جس میں سعودی ملازمین کی تعداد غیر مل کیوں سے کم ہوگی فی غیر ملکی کارکن 600 ریال اور ایسی کمپنی سے جس میں غیر ملکی ملازمین کی تعداد سعودی کارکنان سے کم ہوگی فی غیر ملکی کارکن 500 ریال ماہانہ وصول کئے جائیں گے۔ 2020 ء میں ایسی کمپنیوں سے جن میں غیر ملکی ملازمین کی تعداد سعودیوں سے زیادہ ہوگی ۔ فی غیر ملکی کارکن 800 ریال ماہانہ لئے جائیں گے اور اگر کمپنی میں غیر ملکی ملازمین کی تعداد سعودی کارکنان سے کم ہوگی تو ایسی صورت میں فی غیر ملکی کارکن 700 ریال وصول کئے جائیں گے ۔ ویسے یہ اطلاع نئی نہیں ہے۔ اس کا اعلان ایک عرصہ پہلے ہی کردیا گیا تھا لیکن خدا بھلا کرے اس سوشیل میڈیا کے بے بنیاد خبریں پھیلانے والوں کا جو وقتاً فوقتاً یہ بتاتے رہے کہ یہ فیس کے وصول کئے جانے کی توثیق نہیں ہوئی ہے اور شاید یہ لاگو نہ ہو۔ مگراس ہفتہ سرکاری طور پر اسے لاگو کئے جانے کی توثیق کردی گئی اور اس کی ساری تفصیلات بھی جاری کردی گئیں جو ہم نے اوپر بتائیں ہیں۔ کمپنی میں سعودی اور غیر ملکی کارکنان کے شرح تعداد پر عائد ہونے والی اس فیس کو محکمہ تو کہے گا کہ یہ بوجھ کمپنیوں پر پڑے گا۔ یعنی کفیل اس کی ادائیگی کے ذ مہ دار ہوں گے نہ کہ مکفول لیکن ایک عرصہ سے یہاں کی کمپنیوں کی اقتصادی حالت خراب ہے جس کے پیش نظر یہ ممکن نہیں نظر آتا کہ اب ساری کمپنیاں اپنے ملازمین کا یہ نیا بوجھ برداشت کرسکیں گی لیکن فیس تو حکومت کو ادا کرنی ہی ہے ۔ دراصل یہاں کا لیبر ڈپارٹمنٹ کسی طرح سعودی نوجوانوں کی بیروزگاری دور کرنا چاہتا ہے جس کیلئے پہلے کئی پیشوں کو سعودیوں کیلئے مختص کیا گیا ۔ پھر ہر کمپنی کے جملہ ملازمین میں سعودیوں کی شرح مقرر کی گئی اور پھر اس میں آہستہ آہستہ اضافہ کیا جارہا ہے ۔ خارجی باشندوں کو کمپنیوں میں ملازمت حاصل ہونے کی یہ وجہ ہے کہ وہ جس تنخواہ پر کام کیلئے راضی ہوتے ہیں اتنی تنخواہ پر مقامی لوگ کام کرنے تیار نہیں ہوتے۔ لہذا یہ سعودی باشندوں کی کمپنی میں کم شرح پر فیس عائد کر کے خارجی باشندوں کو بھی مہنگا بنانا چاہتی ہے تاکہ آجرین مقامی نوجوانوں کو ملازمت دیں ۔ مگر ایک خوف یہ بھی ہے کہ وہ خارجی باشندوں سے یہ کہیں گے کہ اگر اپنی ملازمت قائم رکھنی ہے تو اپنی فیس خود ادا کرو پوری یا جزوی اور اگر ایسا ہوا تو خارجی باشندے شدید مالی بحران کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ پہلی جنوری سے یہاں VAT (ویلیو ایڈڈ ٹیکس) بھی لاگو ہوجائے گا۔ بتایا گیا کہ VAT فیکٹری سے لیکر آخری سودے تک لیا جائے گا۔ یہ وضاحت VAT انتظامیہ نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر مقامی شہری کے سوال پر کی ۔ دریافت کیا گیا تھا کہ اگر کسی سامان کی قیمت 100 ریال ہو تو کیا VAT کے بعد 105 ریال ہوجائے گی ؟ انتظامیہ کے جواب دیا کہ اگر فیکٹری نے تاجر کو 100 ریال کی شئے فروخت کی تو VAT کے بعد اس شئے کی قیمت 105 ریال ہوگی ۔ چیز خریدنے والا تاجر 5 فیصد کے اضافے کے بعد اسے 110 ریال میں فروخت کرے گا ۔ اسی طرح اگر ایک تاجر دوسرے تاجر کو فروخت کرتا رہے تو ہر سودے پر 5 فیصد ٹیکس بڑھتا چلا جائے گا ۔ ایسا نہیں ہوگا کہ فیکٹری سے نکلنے والی 100 ریال کی قیمت کی شئے ایک تاجر سے دوسرے ، تیسرے ، چوتھے ، پانچویں تاجر سے گزر کر آخری سودے پر 105 ریال ہی میں فروخت ہو۔ انتظامیہ نے توجہ دلائی کہ VAT ہر مرحلے میں لگایا جائے گا۔ جتنے تاجر بڑھیں گے۔ اتنی ہی بار ٹیکس لگے گا۔ فیکٹری سے پہلے سودے پر ٹیکس حتمی نہیں ہوگا۔ یہ ٹیکس طبی اور دیگر خدمات پر بھی لاگو رہے گا تو اندازہ کیجئے کہ صارفین پر مالی بوجھ میں کتنا اضافہ ہوگا اور ادھر تنخواہوں میں اضافہ ہونے کی بجائے اس میں کمی واقع ہو تو پھر یہ ملازم پیشہ غیر ملکی کس طرح یہاں جی پائیں گے۔ شکر ایک ایسا ملک جس کی 70 فیصد آبادی آج بھی دیہاتوں میں بستی ہے اس ملک کو Cashless سوسائٹی بنانے کا منصوبہ اس بات پر غور کرے بغیر کہ ملک کی شرح خواندگی کیا اور ان سب پر ٹیکسوں میں اضافہ ۔ یہ تو ہوئے اقتصادی حصے کی مشکلیں۔ اگر ہم این آر آئیز ملک کے سماجی حالات پرنظر ڈالتے ہیں تو اور بھی مایوسی ہوتی ہے۔ ملک کے نوجوانوں کو روزگار فراہمی میں بری طرح ناکام سرکار ان کو ظلم و زیادتی کرنے اور غنڈہ گردی کی طرف مائل کر رہی ہے ۔ کیا ملک کی سیکوریٹی کے ذمہ دار ادارے ناکارہ اور غیر کارگرد ہوگئے ہیں کہ گلی گلی اینٹی رومیو اسکارڈ ، گاؤ رکھشک، یہ سینا وہ گروپ بناکر غنڈہ گردی کو سماجی خدمت کا لبادہ پہنایا جارہا ہے ۔ ہمیں یہ جان کر سخت حیرانی اور تکلیف ہوئی کہ ملک میں اب ایسی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں جو ظالموں اور قاتلوں کی قانونی اور مالی مدد کر نے کیلئے قائم کی گئی ہیں۔ ملک میں کس قسم کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ اب امن پسند اور شریف النس لوگ گھر سے نکلنے ڈرنے لگے ہیں ۔ ہم خلیجی این آر آئیز جو کئی کئی دہائیوں سے یہاں ایک پرسکون اور پرامن زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں وطن آنے سے خوف کھانے لگے ہیں۔ دو روز قبل ہمیں ٹی وی پر ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کو دہلی میں گجرات الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی ہیڈکوارٹر میں پارٹی کارکنان سے خطاب میں آخر میں یہ کہتے ہوئے سنکر حیرانی ہوئی کہ ہماری کامیابی ترقی (وکاس) کے نام پر ہوئی۔ آخر میں انہوں نے نعرہ بھی لگایا ’’جیتے گا بھئی جیتے گا وکاس ہی جیتے گا ‘‘ ملک میں اسی طرح کا ’’وکاس‘‘ لانے کیلئے آپ اقتدار میں آئے تھے۔ کیا اسی کو کہتے ہیں ترقی ، یہی اچھے دن ہیں جس کا وعدہ آپ نے کیا تھا ۔ خیر یہ بے بنیاد ترقی کے نعرے اور جھوٹے دلاسے زیادہ دن تک نہیں چلیں گے کیونکہ گجرات میں بی جے پی کی ہار نہیں ہوئی مگر اس کے قلعے میں دراڑ تو پڑگئی ہے ۔ اب اس کے ٹوٹنے میں دیر نہیں لگے گی۔
گرفتاریاں
مملکت بھر غیر قانونی خارجی باشندوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گرفتاریوں سے متعلق جاری تازہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک سارے ملک سے دو لاکھ 17 ہزار سات سو افراد گرفتار کئے گئے ۔ یہ ساری گرفتاریاں مہلت کی مدت ختم ہونے کے بعد سے صرف پانچ ہفتوں کے دوران کی گئیں لیکن ان گرفتار شدہ افراد میں 99 فیصد یمنی اور ایتھوپین ہیں اور باقی ایک فیصد میں دیگر ممالک کے لوگ ہیں۔ یہ یمنی اور ایتھوپین باشندے سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کبھی مملکت میں داخل ہوگئے تھے اور برسوں سے یہاں غیر قانونی حیثیت میں مقیم تھے ۔ ایسے لوگ داخلی سلامتی کیلئے خطرہ بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کا ملک سے نکالا جانا واجبی ہے ۔ مملکت کی جانب ان کے خلاف سخت کارروائی کرنا بھی حق بجانب ہے لیکن قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندے جنہوں نے مملکت کی تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کیا جنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ یہاں گزارا ، جنہوں نے اپنی ساری توانائیاں اور اپنا عہد شباب اس سرزمین جسے وہ اپنا وطن ثانی تصور کرتے ہیں، ان افراد پر فیس اور ٹیکس وغیرہ کا بوجھ کم کئے جانے پر اگر مملکت ہمدردانہ غور کرے تو یہ لاکھوں غیر ملکی پریشانیوں سے نجات حاصل کریں گے ۔ ویسے بدھ کے روز سعودی عرب کے تاریخی سالانہ بجٹ کا اعلان ہوا ہے ، اس سے کچھ امیدیں بندھی ہیں کہ نئے سال میں سعودی عرب میں رہنے والے مقامی اور غیر ملکی باشندوں کو کچھ راحت حاصل ہوگی کیونکہ یہ سعودی عرب کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ بتایا گیا ہے جس میں بہت بھاری بھاری رقوم مختلف ترقیاتی کاموں کیلئے دی گئیں ہیں۔ جب اس بھاری بجٹ سے تر قیاتی پراجکٹ شروع ہوں گے تو مارکٹ میں پیسہ آئے گا تو اس کے فائدے عام لوگوں تک پہنچیں گے ۔
knwasif@yahoo.com